وہ مختصر سی ملاقات برسوں پر محیط ہو گئی۔۔عامر عثمان عادل

زندگی ایک جہد مسلسل کا نام ہے ایک امتحان ہے ,تلاشِ  رزق اور فکرِ  معاش بیٹوں کو ماں باپ سے ،معصوم بچوں کو پیار کرنے والے بابا سے، سہاگنوں کو سرتاج سے اور دوستوں کو اپنے لنگوٹیوں سے کوسوں دور لے جاتی ہے، فاصلے بڑھتے ہیں تو بیچ میں سات سمندر حائل ہو جاتے ہیں۔
تم سے بھی دلفریب ہیں غم روزگار کے۔۔کی عملی تصویر بنے، ہم کولہو کے بیل کی مانند اپنے پیاروں کی خوشیوں کی قیمت یوں چکاتے ہیں کہ اپنوں سے ہی جدا ہو جاتے ہیں۔

میرا بچپن کا ایک دوست بھی کئی  برسوں سے دوبئی کو پیارا ہو چکا ،پچھلے برس دوبئی جانا ہوا تو باوجود کوشش کے رابطہ ممکن نہ ہو پایا ،میں اس سے ملے بِنا ہی واپس آ گیا جس پر وہ خاصا خفا تھا، اب کے برس پھر دوبئی نے آواز دی تو ٹھان کر گیا کہ کچھ بھی ہو جائے ملنا ضرور ہے ،پہنچتے ہی کچھ بھی اپنے بس میں نہیں رہتا ،احباب کا خلوص اور اصرار کسی کو انکار کی گنجائش کب دیتا ہے ،خیر بھاگم بھاگ راس الخیمہ سے واپسی پر اپنے دوست کو فون کیا جو آج کل دوبئی ٹیکسی چلا رہا ہے اور رات کی ڈیوٹی شروع کر چکا تھا، طے ہوا کہ جب بھی میں فارغ ہوا وہ مجھے ساتھ لے  گا، رات نصف سے زیادہ ڈھل چکی تھی جب میرا اس سے رابطہ ہوا، پہلے وہ مجھے اپنی قیام گاہ لے گیا جہاں ایک کمرے میں لگ بھگ سولہ افراد مقیم تھے جو فرش خاکی پر گدے بچھائے محو ِ خواب تھے ہر ایک کے سرہانے پڑے بیگ اور اٹیچی کیس دیکھ کر پہلی نظر میں گمان یوں ہوتا ہے کہ جیسے یہ افراد تبلیغی جماعت کے ساتھ چلنے کیلئے نکلے ہیں۔

طے ہوا کہ کہیں بیٹھ کر کھانا کھایا جائے اور اسی بہانے یار پرانے گپ شپ بھی کر لیں گے ،دوست نے مجھ سے سوال کیا ،کھانا کیا ہے ؟اپنا جواب تھا، کھانے سے زیادہ آپ کی کمپنی درکار ہے۔۔ خیر Eat and drink نامی معروف لبنانی ریسٹورنٹ جا بیٹھے، کھانے کا آرڈر دے کر ہم نے سلسلہ تکلم وہاں سے شروع کر دیا جہاں سے ہم دیس پیارے میں بچھڑے تھے ،اپنے گاؤں کی باتیں گاؤں والوں کے تذکرے ،اپنے اپنے پیاروں کی بے حسی کے شکوے ،برسوں ساتھ گزارے سنہری دنوں کی یادیں، ان یادوں کی پٹاری کھولے ہم ایسے کھوئے کہ سامنے پڑا کھانا ٹھنڈا ہو رہا تھا، کلام کے ساتھ ساتھ طعام بھی شروع ہوا سلیقے اور قرینے سے سجی سلاد کی رکابی تیز مصالحوں اور آئل سے پاک گرل کیا گیا چکن، زیتون اور چنوں سے کشید کر کے بنائی گئی ڈش جسے خمس کا نام دیا گیا اور چپاتی کی مانند خبز، سب کچھ اس قدر لذیذ تھا کہ ہاتھ رکنے کا نام ہی نہیں لینے پا رہا تھا۔

دسمبر کی طویل رات دوبئی کی نرم نرم خنکی ،اجنبی دیس میں اپنے ہمدم دیرینہ کا ساتھ ،لبنانی ریسٹورنٹ کے مخصوص کھانوں کی مہک کے ساتھ دور دیس بیٹھے پیاروں کی میٹھی باتیں اور پیچھے رہ جانے والے لمحوں کی کسک ،ایک ایسا انوکھا تجربہ تھا جسے صرف محسوس کیا جا سکتا ہے، ضبط تحریر میں لانا مشکل ہے۔ وہاں سے اٹھے اور چائے کی چسکی کیلئے Filly نامی چائے خانے پر جا بیٹھے ،جس کی زعفرانی چائے کا گھونٹ بھرتے ہوئے میرے لئے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو رہا تھا کہ یہ چائے زیادہ کڑک ہے یا میرے جگری دوست کا ساتھ ،کاش وقت تھم جاتا مگر مجھے یہ احساس دامن گیر تھا کہ یہ اس کے کام کا وقت تھا ،سحری کے 2 بج چکے تھے میں نے بادل نخواستہ اسے جانے کا کہا، اس نے مجھے خدا حافظ کہا اور ٹیکسی میں بیٹھ کر روانہ ہو گیا۔ اب اسے صبح 4 بجے تک سواریوں کی تلاش میں دوبئی کی سڑکیں ناپنا تھیں، میں چشمِ تصور سے دیکھ رہا تھا کہ میرے دوست کی مانند کتنے پاکستانی رات بھر جاگ کر ایک ایک درہم اکٹھا کرتے ہیں اور وطن میں ان کے گھر والے نرم گرم بستروں میں محوِ  استراحت کتنا فرق ہے ہم پاکستان میں بیٹھے کیا کیا خواب اپنی پلکوں پہ سجائے آرام کی نیند سوتے ہیں جبکہ پردیسی ان خوابوں کو تعبیر دینے کی خاطر رات بھر جاگ کر مزدوری کرتے ہیں، بے اختیار میرے دل سے دعا نکلی کہ اے خالق ِ کائنات،تو ہی ان پردیسیوں کا محافظ ہے، ان کی لاج رکھنا اور ان کے پیاروں کے خواب کبھی اجڑنے نہ دینا!

Advertisements
julia rana solicitors

مکالمہ ڈونر کلب،آئیے مل کر سماج بدلیں

Facebook Comments

عامر عثمان عادل
عامر عثمان عادل ،کھاریاں سے سابق ایم پی اے رہ چکے ہیں تین پشتوں سے درس و تدریس سے وابستہ ہیں لکھنے پڑھنے سے خاص شغف ہے استاد کالم نگار تجزیہ کار اینکر پرسن سوشل ایکٹوسٹ رائٹرز کلب کھاریاں کے صدر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply