ٹھہریے: آگے پولیو پر کام ہو رہا ہے۔۔۔ساجد محمود خان

بحیثیت ایک ادنیٰ قلم کار میرے ذہن میں یہ بات کئی دنوں سے کھٹک رہی تھی کہ ملک بھرمیں پولیو مہم جاری ہے اور اس سلسلے میں لوگوں کو اپنے بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے کی ترغیب دی جائے اور عملی طور پر کوشش کر کے اپنے حصے کی شمع روشن کی جائے۔ ذہن ابھی اسی سوچ میں مگن تھا کہ پشاور کے نواحی علاقے بڈھ بیر میں پولیو مہم کے دوران پولیو کے قطرے پلانے سے بچوں کی حالت خراب ہونے کی کچھ غیر مصدقہ اطلاعات نے قلم واپس رکھ کر تماش بین بننے پر مجبور کر دیا،یوں تو اس واقعے نے جہاں صوبائی دارالحکومت سمیت پورے صوبے کے والدین کے ذہنوں میں پولیو سے متعلق پائے جانے واے ابہام کو مزید تقویت دی وہاں شہر میں امن و امان کی فضا کو بھی متاثر کیا،لیکن حکومت کی جانب سے عوام کی تسلی اور اطمینان کے لئے خاطر خواہ اقدامات اٹھانے اور اس واقعے کے اصل محرکات کو سامنے لانے کے بعد پولیو مہم سے متعلق عوام کے خدشات میں کمی ضرور واقع ہوئی لہذا ہم نے بھی دوبارہ ہمت کر کے واپس قلم اٹھا لیا۔

دنیا میں کسی بھی ریاست یا حکومت وقت کا اولین اور بنیادی مقصد اپنے عوام کی فلاح و بہبود ہوتا ہے، فلاح و بہبود کے مقصد کے لئے خدمات کی فراہمی کے مختلف شعبے کارفرما ہوتے ہیں جن میں صحت کے شعبے کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔  انسانی حقوق کے عالمی اعلانیہ مجریہ 1948 میں کہا گیا ہے کہ “ہر فرد اور اس کے خاندان کو صحت کی مناسب سہولیات کا حق حاصل ہے ” اس کے علاوہ اقوامِ متحدہ کے ادارہ صحت کے آئین میں درج ہے کہ “صحت کے بلند ترین معیار سے استفادہ کرنا ہر فرد کا بنیادی انسانی حق ہے” ۔ پاکستان میں صحت شعبے میں حکومتی اداروں کے علاوہ نجی شعبہ اور فلاحی تنظیمیں بھی اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ کچھ لوگ انفرادی طور پر بھی اس شعبے میں اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔

  پولیو کے  خاتمے کے حوالے سے بل گیٹس اور ان کی اہلیہ میلنڈا گیٹس کی فاؤنڈیشن بل اینڈ میلنڈا گیٹس فاؤنڈیشن پوری دنیا میں کام کر رہی ہے مگر یہ فاؤنڈیشن پولیو کے خاتمے کے لیے پاکستان، نائیجیریا اور افغانستان میں خصوصی اقدامات اٹھا رہی ہے۔ چونکہ پاکستان بھی ان ممالک میں شامل ہے جہاں پولیو سے متاثرہ افراد کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ اس لئے اس مرض سے متعلق بنیادی معلومات حاصل کرنا ہمارے لیے نہایت ضروری ہے۔  پولیو تیزی سے پھیلنے والاایک وبائی مرض ہے جس کا سبب پولیو وائرس ہوتا ہے۔ یہ وائرس اعصابی نظام پر حملہ آور ہوتا ہے جو بعض اوقات جسم کے مختلف اعضاءکے پٹھوں میں کمزوری کا سبب بنتا ہے۔ یہ مرض کبھی کبھار معذوری کے ساتھ ساتھ موت کا باعث بھی بن سکتا ہے۔  پولیو زیادہ تر پانچ سال سے کم عمر کے ایسے بچوں کو متاثر کرتا ہے جنہیں پیدائش کے بعدسے پولیو سے بچاؤکے قطرے نہ پلائے گئے ہوں۔ یہ بات جاننا ضروری ہے کہ پولیو کا کوئی علاج نہیں ہے مگر پولیو کا تدارک اور اس سے بچاؤصرف اور صرف حفاظتی قطروں کی بدولت ہی ممکن ہے۔ مختصریہ کہ پولیو کے قطرے اس مرض سے چھٹکارا حاصل کرنے کا واحد راستہ ہے۔

  اگر پولیو کے حوالے سے اعداد و شمار کو دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ پاکستان کبھی بھی پولیو سے پاک نہیں رہا ہے  تاہم 2005 میں تصدیق شدہ کیسز کی تعداد بہت کم تقریباً 28 کے قریب بتائی جاتی ہے مگر بدقسمتی سے وقت کے ساتھ ساتھ اس تعداد میں ہر سال بدستور اضافہ ہوا ہے اور 2014 میں تویہ تعداد بڑھتے بڑھتے 306 تک پہنچ گئی تھی۔
عالمی سطح پر یہ بات ثابت ہے کہ پولیو ویکسین ہر لحاظ سے ایک محفوظ ویکسین ہے۔ دنیا کے بیشتر اسلامی ممالک جیسے کہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، ترکی میں پولیو کا صفایا کرنے کے لئے اسی ویکسین کو استعمال کیا گیا،حتی کہ سعودی عرب میں حج اورعمرے کی ادائیگی کے لئے سفر کرنے والے تمام مسافروں کے لئے پولیو ویکسی نیشن لازم کر دی گئی ہے اور پولیو کے قطرے پینے کے تصدیقی دستاویزات کا ثبوت بھی فراہم کرنا ہوتا ہے۔
پچھلے برس ماہ ستمبر میں راقم کو ایک تعلیمی کانفرنس کے سلسلے میں ایران براستہ تفتان جانے کا اتفاق ہوا تھا۔ تفتان سے جیسے ہی سرحد عبور کرکے ایران میں قدم رکھا تو ایران کے ایک پولیو ورکر نے فوراً پولیو کے قطرے پلا کر اپنے ملک میں خوش آمدید کہا۔ یہاں پر سوچنے والی بات یہ ہے کہ اگر یہ پولیو کے قطرے امریکہ یا مغرب کی کوئی سازش ہے تو ایران اس سازش میں امریکہ کا ساتھ کیوں دے رہا ہے؟ حالانکہ ایران امریکہ کو عالم اسلام اور ایران کا سب سے بڑا دشمن سمجھتا ہے۔ ایران جیسا ملک جہاں   مرگِ بر امریکہ ایک مقبول نعرہ ہے۔ ایران کے رہنما نے اکثر مواقعوں پر کہا ہے کہ اس نعرے کا مقصد امریکی عوام کی موت نہیں ہے۔ نعرے کا مطلب مرگ بر امریکہ پالیسیاں اور غرور ہے۔ ایرانی حکومت اور عوام امریکہ سے شدید خائف ہیں اور اس کی پالیسیوں کواسلامی دنیا اپنے ملک کے لیے خطرے کا باعث خیال کرتے ہیں مگر وہاں بھی پولیو مہم کو مغرب کی سازش یا نقصان دہ نہیں سمجھا جاتا۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں چند لوگ پولیو کے قطروں کے حوالے سے لوگوں میں ایک خوف پیدا کر کے بچوں کے مستقبل کو غیر محفوظ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مہربانی کریں اور اپنے بچوں کو پولیو کے قطرے پلائیں کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ کی آج کی عدم توجہی مستقبل میں آپ کے بچوں کے لئے مستقل معذوری کا باعث بن جائے اور یہ بچے اپنی معذوری کی وجہ سے آپ کی سرکردہ کوتاہیوں کیلئے آپکا گریبان بھی نہ پکڑ سکیں۔ڈریں اس وقت سے جب آپ کا شمار ظالموں اور گمراہ کن لوگوں میں ہو گا۔

Facebook Comments

ساجد محمود خان
۔ سیاسیات کا طالب علم۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply