پنہل کے بعد/محمد خان داؤد

مجھے آج اوشو کی یہ بات شدت سے یاد آ رہی ہے کہ
’’صرف دیے نہیں جلتے، دل بھی جلتے ہیں.‘‘

آج اگر ہمارے اس سوتے سماج میں” پنہل ساریو “جیسا کردار نہ ہوتا، وہ نہ چلتا، وہ نہ اُٹھتا، وہ نہ احتجاج کرتا، وہ نہ ایک بینر نماں کپڑے پر لوگوں کے دستخط لیتا، وہ کبھی حیدر آباد اور کبھی کراچی میں احتجاجی ریلیاں نہ منعقد کرتا، وہ کراچی پریس کلب پر احتجاجی دھرنا اور کیمپ قائم نہ کرتا، وہ حیدر آباد سے کراچی تک لانگ مارچ نہ کرتا، تو میں کبھی بھی اوشو کی یہ بات نہیں سمجھ پاتا کہ’’صرف یے نہیں جلتے،دل بھی جلتے ہیں!‘‘

پنہل ساریو کا یہ دل کا ہی جلنا تھا، جس میں وہ بہت ہی تھوڑے ٹائم میں اتنے کام کر گیا، احتجاج سے لے کر ریلیاں، لانگ مارچ سے لے کر دھرنا، کیمپ سے لےکر پریس کانفرنس تک. اور پھر حیدر آباد میں وہ اہتمام جس میں اس نے عالمی میڈیا کے نمائندوں کو بھی مدعو کر رکھا تھا جس میں ان نمائندوں کو یہ بتانا تھا کہ یہ ظلم نہیں تو اور کیا ہے؟پھر جمعرات کی رات کو سات بجے وہ ہوا جو اس سے پہلے ہوتا آیا ہے۔گاڑی آتی ہے، رُکتی ہے اور چلی جاتی ہے۔ پیچھے رہ جاتے ہیں بس گاڑیوں کے ٹائروں کے نشان اور کالا دھواں.

وہ پنہل ساریو جس کی جوانی کے ہاتھوں نے لال پرچم کو تھاما تھا، وہ سید کا پرچم تھا۔وہ سندھو دیش کی آزادی کا پرچم تھا۔جب پنہل ساریو نے دیکھا کہ یہاں اس کی فلاسفی سید کی باتوں سے میچ نہیں کر رہی تو اس نے ڈاکٹر قادر مگسی کی پارٹی میں شمولیت اختیا ر کر لی. جب دیکھا کہ یہ لیڈر بھی بس کئی شادیوں کا شوق رکھتا ہے تو ان ہاتھوں نے اس پرچم کو بھی چھوڑ دیا جس پرچم میں تین رنگ تھے۔اور ان لیڈروں کے کئی رنگ تھے۔ پھر پنہل آیا اس طرف جس طرف کوئی نہیں آتا۔ پنہل نے بہت پیچھے رہ کر باگڑیوں، بھیلوں اور نچلی ذات ہندوؤں میں کام کرنا شروع کیا کیونکہ یہ سب نچلی ذات سمجھے جاتے ہیں. سندھ میں انہیں ایسے ہی پیچھے رکھا جاتا ہے جیسے بھارت میں دلتوں کو۔

اب پنہل کے ہاتھوں سے سیاسی پرچم گر چکے تھے۔ پنہل کے ہاتھوں میں آئے تھے وہ ہاتھ جو ساون کے تھے،جو بھورو بھیل کے تھے، جو منو بھیل کے تھے، جو وشنو کے تھے اور وہ کوئی ایک ہاتھ نہ تھا وہ کئی ہاتھ تھے۔ پنہل ان ہاتھوں کو ساتھ میں ملایا اور سندھ میں مری ہوئی ہاری تحریک کو پھر زندہ کیا۔ لیکن پنہل کو سندھ میں ان لوگوں نے برداشت نہیں کیا جو ہاریوں کا نام استعمال کر کے انہیں بیچ کر بہت کچھ بنا چکے ہیں۔ انہوں نے پنہل کو بالکل برداشت نہیں کیا۔ پنہل کے وہ ہاتھ لوٹ آئے اس طرف جس کے لیے ایاز نے لکھا تھا
’’جو پیر ھٹیو ،سو پیر کٹیو
ھی خوف بہ طاری رکھنو آ
جا وکھ ودھی،جن لال لدھی
ھی جوش بہ جاری رکھنو آ‘‘
جو پاؤں ہٹا، وہ کٹ جائے گا
یہ خوف بھی طاری رکھنا ہے
ایک قدم بڑھا، بس کوئی جوہر ملا
یہ جوش بھی جاری رکھنا ہے،،

پھر پنہل کے ہاتھوں نے لکھنا شروع کیا۔ ان کے کالم کسی محبوبہ کے لیے عشقیہ خطوط سے کم نہ تھے۔پر اس کی وہ محبوبہ سندھ دھرتی تھی۔ ہفتے میں دو تین بار ان سے اخبار کے کالموں کے ذریعے ملاقات ہو جایا کرتی تھی جس میں ان کی ایک مسکراتی تصویر بھی شامل حال ہوتی تھی۔ یہ سلسلہ کئی سالوں تک چلتا رہا۔ وہ بس سندھ کے مسائل پر لکھتے رہے اور ہم جیسے لوگ ان کے وہ ادبیات سے بھرپور کالم پڑھتے رہے۔ ان کی زندگی میں یہ موڑ جب آیا کہ لکھنا ہی سب کچھ نہیں۔ ظلم کے خلاف بھی آواز اُٹھانا چاہیے۔ جب سندھ کے ایک ادیب دانشور استاد عطا محمد بھمبرو کے جواں سال بیٹے کو کچھ وردی والے رات کو اس کے گھر سے نیند سے اُٹھا کر لے گئے۔

استاد عطا محمد بھمبرو اپنی بوڑھی بیگم کو لیے حیدر آباد پریس کلب پر عید کے دنوں میں بھی ذلیل اور خوار ہوتے رہے۔ عید کے دوسرے دن اس بیٹے کی مسخ شدہ لاش ملی تو پنہل ساریو نے لکھنا چھوڑ دیا اور عملی طرح میدان میں آگئے۔تب اوشو کی بات وہ بھی سمجھ گیا کہ’’صرف دیے نہیں جلتے، دل بھی جلتے ہیں.‘‘
یہ پنہل ساریو کا دل کا جلنا ہی تو تھا جو وہ لکھنا بھی چھوڑ کر ان لوگوں کی تلاش میں نکلنے کو تیار ہوا جنہیں سندھ میں کوئی بھی یاد نہیں کرتا سوائے ان محبوباؤں کے جن کے وہ ساجن ہیں۔ وہ اپنے ساجنوں کے بغیر کیسے رہ سکتی ہیں جن کے لیے لطیف نے لکھا تھا کہ
جیڈیوں! ھی ضرور! آیل کئین رھندو پرین ری
من م مشتاقن جی ،ساجن! تنھنجو سور!
میرا من مہجورساجن کے بن رہے تو کیسے
پریت نے میرے بے کل من کو، درد دیا بھر پور!،،

جب سندھ سستے سگریٹ پی کر آدھے چائے کے کپ پر جنسی فلموں پر اپنا پورا پورا دن برباد کر رہا تھا اور دوسری طرف وہ گاڑیاں آ کر رکتی تھیں جن گاڑیوں میں فرشتے ہوتے ہیں۔ اترتے ہیں اور کبھی تو اترنے کی بھی زحمت نہیں کرتے اور جسے چاہتے ہیں اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔اور پھر وہ ایسے گم ہوجاتے ہیں کے جیسے تھے ہی نہیں۔اور وہ گم شدہ لوگ وہ گیت بن جاتے ہیں کہ
’’میرا بھی نام لکھو
میں آیا نہ تھا
میں پیدا ہی نہیں ہوا
جلدی سے نام لکھو
کہیں رہ نہ جاؤں‘‘

اور وہ اپنے گھروں سے گم ہو رہے تھے۔ اب تک سندھ سے کوئی پچاس سے زائد لوگ گم ہیں۔ پر سندھ کو خبر ہی نہیں. سندھ تو جلال چانڈیو کے عشقیہ کلام سن کر مونچھوں پر ایک پاؤ تیل مل کر وہاں جا رہا ہے جہاں ایک اکیلی لڑکی پانی بھرنے گئی ہے یا جہاں ایک اکیلی بھیلن بچی ماں کو ڈھونڈنے گئی ہے۔ ایسے ماحول میں ان گم شدہ افراد کے لیے آواز اُٹھانا، لوگوں کو ایک پلیٹ فارم مہیا کر دینا، دھرنے دینا، کیمپ قائم کرنا، پریس کانفرس کرنا، ریلیاں نکالنا، احتجاج کرنا، لانگ مارچ کرنا، عالمی میڈیا کو دعوت دینا، جرم نہیں تو کیا ہے؟اور یہی جرم ٹھہرا پنہل ساریو کا…

پر اس سے بھی بڑا جرم پنہل ساریو کا یہ تھا کہ اس کا دل دیے کی طرح جل رہا تھا۔ پنہل ساریو کا دل بجھا ہوا نہیں تھا۔ وہ دل ایسے ہی جل رہا تھا۔ ان ظلموں پر جس کے لیے اوشو نے لکھا”صرف دیے نہیں جلتے، دل بھی جلتے ہیں”۔۔پر یہ جرم بھی نہیں. پنہل کا وہ جرم ہے جس کے لیے استاد بخاری نے لکھا تھا کہ
’’عشق م استاد لُٹجی ویاسین
استاد اگ ایڈو ستو نہ ھو
عشق ھو،چرچو نہ ھو، رونشو نہ ھو!‘‘
عشق م استاد ہم لُٹ گئے
استاد اس سے پہلے اتنا سستا نہ تھا
عشق تھا، مذاق نہ تھا، کوئی کھیل نہ تھا!

Advertisements
julia rana solicitors london

تو وہ عشق ہی تو تھا جو پنہل سے وہ کام کر وا رہا تھا۔جو سندھ میں اس سے پہلے کوئی بھی نہیں کر رہا تھا۔ نہ کوئی فرد, نہ کوئی ادارہ اور نہ کوئی سیاسی پارٹی. اب وہ پنہل ہی گم کردیا گیا ہے۔ جو ان لوگوں کو اپنے گھر لانا چاہتا تھا جو کئی سالوں سے اپنے گھروں سے اور اپنے پیاروں سے دور ہیں, کہاں ہیں؟ کس حال میں ہیں؟ اور وہ اپنوں سے کیوں دور کر دیے گئے ہیں۔ اس سوال کا کوئی بھی جواب دینے کو تیار نہیں۔ وہ پنہل کب گھر آئے گا جس کے اب بھی کئی کام منتظر ہیں کہ وہ آئے گا اور انہیں پایہ تکمیل تک پہنچائےگا۔ مگر ان گاڑیوں کو کون روکے، فرشتوں کو کون ٹوکے۔
بس پیچھے رہ جاتے ہیں
بڑی گاڑی کے موٹے ٹائروں کے نشان
اور اسٹارٹ انجن کی آواز
اور دھواں!

Facebook Comments

حال حوال
یہ تحریر بشکریہ حال حوال شائع کی جا رہی ہے۔ "مکالمہ" اور "حال حوال" ایک دوسرے پر شائع ہونے والی اچھی تحاریر اپنے قارئین کیلیے مشترکہ شائع کریں گے تاکہ بلوچستان کے دوستوں کے مسائل، خیالات اور فکر سے باقی قوموں کو بھی آگاہی ہو۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply