سیاہ بخت کب جاگیں گے. ؟

سیاہ بخت کب جاگیں گے؟؛پہلی قسط

ایلن گرین سپین کم وبیش پورے عشرے میں ایسے شخص رہے ہیں کہ جنہیں یہ امتیازی حیثیت حاصل ہے کہ جب وہ بولتے تھے تو باقی سب چپ ہوجاتے تھے۔انہیں انتہائی سنجیدگی خاموشی اور فکرمندی سے سناجاتاتھا۔نیو یارک سے ٹوکیو اور سنگا پور سے لنڈن تک تمام اقتصادی مراکز میں سناٹا چھاجاتا تھا۔سٹاک ایکسچینج اورمالیاتی ادروں کی نبض رک جاتی تھی کہ نہ جانے ایلن گرین سپین کیا کہیں
گے۔؟وہ کیا حکم صادر کرینگے؟
ایلن گرین سپین کو انتہائی تجربہ کار ہونے کے ساتھ ساتھ سب سے پرانے عہدیدار ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے وہ عہدیدار جسے چھ امریکی صدور۔کے ساتھ کام کرنے کا منفردتجربہ ہے۔
یہ ایلن گرین سپین 1926میں نیو یارک میں پیدا ہوا۔ابھی چار ہی سال گزرے تھے کہ والدین میں طلاق ہوگئی۔امربکی روایات کے مطابق یہ ایک ادارے کے زیر سایہ پروان چڑھے۔اور پھر شہر بہ شہر پھرتے رہنے کے بعد ایک وقت اسکو وہ دیکھنے کو ملا کہ وہ بات کرے تو لوگوں کااوسان خطارہتے ہیں اسکے صدور حکم تک۔…..

اس انگریز کا ذکر اتنا لمبا اسلئے چلا کہ اس نے ایک بات کہی تھی جو کہ بہت پائیدار اور ذو معنی تھی کسی کیلئے ہو یا نہ ہو ہم جیسی قوموں کیلئے وہ بات بہت اہمیت کے حامل ہے۔وہ بات یہ تھی کہ,,اگر ماہر ہو تو ایک بھی کافی ہوتا ہے؛؛ ……انہوں نے یہ بات جس بھی سیاق وسباق میں کہی ہو مگر ہمارے اوپر مکمل طور پر فٹ بیٹھتی ہے۔ ہمارے ہاں جس قدر ماہرین بڑھتے جارہے ییں اسی قدر ہماری حالت غیر ہوتی جارہی ہے۔خصوصا تعلیم.سیاست.معاشیات۔میں ہمیں جسقدر ماہرین میسر ہیں دنیا کے کسی ملک کو بھی اسکا دس فیصد بھی نہ ملے ہونگے۔اور۔انہی شعبوں میں ہم جسقدر۔درماندہ ہیں دوسرے ملک کم۔ہی ہونگے۔
ماہرین سیاست
ماہرین معاشیات
ماہرین تعلیم
ماہرین علم ادب وصحافت۔
وغیرہ وغیرہ۔ غرض کونسا شعبہ ہے کہ جسکے ماہرین ہمارے معاشرے میں نہیں۔حیرانی البتہ اس میں ہے کہ برساتی بدرو میں پیدا ہونے والے یہ تیراک اور غوطہ خور اپنے مفادات اور صلاحیتوں کے کیسے صیقل گر نکلے کہ جہاں جہاں تھے وہیں وہیں وطن عزیز کی بیڑی ڈبودی۔مگر اپنی اور اپنی معذور کند ذہن کام چور اور بد فطرت آل والاد کی سوراخ زدہ کشتی بھی تیز رفتار میں بدل دی۔

انقلاب فرانس کے دوران ایفل ٹاور کے قریب یک لخت گردن کاٹنے والا جوگلوٹین گاڑاگیا تھا اسکے نیچے آنے والی اکثر گردنیں مہارت کے وصف سے ایستادہ اور مشاورت کے زعم میں راست رہی تھی۔اور فرانس کے عوام کا یہ فیصلہ تھا کہ ہمارے آلا م ومصائب میں ان جعلی ماہرین کا کلیدی کردار ہے لہذا انکو گلوٹین کے عین نچے لٹکادیا جائے۔

خدشہ مگر یہ ہےکہ ہم کہاں کھڑے ہیں کس ہاتھی کے کان میں ہم خواب خرگوش سورہے ہیں۔اور کن روایتوں میں کھوگئے؟ ہم کس سمت گامزن ہیں۔؟ یہ ادراک اس وقت ہوگا جب ہم اپنےصل کام کو کام جانیں۔ اپنا مشغلہ فضولیات سے نکل کر اصلیات کو بنایئں۔دیوبندی بریلوی شیعہ ۔اہل حدیث غامدی۔ یہ ہمارا میدان نہ تھا نہ ہے۔ اور نہ ہوگا۔ یہی وہ حرکات وسکنات ہیں جنکی بنا پر ہم اپنی زمین کو بنجر کر گئے۔

مگر ان فضولیات کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہ یہ بات آج کے دور میں ہر ایک جانتا ہے کہ اس زمین کو بنجر کرنے میں کون کون سے ماہرین کیسے کیسے غوطہ خور اور کن تیراکوں کاہاتھ ہے؟ یاد رہے کہ سابق صدر بھی تشریف لا چکے.

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

خورشید احمد خان
میرا تعارف میرےناقص خیالات ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply