پہلی بھڑاس از مکالمہ

کہانی کچھ یوں ہے کہ اس عاجز کی عمر لگ بھگ سات آٹھ سال تھی کہ گھر کے ایک مخصوص کمرے کی مخصوص الماری میں پڑی والد محترم کی درجنوں کتابوں پر نظر پڑتی تو بندہ کے دل کے تار میں ایک حسین ارتعاش پیدا ہوتا اور الماری کے قریب کھڑا ہو کر دیوانوں کی طرح کتابوں کو تکنا شروع کر دیتا۔ پھر ان کتابوں کو تکتے تکتےنگاہ التفات کسی انجان کتاب پر جا رکتی اور ہاتھ بے ساختہ اس انجان مگر مانوس کتاب کی طرف بڑھ جاتا۔ کتابوں سے انجان اس لئے تھا کہ اس کم عمری میں نہ میری بساط تھی کہ اتنے مشکل اور دقیق موضوعات پر لکھی ہوئی کتابوں کے بارے میں کچھ واقفیت ہوتی اور مانوس اس لئے کہ شاید میری روح میں کتابوں اور علم و دانش سے دوستی اور محبت کا خمیر پیدائشی تھا۔ میں کسی بھی نئی کتاب کی طرف ہاتھ بڑھا کر اٹھا لیتا اور گھر کے کسی خاموش اور پر سکون کونے میں اسے اپنی گود میں رکھ کر پڑھنا شروع کر دیتا۔ ان کتابوں کی فصاحت و بلاغت تو میرے شعور کی سطح سے کافی بلند ہوتیں لیکن کچھ سمجھ آنے اور نا آنے کے باوجود کبھی بوریت نہیں ہوئی۔ ساری کی ساری کتاب ختم کر کے دم لیتا۔ کم ہی کوئی بات سمجھ آتی زیادہ تر اوپر سے گزر جاتیں۔

وقت گزرتا چلا گیا اور کتابوں سے اٹھکیلیاں کرنے کا شوق جنون میں بدل گیا۔ اب شعور پختہ ہو رہا تھا اور کتابی باتیں قدرے سمجھ آنے لگی تھیں۔ میں کتابوں سے خوب مغز ماری کرتا اور خوب علمی پیاس بجھاتا لیکن ایک انجان سی خلش دل میں محسوس ہوتی۔ روح خالی خالی اور نا سمجھ آنے والی تشنگی کا شدید احساس رہتا۔ خاموشی سے چیختے چنگھاڑتے احساسات دل میں جنم لیتے مگر اپنا صحیح پتا نا دیتے، یہ ایسے احساسات تھے جنہوں نےمیری روح میں ایک شور برپا کر رکھا تھا مگر میری زبان انکو بیان کرنے سے قاصر تھی کیونکہ میں سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ آخر روح کا مطالبہ کیا ہے۔ بات میری سمجھ سے بالا تھی کہ میں سارا دن اپنا کتاب بینی کا شوق پورا کرتا ہوں لیکن پھر یہ تشنگی کیسی؟

وقت گرتا چلا گیا یہاں تک کہ میں نے گریجویشن کر لی اور میرا کتاب بینی کا شوق اب جنون میں بدل چکا تھا لیکن وہ خاموش تشنگی اب اور بڑھ گئی تھی۔ معاملہ اب بھی میری سمجھ سے بالا تھا کہ آخر یہ بے سکونی کیسے ختم ہو؟ اب معاملہ دعاوں تک جا پہنچا، یااللہ! کوئی عقدہ کھول بات سمجھ میں آئے آخر معاملہ کیا ہے؟ دل میں یہ خیال گزرا کہ کتابوں سے زیادہ دوستی ہی شاید بے سکونی کا باعث ہے۔ چنانچہ ارادہ کیا کہ اس شوق سے روپوشی اختیار کر لی جائے شاید سکون مل جائے، لیکن معاملہ اب اور بھی بگڑ گیا۔ اب تو بے سکونی اتنی زیادہ ہوئی کہ روح اور جسم کی جنگ شروع ہوگئی۔ ان دونوں کی مدبھیڑ میں میرا حال ایک پاگل دیوانے مجنوں سا ہو گیا۔ میرا کنٹرول نا جسم پر رہا اور نا روح پر، میں اور زیادہ پریشان ہو گیا۔ اب دعاؤں کا سلسلہ شروع ہوا۔ آخر کسی بے بس کا اپنے رب کے سوا سہارا ہی کیا ہے۔ سارے گُر اور داؤ پیج جب خالی جائیں تو آخر اخیر بندے کو رب کا در یاد آتا ہے۔ مالک! ایک انجان سی نے سکونی ہے جو تجھے سجدہ کرنے سے جاتی ہے اور نا تیرے کلام کی تلاوت سے۔ آخر مجھ سے ایسا کیا گناہ سرزد ہوگیا ہے کہ میں عرصہ دراز سے عذابِ مسلسل میں گرفتار ہوں۔مالک! کوئی سبیل فرما کہ مدعہ سمجھ میں آئے، عقدہ کھلے ، دل گرفتگی دور ہو جائے۔ کوئی سکون نصیب ہو اور اس دل گرفتگی سے جان چھوٹے۔

پھر یونیورسٹی کے زمانے میں ایک مضمون نگاری کا مقابلہ منعقد ہوا جس کا موضوع تھا "پاکستان کی معیشت کا جائزہ پارٹیشن سے اب تک" جہاں ڈیپارٹمنٹ کے اچھے اچھے لکھاریوں نے قلم اٹھایا ویاں مجھ جیسے نو آموز لکھاری نے بھی اپنے قلم کا زور آزمانے کا ارادہ کیا۔ کوئی ایک ہفتہ کی بھرپور محنت کے بعد بیس صفحات کا مضمون تیار کر لیا جو ریسرچ اور اعداد و شمار کے گورکھ دھندے سے بھرپور تھا۔ مضمون کی تکمیل کے بعد ڈرتے ڈرتے جا کر جمع کرا دیا کہ پتا نہیں یہ مضمون اس قابل بھی ہے کہ اسے مقابلہ کیلئے سیلیکٹ کر لیا جائے؟ قدرت کا کرنا کچھ یوں ہوا کہ میرا مضمون درجنوں مضامین میں اول ٹھہرا۔ یونیورسٹی اور جس ادارہ نے مقابلہ سپانسر کیا تھا، کی طرف سے بندہ کو اول پوزیشن کا سرٹیفکیٹ اور کچھ مالی انعام سے نوازا گیا۔ یہ جیت اور انعام میری بے سکونی اور بے چینی کا پہلا ہلکا سا مداوا ثابت ہوا۔ طبعیت کچھ آسودہ حال ہوئی۔ اب بات سمجھ میں آنا شروع ہوئی کہ شاید قدرت مجھ سے اس فن کے زریعے کوئی کام لینا چاہتی ہے۔ صرف مطالعہ ہی میرے شوق کہ تکمیل کیلئے کافی نہیں، قلب و روح کا تقاضہ ہے کہ اپنے خیالات و تصورات کو حوالائے قرطاس بھی کیا جائے ۔

اب معاملہ سوچوں کی ان نے بے ہنگم لڑی سے شروع ہوا کہ میں نے تو کبھی لکھا ہی نہیں اور نا اس فن کو سیکھنے کا کبھی اتفاق ہوا۔ جبکہ لکھنا کوئی مذاق نہیں۔ اس میدان میں ایک سے بڑھ کر ایک لکھاری موجود ہے اور ان کا معیار جداگانہ ہے۔ ان ستاروں کے جھرمٹ میں ایک تہی دست کی بھلا کیا بساط کہ وہ لب کشائی کرے۔ کئی بار ہمت کی کہ مجھے اس میدان میں کود جانا چاہئے پھر اپنی کم علمی کی وجہ سے ہمت ہار جاتا۔ ایک وقت یہ بھی آیا کہ میں نے ارادہ کر لیا کہ مجھے اپنے شوق سے دستبردار ہو جانا چاہئے، اپنی ملازمت پر دھیان دینا چاہئے اور کوئی دوسرا شغل تلاش کرنا چاہئے۔ لیکن اب کی بار بے سکون اور بھی بڑھ گئی۔ چاہتے نا چاہتے اب مصمم ارادہ کر لیا کہ اب ہر حال میں لکھنا ہے، شاید رب ذوالجلال کو یہی منظور ہے۔

اب ارادہ تو کر لیا کہ لکھنا ہے لیکن سوال پیدا ہوا کہ کہاں لکھنا ہے اور کون شائع کرے گا؟ کوئی پلیٹ فام میسر نہیں تھا۔ اور میرے پاس وقت نہیں تھا کہ میں اخباری دفاتر کے چکر لگاتا۔ میں سیدھا سادھا اور خوددار بندہ مجھ سے کہاں چکر لگتے ہیں ان دفاتر کے اور کہاں میں کسی کی منت سماجت کر سکتا تھا۔ بہر حال اِس بے لگام جذبے کو سینے میں چھپائے رکھا صرف یہی سوچ کر کہ جس ذات نے یہ جذبہ سینے میں ڈالا ہے وہی اسکی آبیاری اور تکمیل کیلئے خود ہی سبیل پیدا فرمائے گا۔ میں یہ مقدس جذبہ سینے میں لئے زندگی کی بھول بھلیوں میں گم ہو گیا، جو بن پاتا لکھ لیتا اور خود ہی پڑھ کو خوش ہو جاتا۔ دراصل جذبہ کوئی بھی ہو اپنا اظہار چاہتا ہے اور اگر اسے اظہار کا موقع میسر نا آرہا ہو تو یہ رگوں میں زہر کی صورت اختیار کر جاتا ہے۔ آپکے جسم و روح مردہ ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ میرے ساتھ بھی کچھ یہی معاملہ تھا۔

میرے رب کا کرنا کچھ یوں ہوا کہ سوشل میڈیا پر ایک پیج اچانک سامنے آیا جسکا عنوان "مکالمہ" تھا۔ اس پیج سے تھوڑی واقفیت ہوئی تو معلوم ہوا کہ یہ چند سنجیدہ قسم کے افراد کی کاوش ہے جو علم و دانش سے شغف رکھتے ہیں۔ اس پیج سے معلوم ہوا کہ مکالمہ کے نام سے ایک ویب سائیٹ بھی موجود ہے جہاں مجھ جیسے نو آموز لکھاری اپنے فن کا مِظاہرہ کر سکتے ہیں۔ مجھے اس گھٹن ذدہ ماحول میں امید کی ایک کرن نظر آئی، من میں مچلتی خوشی نے انگڑائیاں لینا شروع کر دیں۔ رگوں میں بہتی اذیتوں کا غرور ٹوٹا۔ دل مچل کے رہ گیا کہ اب میں بھی اپنا زورِ قلم آزما سکوں گا۔ پس، قلم اٹھایا اور چند منٹوں کی خامہ فرسائی سے اپنی پہلی بھڑاس تیار کر لی۔ میرے شوق اور جزبے کی تکمیل کے اس سفر میں یہ زیرِ نظر کالم میری پہلی باقاعدہ بھڑاس ہے۔ جہاں اپنے بے ربط جذبات اور مچلتی امنگوں کو حوالہ قرطاس کر رہا ہوں وہاں اپنے سینے پر پڑے ایک بھاری بوجھ کو ہلکا ہوتا محسوس کر رہا ہوں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اصول وضوابط سے لا بلد دیوانے کی یہ رودادِ اوّل ہے۔ یقیناً اس میں بہت اغلاط ہونگی مگر اسے دیوانے کی دیوانگی سمجھ کر نظر انداز کر دیا جائے تو بندہ آپ کا عین مشکور ہوگا۔ میں امید کرتا ہوں کہ مکالمہ ٹیم میرے ساتھ بھرپور تعاون کرے گی۔ میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ پاک مکالمہ کو دن دگنی رات چگنی ترقی نصیب فرمائے ۔ آمین

Facebook Comments

احسان عابد
نا معلوم منزل کا راہی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply