میرے معاشرے کا چھوٹو۔۔عبدالستار

ہر سماج اور سو سائٹی کے کچھ کر دار ہوتے ہیں جنھیں خود اس معاشرے کے لوگ اور ان کے رویے بناتے ہیں۔یہ کردار آسمان سے یا ماں کی کوکھ سے اپنی زندگی گزارنے کے پیمانے لکھوا کر اس دنیا میں نہیں آتے بلکہ زمین پر موجود کچھ خدا وندان ایوان عقائدو سیاست خود ان کی زندگی کا رخ متعین کرتے ہیں۔یہ چھوٹو نامی کر دار ہمارے معاشرے میں ہر جگہ پایا جاتا ہے۔یہ کردارآپ کو چھوٹی چھوٹی دکانوں مثلاََہوٹل،چائے والی دکان، پٹرول پمپ،ورکشاپ حتیٰ کہ ایک  کتابیں  اٹھائے ہوئے ہزاروں چھوٹو جوتے پالش کی آواز لگاتے ہوئے بازاروں میں گشت کر تے ہوئے نظر آئیں گے۔

جب ان تمام چھوٹوؤں کو آپ بغور دیکھیں گے تو آپ کو محرومیوں کے گہرے سائے بڑے بڑے حروف کی صورت میں ان کے چہرے پہ لکھے ہوئے نظر آئیں گے۔ یہ اپنے جسم اور اپنی روح پر روزانہ کے لگنے والے گہرے زخموں سے بے نیاز محض چند روپے اور کچھ معمولی ضروریات پوری کرنے کے لیے اپنے کا م میں مگن رہتے ہیں۔ ان چھوٹوؤں کی اکثریت کو اپنے علاوہ اپنی فیملی کے باقی افراد کے لیے بھی ہاتھ پاؤں مارنا پڑتے ہیں کیونکہ بہت ساروں کے والدین زندگی کی جنگ مسلسل لڑتے لڑتے زند گی کی بازی ہار چکے ہوتے ہیں یا کچھ کے والدین نشے جیسی لعنت کا شکار ہو کر کسمپرسی کی حالت میں سسک رہے ہوتے ہیں۔ اسی وجہ سے ان چھوٹوؤں میں سے بہت ساروں کو اپنے ساتھ جڑی ہوئی مزید زندگیوں کو تحفظ اور امان دینے کے لیے اپنے اس (چھوٹو کردار) کے دائرے کو مزید پارٹ ٹائم جاب کی صورت میں بڑھانا پڑتا ہے۔

یہی چھوٹو جب چھوٹی عمر کا ہوتا ہے تو اس کا ذہن معصوم ہوتا ہے اور اپنی چھوٹی جان کو مختلف کاموں میں کھپاکر زندگی کا ایندھن اکٹھا کرتے کرتے وہ ایک دن بڑاہو جاتا ہے۔جب وہ چھوٹا تھا تو معاشرہ اس کا مختلف طریقوں سے استحصال کرتا تھا اب وہ بڑاہو کر اسی معاشرے سے ڈاکہ،رہزنی اور چوری چکاری کے ذریعے سے تاوان وصول کر تا ہے۔ان سب کے پیچھے محرک صرف ایک ہی ہوتاہے اور وہ ہے معاشرتی بے حسی۔

یہ چھوٹو سے ڈکیت بننے کے سفر میں ہما رے معاشرتی پنڈتوں کا پور اپورا کردار ہوتا ہے۔یہ کردار ہوا یا خلاء میں تشکیل نہیں پاتے بلکہ ایسے معاشروں میں پیدا ہوتے یا پیدا کیے جاتے ہیں جہاں معاشی اور معاشرتی نا ہمواریاں عروج پر ہوتی ہیں۔ ایسے بے ترتیب معاشروں میں جا گیرداروں، دولت مندوں اور سرمایہ داروں کو اپنی استحصالی دولت میں سے کچھ ٹکے خیرات کی صورت میں ان معاشرتی طبقوں کو دے کر نمائش بازی کا مو قع ملتا ہے۔ جنہیں استحصالی نظام کے ذریعے سے جان بوجھ کر پیدا کیا جاتا ہے۔ میرے معاشرے کے یہ چھوٹو ذہنی اور جسمانی صلاحیتوں میں کسی سے کم نہ تھے مگر ان کو تعلیم،روٹی، کپڑا،مکان اور صحت جیسی بنیادی سہولتوں سے محروم رکھ کر ٹکے ٹکے کا غلام بنا دیا۔ان کو بھوکے کو کیا چاہے (روٹی) کا مصداق بنا دیا۔واہ رے خداوندان ارض تم نے صلاحتیوں سے مالا مال اس انسان کو چھوٹی چھوٹی ضرورتوں میں پھنسا کر ان ساری فطرتی نعمتوں کو ہڑپ کر لیا کہ جن پر سب انسانوں کا برابر حق تھا۔

چھوٹو کی ایک اور قسم بھی ہوتی ہے جنھیں ہمارے تعلیمی اداروں میں پروان چڑھا یا جاتا ہے۔ تعلیمی اداروں میں چھوٹو بننے اور بنانے کے عمل میں ہمارے اساتذہ بھر پور کردار ادا کرتے ہیں۔طلباء کو سوالات کے ریڈی میڈ جوابات تھما دئیے جاتے ہیں اور وہی طلباء اچھے مارکس حاصل کر کے اسی استاد کے منصب پر فائز ہو جاتے ہیں اور پھر یہی سرکل چلتے چلتے ایک ایسی مسلسل زنجیر بن جاتا ہے جسے شاید صدیوں میں بھی نہ توڑا جا سکے۔ اسی روایتی تعلیم کے زیر اثر ہر سال طلباء کی ایک کھیپ سامنے آتی ہے جو تخلیقی صلاحیتوں سے بالکل محروم ہوتی ہے۔ان کی ذہنی صلاحیتو ں کو زیادہ سے زیادہ ما رکس لینے کی طرف را غب کیا جاتا ہے۔ان اداروں میں بچوں کو تربیت نہیں دی جا تی جبکہ جانوروں کی طرح سدھایا جاتا ہے۔طلباء کے اندر سوالا ت پوچھنے کی صلاحیتوں کو مختلف حربے استعمال کر کے مسخ کر دیا جاتا ہے۔کیونکہ سوال کے اند ر بہت بڑی طاقت چھپی ہوتی ہے۔ سوال کرنے کی عادت ایک طالب علم کو اندرونی مضبوطی اور ذہنی پختگی عطاکر تی ہے۔ سوال کرنے سے طلباء کو اپنی ذہنی مچان کا پتہ چلتا ہے۔ سوال ہی کی طاقت سے بڑے بڑے معاشرتی طرم خان چاہے ان کا تعلق مذہبی طبقہ سے ہو یا سیاسی طبقہ سے طبقہ اشرافیہ سے ہو یا جاگیر دار طبقہ سے، اساتذہ کی کمیونٹی سے ہو یا کسی بھی استحصالی روپ سے وہ گبھرا جاتا ہے کیونکہ سوال کی طاقت سے مصنوعی رعب و دبدیہ ہوا ہو جاتا ہے۔ سوال کرنے سے استحصالی گروہ کا پردہ چاک ہو جاتا ہے۔ سوال کی طاقت سے بڑی بڑی چالبازیاں چاہے وہ جبہ اور پگڑی کی آڑ میں ہو یا بڑ ی بڑی ڈگریوں کی آڑ میں ہو وہ واضح طور پر سامنے آجاتی ہیں۔

میر ے  معاشرے کے  ان چھوٹوؤ ں کو ایک بار اپنے استحصالی پنجے سے آزاد کر کے تو دیکھیے پھر آپ کو پتہ چلے گا کہ ذہنی طور پر یہ کسی سے بھی پیچھے نہیں ہیں۔ انہیں تعلیم کے زیور سے ٓاراستہ کر کے دیکھیے تو آپ کو پتہ چلے گا کہ یہ معاشرے میں کتنا مفید کر دار ادا کر سکتے ہیں۔ زندگی کے تما م دروازے ان پر کھول دیجیے ان کے ذہنو ں کو بھی آزادی جیسی نعمت سے ہمکنا ر کر دیجیے ان کے پروں کو مذہب کے نام پر،سیاست کے نام پر،ریڈی میڈ نوٹس کے نام پر یا کسی بھی مکروہ استحصالی شکل کے نام پر کتر نا چھوڑ دیجیے اور انھیں آزاد فضاؤں میں خود اپنی پرواز کا اندازہ لگا نے دیجیے تو پھر دیکھیے گا کہ کیسے یہ چھوٹو ہمارے معاشر ے کی کر یم ثابت ہوں گے۔ اسی کیفیت کو احمد ند یم قاسمی نے کچھ ایسے محسوس کیا تھا
زندگی کے جیتنے دروازے ہیں مجھ پر بند ہیں
دیکھنا حدِ  نظرسے آگے بڑھ کے دیکھنا بھی جرم ہے
سوچنا اپنے عقیدوں اور یقینوں سے نکل کر سوچنا بھی جرم ہے
آسماں در آسماں اسرار کی پرتیں ہٹا کر جھانکنا بھی جرم ہے
کیوں کہنا بھی جرم ہے، کیسے بھی کہناجرم ہے، سانس لینے کی تو آزادی میسر ہے
مگر زندہ رہنے کے لیے انسان کو کچھ اور بھی درکار ہے
اور اس کچھ اور بھی تذکر ہ بھی جرم ہے
اے ہنر مندان آئین وسیاست،اے خداوندان ایوان عقائد
زندگی کے نام پر بس اک عنائت چاہیے
مجھ کو ان سارے جرائم کی اجازت چاہیے
مجھ کو ان سارے جرائم کی اجازت چاہیے

Advertisements
julia rana solicitors london

فطرتی زندگی گزارنے کا ہر ایک کوحق حا صل ہونا چاہیے۔فطرتی زندگی گزارنے کا مطلب یہ ہے کہ ہر طرح کا استحصا لی جبر مثلاََ اخلا قی اور مذہبی قدغنیں اور روایات کی صدیوں سے قائم ہونے والی لمبی لمبی اور آہنی دیواروں کو مسمار کر کے ہمارے سماج کے معصوم بچوں کومکمل طور پر آزادی کے ساتھ جینے دیجیے کہ کم از کم میرے سماج کے چھوٹو کو اتنا تو حق دیجیے کہ وہ چھوٹو سے بالغ ہو نے کی تمام منازل کو اچھے سے جی سکے اور زندگی کی مشکلات سے نپٹنے کے لیے مکمل طور پر آراستہ ہو سکے۔زندگی کو اپنے تمام رنگوں کے ساتھ جینے کا حق سب کو حاصل ہونا چاہیے۔یہ تمام روایتی دیواریں سوال کی چوٹ سے گریں گی۔ یاد رکھیے شعور ڈگریوں کا محتاج نہیں ہو تا بلکہ اس کے لیے آزاد فضا ء درکار ہو تی ہے۔ جس دن اس معا شرے کے چھوٹو کو (کیوں،کیسے، کب) کی بنیاد ی فلاسفی سمجھ میں آگئی تو تمام استحصالی جالے اور پردے منظر سے ہٹنا شروع ہو جائیں گے اور شعور کی روشنیاں بکھرنے لگیں گی۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply