کتے کی پریس کانفرنس ۔!

اجمل ملک
شعلے فلم میں ویرو چیختا رہا کہ بسنتی، ان کُتوں کے سامنے مت ناچنا ۔ ۔ لیکن بسنتی ناچ کے ہٹی۔ فلم گھاتک میں سنی دیول چنگھاڑا’’مرد بننے کا اتنا ہی شوق ہے تو کتوں کا سہارا لینا چھوڑ دے‘‘۔ لیکن کاتیا۔کتوں کا سہارالے کر ہٹا۔اور۔ فلم خود دار میں گوندا نے کہا ’’جب دس کمینے مرتے ہیں۔ تو ایک کتا پیدا ہوتا ہے۔‘‘ اور وہ دس کمینے مار کے ہٹا۔فلمی ڈائیلاگ نے ثابت کیا ہے کہ کُتوں کی کئی خصلتیں انسانوں میں پائی جاتی ہیں۔حتی کہ طبعیت بھی کُتی ہو سکتی ہے۔وگرنہ بسنتی کئی بار۔ویروکے سامنے ناچی تھی۔اسے کُتوں کے سامنے ٹھمکنے میں بھی کوئی پرابلم نہیں ہونا چاہیے تھا اور ہوا بھی نہیں ۔ویروروکتا بھی رہا لیکن بسنتی کی اپنی طبعیت بھی مجرے پرمائل تھی۔ سامنے کتی طبعیت والے تماش بین ۔جو۔ تھے۔ فلم میں جونہی ویرو نے بسنتی کو ناچنے سےمنع کیا تو سردار جی سینما ہال میں کھڑے ہو گئے اور بولے۔ ’’ ہم نے ٹکٹ خریدا ہے۔ اس کا تو باپ بھی ناچے گا‘‘۔ شائد سردار جی کا موڈ بھی کالیا جیسا تھا۔
موڈ ۔انسانی ذوق اور سوچ کا ایسا امیبا ہے جو جمالیاتی اور غیر جمالیاتی ا حساس کے اثر سے شکل بدلتا ہے۔شکل لٹک بھی سکتی ہے اور بھٹک بھی ۔لیکن زبان۔دماغ کے تابع ہوتی ہے۔اسی لئے الفاظ کی تاثیر ٹھنڈی اور گرم ہوتی ہے۔لفظ بدتمیز نہیں ہوتے ۔البتہ ادائیگی مروا دیتی ہے۔ اسی طرح کُتا بھی ہمارے گفتاری ذوق کا عکاس ہے۔ہم گفتگو کے ذریعےکُتے اور بہت ہی کُتے میں تمیزپیدا کرتےہیں۔گالی اور ۔وفا دونوں کُتے سےمنسوب ہے۔بلکہ کتا تو ایسی گالی ہے۔ جسے ہم داغنے سے پہلے’’ٹارگٹ ‘‘ کی جنسی تمیز بھی کرتے ہیں۔Bitch اور son of bitch اس جنسی تمیز کی مثالیں ہیں۔ہم اشر ف الخلق ہیں لیکن کتے ہماری زندگی میں رچ بس گئے ہیں۔ ہم نے ’’ کتی چوراں نال مل گئی‘‘ جیسی اختراع ۔ تراش رکھی ہے۔ احتجاجی مظاہروں میں ہم کُتا ۔ہائے ہائے ۔والے انتقامی نعرے مارتے ہیں۔تقریبات میں وی۔ وی آئی پی شخصیات کی آمد سے پہلے کتا آجاتا ہے۔سکیورٹی چیکنگ کے لئے ۔ شکار پر جانا ہو تو کُتا ۔ پوائنٹر ہے اور دشمنی ہو تو کتا۔ کتے کابیری۔ٹیٹھ ہڈی کے لئے’’ کتے کی دم ٹیڑھی ‘‘ اور نفرت کا اظہار۔’’کنویں سے کتا نکال کر‘‘ کیا جاتا ہے۔انتقام ’’کتے کی موت مارنا ‘‘ہے اور آوارہ گردی ہے ’’کتے خصی کرنا‘‘۔صدر کُتا ہائے ہائے کے نعرے لگانے والاایک شخص پولیس نےپکڑلیا ۔تو۔وہ ڈرکے بولا:انسپکٹر صاحب۔میں توانڈیا کےصدرکو کتا کہہ رہا تھا ۔
تھانیدار:اوئے بےوقوف نہ بنا۔ہمیں پتہ ہےکون سا صدر کتاہے۔
کُتاہمارے سیاسی احتجاج اورذاتی انتقام کا استعارہ ہے۔ہم نے ۔ناپسندیدہ لوگوں سے ہمیشہ کتے والی کی ہے۔مرحوم جنرل ضیا نے کہا تھا ’’یہ سیاستدان کیا ہیں۔میں ذرا سا پچکاروں تو دُم ہلاتےآ جائیں گے‘‘۔اور۔سیاستدان ۔آکے ہٹے۔ کُتے غیر سیاسی ہوتے ہیں۔لیکن ہم نے نعرے مار مار کے انہیں سیاسی بنایا اب ایوانوں سے باہر نکالنے کے لئے ہائے ہائے کر رہے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ’’ کتا اپنی گلی میں شیرہوتا ہے۔جس طرح شیر دوسرے کی گلی میں کتا ‘‘۔ یوں شیرکو مظاہرین نے کُتا بنا چھوڑا ہے۔لیکن میرا دوست شیخ مرید کہتا ہے کہ سارے کُتوں کا۔ کالرآئی ڈی ایک جیسا ہوتا ہے ۔اور وہ بے وجہ رنگ ٹون بجا تے رہتے ہیں۔انگریزی کہاوت ہے کہ بھونکنے والے کتے کاٹتے نہیں۔لیکن پطرس بخاری کہتے ہیں کہ’’ یہ کِسے معلوم ہے کہ بھونکتاہوا کتا۔ کب بھونکنابند کردے اور کاٹناشروع کر دے‘‘۔
ڈاکٹر۔مریض سے:تمہیں کُتے نے بہت زبردست کاٹا ہے۔ گوشت کاٹنا پڑے گا ۔ اور ۔ پانچ ہزار لگیں گے ۔
مریض::واہ ڈاکٹر صاحب واہ: کتے نے مفت کاٹا تھا ۔اور ۔آپ کاٹنے کے 5ہزار مانگ رہے ہیں۔
کتوں کی موجودگی احساس تحفظ بھی ہے اور خوف بھی۔ دیہاتوں سے شہروں تک ۔ کُتے ہی سکیورٹی امور انجام دیتے ہیں۔ لیکن دیہاتی سکیورٹی خود ساختہ ذمہ داری ہوتی ہے۔شہروں میں کُتے کار کے شیشے سے تھوتھنی نکالے کر الرٹ بیٹھے ہوتے ہیں۔دنیا بھر میں شہرساری رات جاگتے ہیں ۔لیکن دیہات جلد ہی نیند کی بُکل مار لیتے ہیں ۔یوں سکیورٹی بھی جلد ہی الرٹ ہو جاتی ہے۔’’اہلکار‘‘ ہر مشکوک حرکت کی اطلاع گاؤں کے دوسرے کھُدروں میں بیٹھے اہلکاروں تک پہنچاتے ہیں۔ہنگامی سائرن پنڈمیں رات بھر بجتے ہیں۔اور اگر کوئی پتلون والا نظر آ جائے تو۔رنگ ٹون بجابجا کر پتلون۔ ہمسایہ گاؤں کے ہم جنسوں کے حوالے کرکےآتے ہیں۔بقول پطرس بخار ی’’ہم دیسی لوگوں کے کتے۔۔ ایسےقوم پرست ہیں کہ پتلون اورکوٹ دیکھتے ہی بھونکنے لگ جاتے ہیں۔اصل کتے پالتو ہوتے ہیں کچھ فالتوبھی ہوتے ہیں‘‘۔
اولمپیا (واشنگٹن)پولیس ڈیپارٹمنٹ کا میلنک نامی جرمن شفرڈ انتہائی پالتو کتا نکلا۔ واشنگٹن کےصحافیوں نے کبھی سوچا بھی نہ ہوگا کہ انہیں کسی روز سچی مُچی کتے کی پریس کانفرنس بھی سننا پڑے گی۔ ملینک نے پولیس میں بطور آفیسر چھ سال نوکری کی۔اوربہت ہی اہم کیس حل کئے۔پولیس کاد عوی ہے کہ ملینک نے پریس کانفرنس کرکے ریٹائرمنٹ لینے کی خواہش کااظہار خود کیا تھا۔اسے ہال میں لایا گیا۔کُتے کے منہ لگنے کے لئے میڈیا بلایا گیا۔کتے۔ نے۔ نہ جانے کیا بھونکا۔لیکن پریس کانفرنس کے بعد وہ رٹیائرڈ ہوگیا۔رپورٹرز کی زبان تو کُتے والی نہیں تھی لیکن سوال سن کر کُتا جواب میں مزید بھونکا۔
پشاور پولیس نے بھی پچھلے سال کُتے بھرتی کئے۔جنہیں دیکھ کر پی ٹی آئی چیف عمران خان نے کہا تھا ’’مجھےیہ کتے سفارشی لگتے ہیں۔نئے کتے میرٹ پربھرتی کئے جائیں‘‘۔یہ کُتا ۔میرٹ کیا ہے۔اب کوئی پتہ نہیں ۔لیکن ریحام خا ن نے کہا تھا کہ’’ہماری طلاق کی ایک وجہ کتےبھی ہیں۔بنی گالہ میں عمران کے5کتے ہیں۔ایک کتامیں ساتھ لائی تھی‘‘ ۔مرید کہتا ہے کہ گھر اور گھاٹ سے بے دخل کتے ۔اب قصائی کے پٹھے تھلے چئوں، چئوں نہیں کرتے ۔انہوں نے نیا مقام پیدا کرلیا ہے۔
چوہدری کمی سے :او گدھے۔تم میرا ۔ذرا بھی احترام نہیں کرتے۔آخر کیوں ؟
کمی:جناب آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے۔ آپ کا تو کتا بھی آئے ہم سمجھتے ہیں چوہدری خودآیا ہے ۔
آج بھی بہت سے کمی۔ چوہدریوں کا احترام کُتے والا کر رہے ہیں۔ خود ساختہ سکیورٹی کی طرح یہ بے ساختہ دشمنی ہوتی ہے۔اس لئے مشہور ہے کہ ’’کھڑاپانی، کھڑا دشمن اور کھڑا کُتا بہت خطرناک ہوتے ہیں‘‘۔سیانے کہتے ہیں کہ کُتا پیچھے پڑ جائے تو بیٹھ جائیں۔لیکن کُتے ٹانگ کے بجائے کان کاٹنے لگے ہیں۔ شیخ مرید کہتا ہے کہ کُتے کی زبان اس کی دُم میں ہوتی ہے۔وہ منہ سے بھونکتا ہے اور دم سے بولتا ہے‘‘۔ ہم نے کتوں کے ساتھ رہنا سیکھ لیا ہے۔پطرس بخاری کی نثر اورفیض صاحب کی شاعری کا موضوع بھی کُتےرہے ہیں۔فلموں میں کُتے ہیرو۔بھی رہے ہیں۔بسنتی کُتوں کے آگے ناچ بھی چکی ہے۔ طبعیت بھی کُتی ہو سکتی ہے۔کتا ہائے ہائے بھی ہوتا ہے۔کتے پریس کانفرنس بھی کرسکتے ہیں۔ وفادار بھی ہوتے ہیں۔سکیورٹی اہلکار بھی۔ ریاست ، گلی ، محلے، گھر ، گاڑی اور دفتر ہر جگہ پر کُتے ہیں ۔ کتااس دنیا کی واحد مخلوق ہے جو خود پسندی کا شوقین نہیں ۔اپنے مالک کو پسند کرتا ہے۔مجھے توبلھے شاہ یاد آ رہے ہیں۔
’’بازی لے گئے کتے‘‘۔

Facebook Comments

اجمل ملک
مجھے پاکستانی ہونے پر فخر ہے۔ بیورو چیف ایکسپریس نیوز۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”کتے کی پریس کانفرنس ۔!

Leave a Reply