• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • پہلی جنگ عظیم-چوتھی قسط(پہلا حصہ)خلافت عثمانیہ کا اعلان جہاد۔۔۔۔آصف خان بنگش

پہلی جنگ عظیم-چوتھی قسط(پہلا حصہ)خلافت عثمانیہ کا اعلان جہاد۔۔۔۔آصف خان بنگش

خلافت عثمانیہ جرمنی سے اتحاد کے بعد تاج برطانیہ کے خلاف جہاد کا اعلان کرتی ہے۔ عثمانیوں کے جرمن کائزر سے تعلقات جنگ شروع ہونے سے کافی پہلے کے تھے۔ ترک اسے “حاجی ولہم” کے نام سے پکارتے تھے، اور یہ بھی مشہور تھا کہ وہ مسلمان ہو کر حج کے سفر پر بھی جائنگے۔ 30 کروڑ مسلمان اس بات سے پرامید تھے کہ جرمن شاہ ہمیشہ ان کے دوست رہیں گے۔ جرمن اور ترکوں کی دوستی میں ایک قدر مشترک تھی کہ دونوں کا دشمن ایک تھا یعنی کہ “روس”۔ ترکوں کا آبنائے دردانیال (Dardanelles) پر کنٹرول روس کو بحیرہ اسود (Black Sea) سے دور رکھنے میں اہم تھا۔

ترکی کی سرحد روس سے قفقاز پر ملتی تھی جو کہ ایک حساس علاقہ تھا۔ روس کی نظریں قسطنطنیہ (Constantinople) پر تھیں جبکہ سلطنت عثمانیہ کبھی جزیرہ نما عرب سے ویانا تک پھیلی تھی لیکن اب یہ سکڑ کر ایک تہائی رہ گئی تھی۔ متواتر جنگوں سے اب اسکی حالت خستہ تھی، اور اب یہ تباہی کے دہانے پر کھڑی تھی۔ اور عالمی طاقتیں اس کے گرد گھیرا تنگ کیے ہوئے تھیں۔ ایک جوان ترکوں کا گروپ اب سرگرم تھا جنہوں نے سلطان کی جگہ اس کے بھائی کو 1909 میں مسند پر بٹھایا اور ریفارمز کی بات کرنے لگے تھے۔ اب وہ کسی ایسی دوست ملک کی تلاش میں تھے جو کہ ان کی مدد کرے اور سلطنت کا مستقبل محفوظ ہو۔ ایسے ہی جوانوں میں ایک 32 سالہ جوان انور پاشا تھا۔ بلقان کی جنگ میں انور کی کارکردگی پر وہ سلطان کی بھتیجی سے نکاح میں آئے اور برلن میں ملٹری اتاشی تعینات تھے۔ انور لکھتا ہے کہ وہ جرمن کی فوجی طاقت سے متاثر تھا اور میں نے اس کا ساتھ دینے کا فیصلہ اس لئے کیا کہ وہ میرے ملک کے لئے کوئی خطرہ نہیں تھا۔

لیکن جرمن چیف وان مالٹکے نے ترکی کو فوجی طور پر ناکارہ قرار دیا تھا۔ وہ لکھتا ہے کہ اگر ترکی پہلے ایک “بیمار آدمی” تھا تو اب تو اس کی حالت مردہ انسان جیسے ہوگی۔ بیرن میکس (Flamboyant Baron Max von Oppenheim) ایک کاونسلر تھا جو کہ اسلام سے واقف تھا۔ اس نے کائیزر کو سوچنے پر مجبور کیا اور ترکوں کو جنگ میں کودنے پر اکسایا۔ اس کے مطابق جب مصرپر ترک حملہ آور ہوں اور انڈیا میں خون خرابہ ہو تب ہی برطانیہ گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوگا۔ جرمن شاہ کی نظر میں صدائے جہاد ہی وہ واحد حل تھا جو کہ تاج برطانیہ کو اسی کی کالونیوں میں سرنگوں کرسکتا تھا۔ انور پاشا نے ترک کابینہ کو نظر انداز کر کے جرمنی کا ساتھ دینے کیلئے دستخط کر دیئے، یہ 2 اگست 1914 کا دن تھا۔ استنبول اب مشرقی محاذ کا مرکز بننے والا تھا۔ اسلامی دنیا میں افواہیں گردش کرنے لگیں کہ افغانستان سے 50 ہزار کا لشکر انڈیا پر حملہ کرنے والا ہے۔ اس قسم کی افواہیں پھیلا کر جوانوں کو جنگ پر ابھارنے کی کوشش کی گئی۔ انور پاشا کا جنگ میں کودنے کا مقصد بقول اس کے یہ تھا کہ وہ ترکوں کو مشرق میں متحد کرنا چاہتا ہے۔ انور کے پاس 8 لاکھ کی فوج تھی جس میں ترک، عرب، کرد سب شامل تھے۔ ترک کابینہ جنگ کے معاملہ میں دو حصوں میں بٹی ہوئی تھی لیکن اسے مالی معاونت کی سخت ضرورت تھی جس نے اسے جنگ میں جانے پر مجبور کیا۔

دو جرمن جہاز بحیرہ روم میں رائل نیوی سے جان چھڑانے کیلئے ترکی میں پناہ حاصل کرنے پر مجبور ہوئے، ترک فی الحال غیر جانبداری ظاہر کر رہے تھے انہوں نے کہا کہ وہ یہ جہاز خرید چکے ہیں لیکن جرمن عملے نے روسی سفارتخانے کے سامنے سے گزر کرجرمن ترانے بجا کر پول کھول دیا تھا کہ ترک اب جرمن کے ساتھ ہیں۔ 29 اکتوبر 1914 کوگوبن اور برسلاو (Goeben and The Breslau) کی قیادت میں ترک بیڑے نے آبنائے باسفورس سے گزر کر کئی روسی بندرگاہوں پر حملہ کیا۔ انور پاشا نے بحیرہ اسود کی گزرگاہ کو مائن لگا کر بند کر دیا تھا۔ جنگ میں ساتھ دینے کیلئے ترکی کو 50 لاکھ پاونڈ سونے میں دیئے گئے تھے۔ ترک اب پہلی جنگ عظیم میں کود پڑے تھے لیکن وہ اپنی ہی شرائط اور اپنے ہی مقاصد کیلئے اس لڑائی کا حصہ بنے تھے۔

انور پاشا کے عزائم بڑے تھے، وہ لکھتا ہے کہ سرحدوں کے پار اپنے آبا کی کافی زمین واپس لینی ہے، دشمن کے قبضے سے اپنے بھائیوں کو چھڑانا ہے۔ قریب 40 سال قبل روس نے مشرق میں ترکوں سے کچھ علاقے چھینے تھے جسے انور واپس لینے کے لئے بیتاب تھا لیکن سرحد پر ایک مسئلہ یہ تھا کہ وہاں مختلف اقوام آباد تھیں، ترک، روسی، جارجین، کرد اور سرحد کے دونوں طرف آرمینین عیسائی۔ اس لئے وہاں لوگوں کی وفاداری خریدنا ایک مشکل مرحلہ تھا۔ نومبر 1914 میں انور نے جرمنوں کے بہکاوے میں آ کر ایک اہم فیصلہ لیا، گو کہ سردی کا موسم تھا لیکن اس نے اپنی فوج روسیوں پر چھوڑ دی۔ اب اس نے اسلام کا سہارا لیا۔ اور جوانوں سے خطاب کر کہ کہا کہ 30 کروڑ مسلمان ان کی زنجیروں تلے رہ رہے ہیں اور تمام مسلمان ہماری کامیابی کے لئے دعا گو ہیں۔ خوش قسمت ہے کہ شخص جو اپنے آبا کے وطن پر جان نچھاور کرے۔ اس لئے آگے بڑھو۔ فتح یا شہادت تمہاری منتظر ہے۔

دسمبر 1914، ترک فوج کی 9ویں کور نے بلند دروں سے ہوتے ہوئے (Ohuekberd Mountains) کے پہاڑوں میں ڈیرہ  ڈالا۔ ان کا مقصد (Sarikamis) سے روسیوں کا نکالنا تھا۔ روسی شروع میں گبھرائے اور پسپا ہوئے اور انور کی بازی رنگ لائی لیکن پھر موسم نے اپنا رنگ دکھایا۔ اب ترکوں کو شدید سردی کا سامنا تھا۔ انور نے انہیں دلاسہ دینے کی کوشش کی کہ تمھارے پاس کوٹ اور جوتے نہیں لیکن دشمن تم سے خوفزدہ ہے۔ ایک فوجی لکھتا ہے کہ جرمن ہماری سست روی کی شکایت کرتے لیکن برف اتنی گہری تھی کہ چلنا دشوار تھا۔ کچھ سپاہیوں نے رات آگ جلا کر گزاری کچھ سو گئے اور دوبارہ کبھی نہیں جاگے۔ صبح ہمیں معلوم ہوا کہ آدھی ڈیویژن برف میں منجمد ہو کر ہلاک ہو چکی ہے۔ 25000 ترک سپاہی برف زار میں روسیوں کا سامنے کرنے سے پہلے ہی موسم کی شدت سے ہلاک ہو گئے تھے۔ ایک سپاہی لکھتا ہے کہ برف میں منجمد لاشیں دیکھ کر پوری فوج سکتے میں تھی، ہم نے روسیوں پر گولی چلانا چاہی لیکن بندوقیں برف کی وجہ سے ناکارہ ہو گئی تھیں۔ ان دنوں کے بارے میں سوچ کر میں کانپ جاتا ہوں، وہ مناظر یاد کر کے جھرجھری طاری ہوتی ہے۔ کانپتے ہوئے بیل گاڑیوں کی آوازیں، لاشیں، جن کے منہ کھلے ہوئے اور آنکھیں پتھرائی جیسے گھور رہی ہوں۔ مٹی کی بھوک مٹانے اسی میں مل گئی تھیں۔

انور پاشا کی یہ اقدامی کاروائی بدترین ناکامی کا شکار ہوئی تھی۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply