آپ ٹھنڈا لیں گے یا گرم؟

کل مجھے ایک دوست کے ہاں جانے کا اتفاق ہوا۔اس نے ڈرائنگ روم کا دروازہ کھولا۔ میں قالین کے احترام میں جوتے اتارنے لگا تو وہ انڈین گانا کوٹ کرتے ہوئے بولا “گھنگھرو کی جگہ پیروں میں‌ جناب، آپ جوتوں سمیت آجاؤ! ”

ابھی میں صوفے اور کرسی کی اہمیت کے بارے غوروخوض کر ہی رہا تھا کہ اس نے پوچھا “ٹھنڈا چلے گا یا گرم؟ ”
ابھی میں ٹھنڈے اور گرم میں فیصلہ نہیں کر پایا تھا کہ اس نے کہا کہ “اچھا! میں ٹھنڈا ہی لے آتا ہوں”۔

تھوڑی دیر بعد وہ دونوں ہاتھوں پر گنوں کا ایک گٹھا اٹھائے ہوئے آیا۔ میں سمجھا شاید اتحاد کا درس دینے لگا ہے۔ مگر اس نے پہلے تو مجھے کھڑا ہونے کا حکم دیا اور پھر گنے سے میرا ماپ لیا۔ ایک گنا جو مجھ سے کچھ انچ بڑا تھا، میری طرف اچھالتے ہوئے کہا “لیجئے صاحب، دلبہار ٹھنڈا پیجئے”!

پہلے تو میں نے سوچا کہ اسے کسی مناسب وقت تک اٹھا رکھتا ہوں۔ ویسے صاحب خانہ سے مروت کا تعلق اگر نہ ہوتا تو جو چیز مشروب کے نام پہ وہ مجھے پلانا چاہ رہا تھا وہی چیز میں اسے سویٹ ڈش کہہ کے کھلا بھی سکتا تھا وہ بھی متعدد بار اس کی کمر پر۔ بہرحال میں نے گنا چھیلنا شروع کردیا۔ یہ نام نہاد ٹھنڈا پیتے ہوئے بلکہ کشید کرتے ہوئے مجھے جن مسائل سے پالا پڑا وہ درج ذیل ہیں۔

گنا چھیلتے ہوئے ایک ایسی آواز پیدا ہوتی تھی جو اپنی ولادت کے بعد کمرے کے سکوت کو توڑتی تھی۔ یوں محسوس ہوتا تھا کہ گنا لہک لہک کر کھایا جارہا ہے۔چھلکا اتارتے ہوئے میری آنکھیں خودبخود بند ہو جاتی تھیں اور منہ کے سارے دانت باہر آجاتے تھے۔جس سے اہلِ خانہ کے بچے خوب ہنستے تھے۔ میرے اس عمل سے وہ اندازہ لگا رہے تھے کہ میں انہیں ہنسا رہا ہوں۔ ٹھنڈا پیتے ہوئے آدھا رس حلق میں اتر رہا تھا جبکہ آدھا صوفے پر گر رہا تھا۔میرے دوست نے مجھے مصروف دیکھ کر اپنے بچے کو چپکے سے بلایا اور کہا “بیٹا! انکل کے لیے ایک فالتو برتن لے آؤ اور اسے صوفہ پر رکھ دو!” بچہ دو منٹ بعد ڈالڈا کا خالی ڈبہ لے آیا۔ اب میرا یہ فرض تھا کہ میں ایمانداری سے گنا چوس چوس کر آدھا رس اپنے حلق میں انڈیلوں اور آدھا ڈالڈے کے ڈبے میں۔

دوست نے چند منٹ بعد اپنے بیٹے سے کہا “بیٹا! اندر سے گلاس بھی لے آؤ!” وہ فوراً شیشے کا ایک گلاس لے آیا۔ “انکل کو گلاس پیش کرو!” میرا دوست بولا۔ جب میں نے گلاس کی افادیت پوچھی تو وہ بولا “جو رس تم ڈالڈے کے ڈبے میں ڈپازٹ کررہے ہو، اُسے “شربتِ گنا” سمجھ کر پی لو!
میں نے کہا جناب! آپ اس گنا کے آگے “اگر” لگا دیں تو اس کا مزہ دو چند ہو جائے گا۔

اِک شربتِ گُناہ ملا وہ بھی ایک گلاس
دیکھے ہیں ہم نے حوصلے عیال دار کے

اہلِ خانہ پر میرا مطلب واضح ہو چکا تھا۔ گنا چھیلتے ہوئے ایک مقام ایسا آیا کہ اِدھر میں نے چھلکا اتارنے کے لیے زور لگا کر جھٹکا لگایا۔ اُدھر گنے کے اگلے حصے پر عیالدار دوست کا بچہ پہنچ آیا۔ “سویٹ ڈش کھا کے” بچہ زار و قطار رونے لگا۔ میرے دوست نے بچے کو دلاسہ دیتے ہوئے کہا “انکل نے جان بوجھ کر تو نہیں مارا”۔

میں نے گنے سے شغل جاری رکھا۔جب میں تمام گنا کراس کر گیا تو میں نے دوست سے کہا ” اب ذرا آئینہ تو لادو” وہ آئینہ لے آیا۔میں نے آئینہ دیکھا تو میرے منہ پر “دلبہار ٹھنڈے” کے تازہ تازہ زخم مسکرا رہے تھے۔ اوپر والے ہونٹ کو تین اور نیچے والے ہونٹ کو چار چیرے آئے تھے۔ ایک رخسار پر بھی خون کی چھوٹی سی کاریز نظر آرہی تھی۔ میں نے دوست سے کہا کہ “ذرا آفٹر شیو لوشن تو لاؤ!” وہ آفٹر شیو لوشن لے آیا تو میں نے اسے اپنے زخموں پر آہستہ آہستہ لگایا۔ میرے ہاتھ گنا ریزی کے دوران میں بہت خراب ہو چکے تھے۔ میں نے انہیں صابن سے دھویا تو قسمت کی لکیروں میں بھی خون کی آمیزش نظر آئی۔ میرا دوست مجھے قریبی ڈسپنسری لے گیا، جہاں میری مرہم پٹی کی گئی۔

Advertisements
julia rana solicitors

دوسرے دن میں نے اپنے ادارے میں چھٹی کی درخواست بھیجی جس میں دوطرفہ مفادات کے پیش نظر یوں گزارش کی کہ مکرمی جناب!
کل شام دفتر سے واپسی پر ایک دوست کے ہاں جانے کا اتفاق ہوا جس نے مجھے گنے کے زور پرٹھنڈا پلا دیا۔ اس ٹھنڈے کے زخم انشاءاللہ ایک ہفتے تک مندمل ہو جائیں گے! اگر مکرمی جناب کا بھی چھٹی پر جانے کا ارادہ ہو تو حکم کیجئے لگے ہاتھ واپسی پر دلبہار ٹھنڈے کا ایک گٹھا آپ کیلئے بھی اٹھا لاؤں! ۔
٭٭٭٭٭

Facebook Comments

فاروق سومرو
حکیم فاروق سومرو ایسے خاندانی طبیب (ہربل فزیشن) ہیں جو قدیم روایتی طب کے ساتھ ساتھ جدید سائنسی تحقیق کے بھی علمبردار ہیں۔ مدیرِ مکالمہ کا کہنا ہے کہ پوشیدہ و پیچیدہ امراض کا علاج ادویات کے ساتھ ساتھ شگفتہ جملوں اور فکاہیہ اشعار سے بھی ہونا چاہئے۔جس سے اکثر مریض خطرناک حد تک (دوسروں کے لیے) صحت مند ہوجاتے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 0 تبصرے برائے تحریر ”آپ ٹھنڈا لیں گے یا گرم؟

  1. آج ویسے ھی اداس تھا حکیم صا حب کا نسخہ پڑ ھا جس سے افاقہ بھی ہوا اور لطف اندوز بھی میں نے مکالمہ میں اس سے اچھی تحریر نہیں
    پڑ ھی
    بہت اعلی زبر دست حکیم
    صا حب

Leave a Reply