ٹارگٹ،ٹارگٹ،ٹارگٹ۔قسط10،کرنل ضیا ءشہزاد

خالی کھوکھا!
پی ایم اے کی حیدرپلاٹون اس لحاظ سے ایک منفرد مقام کی حامل تھی کہ اس میں زمانے کے ستائے ہوئے کیڈٹ حضرات کی اکثریت تھی۔ زیادہ تر دوستوں کو من موجی کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ کسی نہ کسی وجہ سے ہم سب کاسینئرز، سٹاف اور پلاٹون کمانڈر کے زیر عتاب رہنا ایک لازمی امر تھا۔ ہاں ہمارے دوست منصور اس باب میں ایک علیحدہ شناخت رکھتے تھے۔ ان کا تعلق کیڈٹس کی اس کیٹیگری سے تھا جسے عرف عام میں ’’پَھٹو‘‘ کہا جاتا ہے۔ ہر معاملے میں احتیاط سے کام لینا ان کی عادت ثانیہ تھی اور فرمانبرداری تو گویا ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ اول تو وہ کسی کو شکایت کا موقع دیتے نہیں تھے لیکن اس کے باوجود اگر بھولے سے کبھی کوئی غلطی ہو بھی جائے تو  پنشمنٹ بھی اتنی ذمہ داری سے کرتے کہ سب عش عش کر اٹھتے۔ انہی گوناگوں خصوصیات کی بنا پروہ تمام سینئرز، سٹاف اور پلاٹون کمانڈروں کی آنکھ کا تارا بنے ہوئے تھے۔ اس انتہا کو چھوتی ہوئی فرمانبرداری اور احتیاط پسندی کی وجہ سے کبھی کبھی تو ان پرانسان کے بجائے روبوٹ کا گمان ہونے لگتا تھا۔

ان دنوں کیڈٹس کو معمول کی جنگی مشقوں کے دوران ڈمی راؤنڈ ایشو کیے جاتے تھے۔ یہ راؤنڈ دیکھنے میں اصلی راؤنڈ کی طرح ہوتے تھے لیکن ان میں گولی نہیں ہوتی تھی۔ان کو رائفل میں ڈال کر نارمل طریقے سے فائر کیا جاتا تھا۔ فائر کی آواز بالکل اصلی راؤنڈ کی مانند آتی تھی اور خالی کھوکھا رائفل سے باہر نکل کر گر جاتا تھا ۔یہ خالی کھوکھے بہت اہمیت کے حامل تھے کیونکہ ان کو اکٹھا کر کے اپنے پاس جمع کر لیا جاتا اور واپس پہنچ کر ایمونیشن این سی او کے پاس جمع کروادیا جاتا تھا۔ اگر کوئی خالی کھوکھا کسی وجہ سے گم جائے تو کیڈٹ کے خلاف سخت تادیبی کارروائی متوقع ہوتی تھی۔

ایک بار پورے کورس کو ایک دن پر مشتمل جنگی مشق کے لیے اکیڈمی سے باہر کیمپ کرنا تھا۔ ایک ہفتہ پہلے ہم سب نے تیاریاں شروع کر دیں ۔ مقررہ روز ہر کیڈٹ نے اپنی اپنی رائفل اور ساتھ میں دس دس ڈمی راؤنڈ ایشو کروائے۔ فیلڈ ایریا میں پہنچ کر پلا ن کے مطابق کورس کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ آدھی پلاٹونوں کو دفاعی مورچے تیار کرنے کا حکم ملا جب کہ باقی کی پلاٹونوں کو حملہ کر کے دفاعی پوزیشنز پر قبضہ کرنے کا ٹاسک سونپا گیا۔ہماری پلاٹون ایسی ہی ایک پوزیشن کے دفاع کی ڈیوٹی سر انجام دے رہی تھی ۔ ہم سب نے سکھائے گئے طریقے کے مطابق دفاعی اقدامات کا بندوبست کیا۔ پورا دن لگا کر مورچے کھودے گئے اور ان کو دشمن کی نظروں سے بچانے کے لیے کیموفلاج کا اہتمام بھی کیا گیا۔ ہر طرف سے مطمئن ہو کر ہم نے ان مورچوں میں پوزیشنز سنبھال لیں اور رائفلوں میں ڈمی راؤنڈز بھر کر حملہ آور پلاٹونز کا انتظار کرنے لگے۔

شام کے قریب اچانک ایک طرف سے حملہ آوروں کا شور سنائی دیا ۔ ہم پر لگاتار ڈمی راؤنڈ فائر کیے جارہے تھے۔ جواباً ہم نے بھی متواتر ڈمی راؤنڈ فائر کرنا شروع کیے۔تھوڑی دیر میں دونوں جانب کا اسلحہ ختم ہو گیا اور اس کے ساتھ ہی جنگی مشق کا یہ مرحلہ بھی اختتام پذیر ہوا۔ پلاٹون کمانڈروں نے اپنی اپنی پلاٹون کو اکٹھا کیا اور ڈی بریفنگ سیشن کا آغاز کر دیا جس کا مقصد مختلف مراحل میں ہونے والی غلطیوں کا جائزہ لینا اور ان کی درستی کروانا تھا۔ آخر میں ایس او پی کے مطابق انہوں نے تمام کیڈٹس کو حکم دیا کہ اپنی رائفلز اور ایمونیشن کے بارے میں آل اوکے کی رپورٹ دیں تاکہ پیک اپ کر کے واپس اکیڈمی کی جانب روانہ ہوا جائے۔ سب کیڈٹس نے اپنے اپنے ہتھیاروں کا جائزہ لیا اور خالی کھوکھوں کی گنتی مکمل کی ۔ باری باری ہر کیڈٹ نے بلند آواز میں آل اوکے رپورٹ دینا شروع کی۔ ہوتے ہوتے جب منصور کی باری آئی تو سلسلہ وہیں رُک گیا۔ منصور نے یہ ہولناک انکشاف کیا کہ ان کا ایک خالی کھوکھا گم ہو چکا ہے۔

یہ سن کر پلاٹون کمانڈر سمیت سب نے اپنا اپنا سر تھام لیا،کیونکہ کھوکھا ڈھونڈے بغیر ہمارا واپس جانا ممکن نہ تھا۔ ہم چند لمحے پہلے خیالوں ہی خیالوں میں میس کے مرغن کھانوں سے زور آزمائی کر رہے تھے، ہاتھوں میں ٹارچیں پکڑ کر جنگل سے خالی کھوکھا برآمد کرنے میں جت گئے۔ اس جنگل بیابان میں اندھیرے کے عالم میں دو انچ کا خالی کھوکھا برآمد کرنا آنکھوں پر پٹی باندھ کربھوسے کے ڈھیر سے سوئی برآمد کرنے کے مترادف تھا۔ ہم سب پورا دن کے تھکے ہوئے تھے لیکن پھر بھی انتہائی جانفشانی سے اس کٹھن کام کا بیڑہ اٹھائے ہوئے تھے۔منصور کے مورچے کے دور و نزدیک نہایت باریک بینی سے چپہ چپہ چھان مارا گیا لیکن خالی کھوکھے نے ملنا تھا نہ ملا۔ پریشانی تھی کہ حل ہونے کی بجائے بڑھتی چلی جا رہی تھی۔خدا جانے اس کم بخت کھوکھے کو زمین کھا گئی تھی یا آسمان۔ اسی تگ و دو میں رات کے بارہ بج گئے ۔

پلاٹون کمانڈر نے ایک بارپھر ہم سب کو اکٹھا کیا اور منصور سے تفتیش کا آغاز کیا۔ انہوں نے منصور سے پوچھا کہ اس نے رائفل میں کتنے راؤنڈلوڈ کیے تھے تو اس نے جواب دیا ’صرف ایک۔‘ اس پر پلاٹون کمانڈر نے سر پیٹ لیا اور منصور کو رائفل کاک کرنے کا حکم دیا۔ منصور نے رائفل کاک کر لی تو پلاٹون کمانڈر نے پورے کورس کو اکٹھا کیا اور موصوف کو سب کے سامنے رائفل کا رخ آسمان کی جانب کر کے ٹریگر پریس کرنے کا حکم دیا۔ منصور نے جونہی ٹریگر پریس کیا تو فائر کی آواز سنائی دی اور خالی کھوکھا چیمبر سے باہر ہوا میں بلند ہوا جسے پہلو میں کھڑے شکیل نے قلابازی لگا کر دبوچ لیا۔ پورے کورس کی زبان سے ایک ساتھthanks Godکے الفاظ برآمد ہوئے۔ ہوا یوں تھا کہ منصور نے اس ڈر سے دس کی جگہ صرف ایک راؤنڈ ایشو کروایا تھا کہ کہیں راؤنڈ یا خالی کھوکھے گم نہ ہو جائیں ۔ اس نے وہ ایک راؤنڈ رائفل میں لوڈ تو کیا لیکن فائر کرنا بھول گیا۔ وہ راؤنڈ رائفل کے اندر ہی موجود رہا جبکہ اس کا خالی کھوکھا پورا کورس سات گھنٹوں تک تلاش کرتا رہا۔ واپس پہنچ کر میس کا رخ کرنے سے قبل منصور کی کمبل پریڈ کا شاندار اہتمام کیا گیا جس میں پورے کورس نے نہایت اہتمام سے حصہ لیا۔

سیاچن اور ریڈیو!
ریڈیو پاکستان کی قدر و قیمت کا جتنا احساس سیاچن میں خدمات سرانجام دینے والے فوجیوں کو ہوتا ہے اتنا شاید ہی دنیا میں کسی اور کو ہو گا۔ گئے وقتوں میں ریڈیو کو معاشرے میں ایک نمایاں مقام حاصل تھا۔ ریڈیو کے پروگرام تمام اہل خانہ اکٹھے بیٹھ کر سنا کرتے اور اس سے پہلے غیر معمولی اہتمام کیا جاتا۔سرِشام صحن میں خوشبو ملے پانی کا چھڑکا ؤکرنے کے بعد چارپائیاں ترتیب سے بچھا دی جاتیں اور درمیان میں ریڈیو سیٹ کو دلہن کی مانند سجا کر ایک اونچی میز پر رکھ دیا جاتا۔ ریڈیو پاکستان کے ساتھ ساتھ بی بی سی کے پروگرام بھی بڑے شوق سے سنے جاتے۔ ریڈیو کے فنکار اور کردار جیسے تلقین شاہ، نظام دین، جیدی وغیرہ اس دور میں افرادِ خانہ کی حیثیت اختیار کر چکے تھے۔ لیکن ایک وقت آیا کہ یہ سہانا دور اختتام پذیر ہوا اور آہستہ آہستہ ٹی وی نے ریڈیو کی جگہ لے لی۔

ہم نے ہوش سنبھالا تو پی ٹی وی اپنے سنہری دور سے گزر رہا تھا لیکن ریڈیو کی اہمیت ابھی پوری طرح سے ختم نہیں ہوئی تھی۔ پی ٹی وی کی نشریات ان دنوں شام پانچ بجے سے رات گیارہ بجے تک ہو اکرتی تھیں۔ چنانچہ باقی کا تمام وقت ریڈیو کے ساتھ بسر کیا جانا ایک مجبوری بھی تھی اور ذوق اور شوق کا تقاضا بھی۔ تازہ خبروں کے حصول، فلمی نغمات اور میچوں کی کمنٹری کے لیے اب بھی ریڈیو پر ہی انحصار کیا جاتا تھا۔ ریڈیو سے ہماری محبت کا آغاز بچپن سے ہی ہو گیا تھا جس میں بعد میں اور تیزی آتی چلی گئی۔ پی ایم اے پہنچے تو وہاں بھی ریڈیو سے لو لگائے رکھی لیکن 1995 میں ہمارے پاس آؤٹ ہونے کے بعددنیا یکسر ہی بدل گئی۔ ڈش کا آفتاب پوری آب و تاب سے طلوع ہو چکا تھا ۔ اب سیٹلائٹ ٹی وی چوبیس گھنٹے لائیو کوریج اور چینلز کی ورائٹی کے ساتھ میدان میں موجود تھا چنانچہ ریڈیو کو منظر عام سے اچانک غائب ہوتے ہی بنی ۔

1998 میں جب سیاچن کا قرعہ فال ہمارے نام نکلا تو سینئر حضرات نے بتایا کہ سیاچن میں کھائے پیے بغیر گزارا ممکن ہے لیکن ریڈیو کے بغیر زندہ رہنے کا تصور بھی محال ہے۔ ہم نے بازار میں ریڈیو سیٹ کی تلاش شروع کی اور بڑی مشکل سے ایک عدد مناسب سائز کا ریڈیو ڈھونڈ نکالنے میں کامیاب ہو گئے۔ پوسٹ پر پہنچنے تک تو یہ ریڈیو سیٹ ہمیں فالتو بوجھ کی طرح لگتا تھا لیکن پوسٹ پر پہنچ کر ہم ان حضرات کو لاکھ لاکھ دعائیں دیا کرتے جنہوں نے ہمیں اسے ساتھ لانے کا مشورہ دیا۔ وہاں پہنچ کر ریڈیو ہمارے لیے لائف لائن کی شکل اختیار کر گیا جو سیاچن کے جگر پاش ماحول کو گرمانے کا واحد ذریعہ تھا۔ ان دنوں معمول کے پروگراموں کے ساتھ ساتھ ریڈیو پاکستان سے سیاچن پر موجود سپاہیوں کے لیے جاگتا پاکستان کے نام سے خصوصی پروگرام بھی نشر کیا جاتا تھا۔ سیاچن کے باسیوں کے لیے یہ پروگرام سننا گویا فرض العین تھا۔صبح ہی سے اس پروگرام کا بے تابی سے انتظار شروع کردیا جاتااوراس سے قبل تمام ضروری امور نمٹا لیے جاتے۔ رات گیارہ بجے پوسٹ پر موجود تمام لوگ اکٹھے بیٹھ جاتے اور انتہائی والہانہ انداز میں یہ پروگرام سنتے۔ پروگرام کے بعد اس پر تبصرے کیے جاتے اور اپنا نام اور فرمائش اس میں شامل کروانے کے لیے خطوط بھی لکھے جاتے۔

یہ پروگرام ویسے تو ہر لحاظ سے دلچسپی کا حامل تھا لیکن اس کی حد درجہ مقبولیت کی اصل وجہ کچھ اور تھی اور وہ یہ کہ اس پروگرام میں ایک فون نمبر دے دیا جاتا جس پر سیاچن میں موجود لوگوں کے افراد خانہ پہلے سے بات کر کے اپنی آواز میں پیغام ریکارڈ کروادیا کرتے۔ یہ پیغامات اس پروگرام کے دوران نشر کیے جاتے۔ سیاچن پر موجود جس شخص کے لیے بھی یہ میسج آن ائیر ہوتا اس کوباقی سب کی جانب سے خصوصی مبارکباد دی جاتی۔ افراد خانہ کی خیریت معلوم ہونے سے دوریاں اور فکریں چھٹ جاتیں اور یک گونہ قلبی سکون حاصل ہوتا۔ ہر شخص کو اپنا نام پکارے جانے کا نہایت شدت سے انتظار ہوتا۔ پورا پروگرام اسی شوق سے سنا جاتا اور اگر نام شامل نہ ہو تو مزید شدت سے اگلے دن کے پروگرام کا انتظار شروع کر دیا جاتا۔ ہماری شادی کو ان دنوں چار پانچ ماہ کا عرصہ ہوا تھا اورسر منڈواتے ہی قسمت ہمیں سیاچن کی برفیلی وادیوں میں اولوں اور گولوں کا مزہ لینے کے لیے کھینچ لائی تھی۔ایسے میں اگر جاگتا پاکستان نہایت غور سے سننے والوں میں ہمارا نام سرفہرست تھا تو اس میں اچنبھے کی ہرگزکوئی بات نہیں تھی ۔

کچھ دنوں بعد ہمارے ایک کورس میٹ کیپٹن ارشد بھی سیاچن میں ہمارے ساتھ والی پوسٹ پر پہنچ گئے۔ ہماری ان سے روزانہ فون پر بات چیت رہا کرتی۔موصوف ابھی غیر شادی شدہ تھے ۔ایک دن ان کے لیے جاگتا پاکستان میں یہ میسج نشر کیا گیا ’’ارشد بھائی السلام علیکم !میں آپ کا چھوٹا بھائی بول رہا ہوں۔ آپ ہماری طرف سے بالکل بھی پریشان نہ ہوں۔ سب گھر والے خیریت سے ہیں اور آپ کو یاد کر رہے ہیں ۔ سامنے والے بھی خیریت سے ہیں اور پوچھ رہے ہیں کہ آپ کب واپس آئیں گے۔‘‘ پروگرام ختم ہوا اور ہم نے انہیں مبارکباد کے لیے فون کیا توان کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔’’سامنے والوں‘‘کے بارے میں ہم نے بہت دریافت کیا لیکن موصوف کچھ بتانے پر آمادہ نہ ہوئے۔ البتہ اس قسم کے پیغامات نشر ہونے کا سلسہ بعد میں بھی تواتر کے ساتھ جاری رہا۔سولہ سال کے وقفے کے بعدہماری ایک سٹیشن پراکٹھے پوسٹنگ ہو گئی۔ ہم نے انہیں اپنے گھر فیملی سمیت کھانے پر مدعو کیا تو وہ اس شرط پر آمادہ ہوئے کہ ہم سیاچن والے پیغامات کا ذکر ان کی بیگم کے سامنے ہرگز نہیں کریں گے۔

بیس آف فائر!
ہم ان دنوں پی ایم اے کی آخری ٹرم میں اور پاسنگ آؤٹ سے دو چار قدم کے فاصلے پرتھے ۔ انہی دنوں ایک فیلڈ ایکسرسائز کے لیے کورس نے دس دنوں کے لیے مانسہرہ کی نواحی پہاڑیوں پر کیمپ کیا۔ ایکسرسائز کے اختتام پر کورس کو دشمن کی ایک پہاڑی پر قبضہ کرنے کا ٹاسک ملا۔ دو کمپنیوں نے اس پہاڑی پر یکے بعد دیگرے حملہ کر کے اپنی فتح کا جھنڈا گاڑنا تھا۔ ہماری پلاٹون کو سامنے والی پہاڑی پر موجود رہ کر مارٹر اور مشین گنوں کی مدد سے فائری امداد مہیا کرنا تھی۔ اب اس قسم کی جنگی مشق کے دوران اسلحہ تو اصل استعمال کیا جاتا ہے لیکن حفاظتی تقاضوں کی بنا پر اصل گولہ بارود کا استعمال نہیں کیا جاتا۔ تاہم جنگی ماحول، گھن گرج اور مطلوبہ تاثر پیدا کرنے کے لیے کئی اور طریقے اختیار کیے جاتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے ہمیں کافی تعداد میں فائر کریکر مہیا کیے گئے تھے۔ جب ہماری کمپنی دشمن کے مورچوں پر حملہ آور ہو رہی ہوتی تو ہم نے وہ کریکر چلا کر فائر بیس سے فائر ی امداد مہیا کرنے کا تاثر پیدا کرنا تھا۔

پانچ کلومیٹر پیدل چل کر ہم سب مطلوبہ جگہ تک پہنچے۔ حملہ آور کمپنیوں نے پہاڑی سے کچھ دور پوزیشن سنبھال لی اور ہماری پلاٹون نے فائری امداد مہیا کرنے کے لیے دوسری پہاڑی پر قبضہ جما لیا۔ سب کچھ پلان کے مطابق درست طریقے سے ہو رہا تھا۔ ٹھیک اسی وقت کمانڈنٹ پی ایم اے بھی ایکسرسائز کا معائنہ کرنے کے لیے پہنچ گئے۔ ادھر حملہ آور پلاٹون نے طے شدہ ہدف کی جانب رینگنا شروع کیا اور اِدھر ہم نے اپنے پٹاخوں کو تیلی دکھانا شروع کی ۔ہمارے پٹاخے شاید زیادہ زرخیز ہونے کی خاطر ذرا سے نم ہو چکے تھے لہٰذا ہماری انتھک کوشش کے باوجود انہوں نے جلنے کا نام تک نہیں لیا ۔ وقت ہاتھ سے نکلتا دیکھ کر ہمیں اور کچھ نہیں سوجھا تو تمام کے تمام پٹاخے ایک جگہ جمع کیے اور انہیں تیلی دکھا دی۔ نتیجتاًیکے بعد دیگرے زوردار دھماکے ہونے شروع ہوگئے ۔

ہمارا مطلوبہ مقصد تو حاصل ہو گیا لیکن یکایک ان پٹاخوں سے نکلنے والی چنگاریاں دور دور تک پہنچنا شروع ہو گئیں۔ پورے علاقے میں سرکنڈے اگے ہوئے تھے جنہوں نے فورا آگ پکڑ لی جو بڑی سرعت کے ساتھ پوری پہاڑی پر پھیل گئی۔ یہ سب دیکھ کر ہمارے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی اور ہم سب کچھ بھول بھال کر آگ بجھانے میں مشغول ہو گئے۔ ہمارے پاس آگ بجھانے کے لیے پانی کی بوتل میں موجود چلو بھر پانی کے علاوہ کچھ بھی نہ تھا سو سب سے پہلے اسی کی قربانی دی گئی۔ لیکن اس سے بھلا کیا فرق پڑسکتا تھا۔ بیلچوں کی مدد سے ریت بھر کر آگ پر ڈالنے کی کوشش کی گئی لیکن اس سے بھی کچھ افاقہ نہ ہوا۔بہرحال آگ کافی دیر تک جلنے کے بعد خود بخود بجھ گئی۔

Advertisements
julia rana solicitors

اتنی دیر میں اٹیک بھی اختتام پذیر ہو چکا تھا۔ پورے کورس کو ایک جگہ پر اکٹھا ہونے کا حکم ملا۔ ہم بھی مرے مرے قدموں سے سوئے مقتل روانہ ہوئے۔ اتنی ’’شاندار‘‘ کارکردگی کے نتیجے میں ہمیں اپنی موت صاف نظر آرہی تھی۔کمانڈنٹ نے خطاب شروع کیا۔ انہوں نے کورس کی کارکردگی کو سراہا اور بالخصوص ہماری پلاٹون کو شاباش دی۔ہمیں یقین نہیں آ رہا تھا کہ یہ ہم کیا سن رہے ہیں کیونکہ اس کے برعکس ہم تو اپنے بارے میں سخت برا بھلا سننے کے منتظر تھے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ اٹیک کے دوران جب کمانڈنٹ کو بریفنگ دی جا رہی تھی تو ہماری پہاڑی پر ہونے والے زور دار دھماکوں اور اس کے بعد جلنے والی آگ نے ان کی توجہ اپنی طرف کھینچ لی ۔ انہیں بتایا گیا کہ وہ فائر بیس کا علاقہ ہے اور جنگ کا ماحول پیدا کرنے کے لیے لڑکوں نے ادھر آگ جلائی ہے۔ اس پر کمانڈنٹ بہت خوش ہوئے کہ اس پلاٹون نے جنگی ماحول تشکیل دینے میں خاصی محنت کی ہے اور اس میں پوری طرح سے کامیاب بھی ہوئے ہیں۔ہاتھی کے پاؤں میں سب کا پاؤں۔ کمانڈنٹ کی جانب سے تعریف ہونے کے بعد ہر کسی نے ہماری کارکردگی کو سراہا ، لیکن اصل بات تو ہمارا دل ہی جانتا تھا یا اب آپ جان گئے ہیں۔
….. (جاری ہے)

Facebook Comments

کرنل ضیا شہزاد
کہ آپ اپنا تعارف ہوا بہار کی ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply