بنگلہ دیش ۔ اعلانِ آزادی (قسط اول) ۔۔۔۔۔وہارا امباکر

“یہ ریڈیو بنگلہ دیش ہے۔ اب آپ خودمختار اور آزاد بنگلہ دیش کے شہری ہیں۔ تمام سننے والوں کو آزادی مبارک”۔

بنگلہ دیش میں ہر سال 26 مارچ کو عام تعطیل ہوتی ہے۔ یہ دن بنگلہ دیش کا یومِ آزادی ہے۔ یہ اعلان چٹاگانگ کے ریڈیو پر پہلی بار بنگلہ دیش آرمی کی طرف سے کیا گیا۔ اس سے پچھلے روز پاکستانی صدر آخری مرتبہ ڈھاکہ چھوڑ گئے تھے۔ 26 مارچ 1971 کو بنگلہ دیش کی آزادی کا فیصلہ لے لیا گیا۔ دوسرے ممالک سے آنے والے صحافی پہلے ہی نکالے جا چکے تھے۔ چٹاگانگ کی بندرگاہ پر لنگرانداز ایک جاپانی بحری جہاز نے اس کو سنا اور یہ خبر اس روز آسٹریلیا سے نشر کی گئی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ضیاالرحمان پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول کے بارہویں لانگ کورس کے گریجویٹ تھے اور 18 ستمبر 1955 میں اپنی کلاس کے ٹاپ دس فیصد طلباء میں گریجویٹ ہو کر پاکستانی فوج کے افسر بنئے تھے۔ کمانڈو ٹریننگ لی، پیرا ٹروپر بنے اور پاکستان ملٹری انٹیلیجنس میں رہے۔ پاکستان اور انڈیا کی 1965 میں ہونے والی جنگ میں پنجاب کے کھیم کرن کے محاذ پر ہونے والے معرکوں میں حصہ لیا۔ اپنی شجاعت کی وجہ سے “ہلالِ جرات” پایا جو پاکستانی فوج میں نشانِ حیدر کے بعد بہادری کا سب سے بڑا اعزاز ہے۔ اس کے بعد 1966 میں پاکستان ملٹری اکیڈمی کے انسٹرکٹر رہے۔ وہ خود کمانڈ اینڈ سٹاف کالج کوئٹہ سے تربیت حاصل کر رہے تھے، جب ان کی اہلیہ خالدہ ضیا نے ان کے پہلے بیٹے طارق رحمان کو جنم دیا۔ مشرقی پاکستان میں ان کی تعیناتی غازی پور میں 1969 میں ہوئی۔

چٹا گانگ کے ریڈیو سٹیشن پر قبضہ کرنے والی بنگلہ دیش آرمی کے یونٹ کی قیادت ضیاالرحمان کر رہے تھے۔ انہوں نے اس روز بنگلہ دیش کی آزادی کا اعلان کیا۔ نئی حکومت کا اعلان کیا۔ اگلے نو ماہ تک جاری رہنے والی برِصغیر کی خونریز ترین جنگ میں پاکستان آرمی کے خلاف جنگ میں نمایاں کردار ادا کیا۔ مکتی باہنی کی طرف سے جنوب مشرقی بنگلہ دیش میں زی فورس کی قیادت کی۔ اس جنگ میں اپنی بہادری کی وجہ سے نام کمایا اور “بیر اٹوم” کا اعزاز ملا جو بنگلہ دیش میں زندہ فوجی کے لئے بہادری کا سب سے بڑا اعزاز ہے۔ بعد میں بنگلہ دیش کے صدر بنے۔ ان کی اہلیہ ملک کی وزیرِ اعظم رہیں۔ بنگلہ دیش میں اگرچہ سیاست کے حوالے سے ان کا کردار پسند کرنے والے بھی ہیں اور ناپسند کرنے والے بھی۔ بنگلہ دیش میں ان پر تنقید پاکستان کے بارے میں نرم گوشہ رکھنے پر بھی ہوتی رہی۔ لیکن ان کو جنگی ہیرو کے طور پر جانا جاتا ہے۔ اس حیثیت سے ان کا اعتراف عالمی سطح پر ہوا۔ مصر اور یوگوسلاویہ سمیت مختلف ممالک کی طرف سے انہیں فوجی اعزازات ملے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بنگلہ دیش کی آئین ساز اسمبلی کا پہلا اجلاس 17 اپریل 1971 کو ہوا۔ اس میں رسمی طور پر آزادی کی توثیق کر دی گئی اور رسمی طور پر اعلانِ آزادی کی قرارداد منظور کر لی۔ ان کا پہلا کام نئے ملک کا آئین بنانا قرار پایا لیکن اس سے کہیں زیادہ سنگین مسائل موجود تھے۔ ملک میں اس خطے کی سب سے زیادہ خونریز خانہ جنگی جاری تھی۔ ملک کے بانی اور صدر گرفتار تھے۔ اس اسمبلی کے مطابق ایک دوسرے ملک کی ملٹری کورٹ میں انہیں سزائے موت سنائی جا چکی تھی۔

اعلانِ آزادی میں کہا گیا تھا کہ “بنگلہ دیش میں عوام انتخابات میں عوامی لیگ کے حق میں فیصلہ دے چکے، اپنی رائے واضح طور پر بتا چکے۔ اور جواب میں پاکستان نے ان پر ایک ظالمانہ اور غیرمنصفانہ جنگ مسلط کر دی۔ ہم غیرمتنازعہ لیڈر شیخ مجیب الرحمان کی قیادت میں متحد ہیں اور بنگلہ دیش کی عوام پر زور دیتے ہیں کہ اپنے ملک کے وقار اور سالمیت کا دفاع کریں۔ پاکستانی حکام کی وحشیانہ کارروائیاں جاری ہیں۔ ہمارے نہتے عوام پر بے مثال ظلم اور تشدد کیا جا رہا ہے۔ اس قتلِ عام کی وجہ سے ہمیں آئین بنانے میں تاخیر کا سامنا ہے لیکن بنگلہ دیش کے عوام کی دلیری اور جذبے نے ہماری زمین پر ہمارا قبضہ بحال کر دیا ہے۔ جب تک آئین نہیں بن جاتا، بنگلہ بندھو شیخ مجیب صدر اور سید نذرالاسلام نائب صدر ہوں گے اور تمام اختیارات صدر کے پاس ہوں گے۔ صدر اور نائب صدر سے حلف پروفیسر یوسف علی لیں گے”۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس علاقے میں 1971 میں کیا ہوا؟ یہ جاننا کسی کے لئے بھی خوشگوار نہیں۔ یہ تاریخ کے بڑے سانحوں میں سے ہے۔ اس میں ہر طرف سے مرنے والے اور مارنے والے اپنے آپ کو حق پر سمجھتے تھے۔
ایسا کیوں ہوا؟ نہیں۔ اس کے آسان جوابات میں سے کوئی بھی اس کی وضاحت نہیں کرتا۔ اس کو سمجھنے کے لئے تاریخ میں پیچھے جانا پڑے گا۔ جب 1857 میں بنگالی سپاہیوں نے انگریزوں سے بغاوت کی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ساتھ لگی تصویر بنگلہ دیش کی اسمبلی کی طرف سے جاری کردہ اعلانِ آزادی کی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مکالمہ ڈونر کلب،آئیے مل کر سماج بدلیں

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply