انسانی حقوق کا عالمی دن اور بلوچستان کے بچے۔۔شبیر رخشانی

انسانی حقوق کا عالمی دن ہمیشہ شہروں کی سطح پر منایا جاتا ہے اس دن کی مناسبت سے مختلف تقریبات کا انعقاد کرکے اس میں اکثر و بیشتر وہی چہرے، وہی بولیاں اور وہی قصے کہانیاں ہوتی ہیں جنہیں ماضی میں دیکھتے، سنتے اور دہراتے چلے آ رہے ہیں۔ منتظر نگاہیں جن کی راہیں تک رہی ہیں ہمیشہ سے نظرانداز ہوتی چلی آ رہی ہیں۔ وہی نگاہیں جن سے ان کے خواب چھینے جا چکے ہیں ان خوابوں کو دوبارہ پانے کی آس لگائے بیٹھی ہیں۔ انسانی حقوق کا عالمی دن امیدوں کا جھونکا بن کر آ تا ہے پھر  واپس چلا جاتا ہے اور ایک سال کا وقفہ مکمل کرکے دوبارہ خواب دکھانے آجاتا ہے۔

جب بھی اپنے آس پاس نگاہ  دوڑاتا ہوں تو جو خاکہ عود کر سامنے آتا ہے اس میں انسانی حقوق کا ذرا سا پہلو دیکھ نہیں پاتا ہوں۔ ہمیں باور کرایا جاتا ہے کہ ہم سب انسان ہیں اور انسان کو جن القابات سے نوازا جاتا ہے ان القابات کا مشاہدہ سب سے پہلے اپنے وجود میں جھانک کر کرنے کی کوشش کرتا ہوں مگر اُن اہداف تک رسائی حاصل نہیں کر پاتا،جو ایک انسان ہونے کے ناطے انسان کے لیے مقرر کیے جا چکے ہیں تو سوچنے لگتا ہوں کہ ان اہداف تک رسائی کا ذریعہ کیا ہوگا جن تک پہنچ کر ایک انسان ہونے کی  نوید اپنے آپ کو سُنا سکوں۔

گو کہ کہنے کو ہم انسان ہیں اس ٹیگ کا استعمال کرتے ہوئے آج انسانی حقوق کا عالمی دن منا رہے ہیں۔ اس دن کو مناتے ہوئے اپنے آپ کو انسانیت کے دائرے میں لا کر انسان بننے کی حتی الامکان کوشش کر رہے ہیں۔ ایک بند گاڑی کے اندر ہارن لگاتے ہوئے دوسروں پر گالیاں کستے اور اوور ٹیک کرتے ہوئے اس اسٹیج تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں جس پر انسانی حقوق کا پرچم لہرا رہا ہوتا ہے اور ایک لمبی تقریر کرکے اپنے آپ کو اطمینان دلانے کی کوشش کرتے ہیں کہ نہ صرف ہم انسانی حقوق کا فرض ادا کر چکے بلکہ دوسروں کو زبانی درس دے کر انسانیت کے کٹہرے میں لانے اور انہیں حقوق دلانے میں کامیاب ہوگئے مگر جو اذیت چند لمحے قبل ہم دوسروں کی جھولی اور سماعتوں کے حوالے کرکے آ گئے تھے وہ کیا تھی؟۔

انسانی حقوق کے عالمی دن کے موقع پر میں اپنی پوری گفتگو بلوچستان کے بچوں پر رکھ کر کرنا چاہتا ہوں اور یہ دن ان بچوں کے نام کرنا چاہتا ہوں جو تعلیم سے محروم ہیں۔ انہیں تعلیم سے محروم کس نے رکھا؟ یہ سوال ریاست کے سامنے ہے۔ شہرِ اقتدار اور دارالخلافہ کوئٹہ میں مقیم ان بچوں کے نام جو تمام تر تکلیف و دشواریوں   کے باوجود اپنی تعلیم جاری رکھے ہوئے ہیں۔ کیا انسانی حقوق کا عالمی دن ان بچوں کے    ساتھ رہ کر منانے کی کوئی جرات کر سکے گا؟ یہ سوال ہر سال تقریبات منعقد کرنے والوں اور لمبی لمبی تقریریں  کرنے  والوں کے سامنے رکھ رہا ہوں۔ انسانی حقوق کا عالمی دن ان بچوں کے نام کرنا چاہتا ہوں جو اسی دنیا کا حصہ ہوتے ہوئے بھی اس دنیا سے جڑ نہیں پا رہے ہیں۔ یہ وہی بچے ہیں جن کے سر سے ان کے والد کا سایہ چھینا جا چکا ہے نہ ان کے پاس کھانے کو کچھ ہے نہ ہی پہننے کو،  اور نہ ہی حصولِ تعلیم کا کوئی ذریعہ۔۔ کیا انہیں ان کے حقوق دلائے جا سکتے ہیں؟ ۔

ہمارے بچے سکولوں کے اندر کن کن مسائل کا شکار ہیں۔ انہیں ہم “بلوچستان ایجوکیشن سسٹم” مہم کے ذریعے اجاگر کرتے چلے آ رہے ہیں اور انسانی حقوق کے عالمی دن کے موقع پر ریاست اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے سامنے مسائل اور بنیادی حقوق کاایک  خاکہ  پیش کر رہے ہیں ۔۔

١۔ بچے کرسی اور ٹیبل کی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔
٢۔ بچے جھونپڑی یا ایک کمرے پر مشتمل سکول کے اندر پڑھنے پر مجبور ہیں،یہ  صورتحال انہیں ذہنی اذیت پہنچا رہی ہے۔
٣۔ بچے سکول، معاشرہ اور گھر کے ماحول سے بری طرح متاثر ہورہے ہیں ، ان اثرات سے نکلنے کے لیے ان کے پاس اور راہیں موجود نہیں۔

۴۔ بچے خوف کے ماحول میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں خوف کا یہ نظام استاد کی طرف سے، محکمہ تعلیم کے ذمہ داران و انتظامیہ کی طرف سے رائج کردہ ہے۔ خوف کے اس ماحول میں بچوں کے اعتماد کا گراف بھی گر چکا ہے بلکہ وہ سوالات کرنے سے کتراتے ہیں۔
۵۔ بچوں کے لیے نہ لوکل ٹرانسپورٹیشن کا انتظام ہے اور نہ ہی محکمہ تعلیم کی جانب سے ٹرانسپورٹیشن کا بندوبست بچے کئی کلومیٹر کا فاصلہ پیدل طے کرکے سکول جاتے ہیں۔

٦۔ نصابی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ غیر نصابی سرگرمیاں بہت ہی اہم ہوتی ہیں۔ مگر تعلیمی منصوبہ بندی میں غیرنصابی سرگرمیوں کا جزو سِرے سے موجود ہی نہیں ۔۔

٧۔ غریب، یتیم اور لاچار بچوں کے لیے وظیفے کا کوئی انتظام موجود نہیں ، بلکہ یونیفارم کی مد میں آنے والی رقم  بھی بچوں پر خرچ نہیں کی جاتی ۔
٨۔ سائنسی سرگرمیاں مفقود اور ، 90 فیصد ہائی سکول سائنسی اساتذہ سے محروم  ہیں ،سکولوں کے اندر سائنسی مضامین کا کوئی تصور نہیں درس و تدریس کا نظام فقط تھیوری تک محدود تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ان مسائل کو اجاگر کرنے کا بنیادی مقصد ہی یہی ہے کہ پالیسی ساز ادارے اور انسانی حقوق کی تنظیمیں ان بنیادی  مسائل  پر کام کریں ان پر صرف باتیں نہ ہوں بلکہ عملی اقدامات ہوں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply