کاغذ کی کنجی۔۔عنبر عابر

“کیا تم یہاں سے نکل سکتے ہو؟“ قیدی کا لہجہ کانپ رہا تھا۔شاید اس کیلئے پہرے پر مامور، ان خونخوار سپاہیوں سے خود کو چھڑانے کا تصور بھی محال تھا۔
یہ سن کر دوسرا قیدی مسکرایا۔اس کی داڑھی جھاڑ جھنکار تھی اور اس کے بال کاندھوں تک پہنچ رہے تھے۔ اوپری ہونٹ پھٹا ہوا تھا، جس سے اس کی مسکراہٹ،وحشت کا روپ دھار گئی تھی۔ یقیناً اس پر بے پناہ تشدد کیا گیا تھا۔

“بہت مشکل ہے جگر“ پھٹے ہونٹ والے قیدی کا لہجہ انتہائی سرد اور گھمبیر تھا۔۔ اس کے بے تکلفانہ الفاظ بتا رہے تھے کہ وہ دونوں کبھی دوست رہے ہیں۔

پہلے قیدی کے چہرے پر مایوسی چھانے لگی۔اس نے قریب پڑے مٹکے سے پانی پیا اور ایک طرف بے دم  سا ہوکر لیٹ گیا، جبکہ دوسرے قیدی نے پاس پڑا کاغذ اٹھایا اور اس پر کچھ لکھنے لگا۔

“ہم یہاں سے کبھی نہیں نکل سکیں گے“ ۔۔۔پہلے قیدی کی آواز سسک رہی تھی۔آنے والے دنوں کا تصور ہی اس کیلئے روح فرسا تھا۔قید کی سختیاں جھیلتے وہ اپنا گھر بار بھول چکا تھا۔جسمانی و ذہنی تشدد برداشت کرتے  کرتے اِسے یاد ہی نہیں رہا کہ اس کی اپنی فیملی بھی ہے۔اس کے دماغ میں اگر کچھ باقی تھا تو جیل کی سنگی دیواریں اور سپاہیوں کی کرخت صورتیں،بس۔۔تھوڑی دیر وہ لیٹا رہا اور پھر کچھ سوچ کر دوسرے قیدی کے پاس آیا، جو کچھ لکھ رہا تھا۔اس نے کاغذ پر نگاہیں دوڑائیں تو یہ دیکھ کر دنگ رہ گیا کہ اس کا ساتھی کاغذ پر کنجی بنا رہا تھا۔

“اس کنجی کی کیا ُتک بنتی ہے؟ کیا تم پاگل ہوگئے ہو” پہلا قیدی تقریباً چیخ کر بولا تھا۔پھٹے ہونٹ والے نے اس کی بات سنی اَن سنی کردی تھی اور اپنے کام میں مگن رہا۔
“یہ تم کیا کر رہے ہو؟ ہم دونوں جانتے ہیں یہ کنجی کبھی ہمیں یہاں سے نہیں نکال سکتی“ یہ کہہ کر وہ دوبارہ ڈھے گیا اور لمبی لمبی سانسیں لینے لگا۔
پھٹے ہونٹ والا تھوڑی دیر تک اس کنجی کو دیکھتا رہا جو اس نے ابھی کاغذ پر بنائی تھی، پھر گویا ہوا۔
“کاغذ کی یہ کنجی واقعی ہمیں یہاں سے نہیں نکال سکتی لیکن یہ ہمیں یاد دلائیگی کہ ہم نے یہاں سے نکلنا ہے“
پھٹے ہونٹ والا بول رہا تھا اور جیل کی سنگی دیواریں گویا طوفانی ہوا میں تنکوں کی طرح اڑنے لگی تھیں!

Advertisements
julia rana solicitors

مکالمہ ڈونر کلب،آئیے مل کر سماج بدلیں

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply