یہی اصل مرگ انبوہ ہے۔۔۔مشرف عالم ذوقی

یہی مرگ انبوہ ہے ۔ جب زیادہ تر لوگ اس بات پر متفق نہیں تھے کہ اس ملک کے مسلمانوں کو مالک مکان کے درجے سے خارج کر کے کرایہ دار بنا دیا جائے گا ، میں چھ برس قبل اس منظر کو دیکھ رہا تھا ، اور اسی لیے جب شہری ترمیم بل پاس ہوا ، تو مجھے کوئی حیرت نہیں ہوئی ۔
مشرّف عالم ذوقی!

٢٠٠٢ میں گجرات حادثہ ہوا ۔ایک بڑی پلاننگ پر کام شروع ہوا ۔ ایک وزیر اعظم نے مسلمانوں کو کتے کا پِلا کہا ، ہم اس وقت بھی نہیں سمجھے کہ حکومت نے مسلمانوں کو ان کی اوقات سمجھانے کے لئے مہرے چلنے شروع کر دیے ہیں ۔ تین طلاق ، ہجومی تشدد ، اشتعال انگیز بیانات ، میڈیا کو مسلمانوں کے خلاف کھڑا کرنا ۔۔ ہم یہ سب دیکھ رہے تھے اور بابری مسجد میں الجھے ہوئے تھے ۔ کرایہ داروں کی  زمین   ہوتی ہے نہ مسجد ۔ اس طاقت کا اندازہ لگائیے کہ کسی مذہب کے خلاف کھل کر بولنا کیسا ہوتا ہے ؟ اس میں ہمت تھی ۔پارلیمنٹ میں سب کے سامنے جھوٹ بولنے کی ۔ جبکہ ابھی کوئی وقت نہیں تھا اس بل کو لانے کے لئے ، جب معیشت دم توڑ رہی ہو ، بھوک ہر دروازے پر دستک دے رہی ہو ، نوجوان روزگار کو لے کر بے حال ہوں ، کسان خود کشی کر رہے ہوں ، ایسے ماحول میں ملک کے معیار کو بلند کرنے کی جگہ نفرت کے ایسے بل کو سامنے لایا گیا ، جس نے ساری حدیں توڑ دیں ۔ یہ ہونا تھا یہ ہو گیا ۔ یہ پہلے بھی ہو رہا تھا ۔چھ برسوں سے ۔۔ وہ شخص ہر جگہ ، ہر اجلاس میں بھگوڑوں کو نکال باہر کرنے کی باتیں کرتا تھا اور ہماری ملی تنظیمیں ایسے اشتعال انگیز بیانات کے خلاف متحد نہیں ہو سکیں ۔ جناح جیتے ، ہٹلر جیتا ، یا بی جے پی جیتی سوال اس کا نہیں ۔ اب ماضی اور تاریخ کے حوالے بدل جائیں گے ۔سوچیے آگے کیا ہوگا ؟ مستقبل کا کیا ہوگا ۔۔؟اگر اب بھی نہیں سوچ رہے تو وہ گیس چیمبر زیادہ دور نہیں جس کی پیشن گوئی میں نے مرگ انبوہ میں کی ہے ۔ ان کے لیے یہ سوال ہے ہی نہیں کہ تیس کروڑ مسلمان کہاں جائیں گے ؟ وہ جہنم میں جائیں ، اس بات سے انھیں کوئی سروکار نہیں ۔ لیکن اس بات سے سروکار اب ضرور ہے کہ فلم ، میڈیا ، سپورٹس ، سرکاری نوکری ، ملک کے اہم منصب اور عہدوں پر مسلمان نہ ہوں ۔ مسلمانوں کی سماجی ، سیاسی حیثیت کو زیرو بنا دیا جائے ۔ ابھی وقت تاریخ کے مجرے دیکھنے کا نہیں ہے ۔ابھی وقت مولانا ابو الکلام آزاد جیسوں کو یاد کرنے کا نہیں ہے ۔ یہ حالات مختلف ہیں ۔ ہندوستان کو میانمار یا روہنگیا میں تبدیل کیا جا سکتا ہے ۔ آگے کچھ بھی ہو سکتا ہے ۔ اس لئے کہ لوک سبھا سے راجیہ سبھا تک انھیں روکنے والا کوئی نہیں ۔

چار دسمبر کو کچھ ہندی اخباروں کی سرخی تھی –مسلمان نا منظور ۔ دینک بھاسکر نے سرخی لگائی ،کتے کا پلا ، غیر مسلم منظور ۔۔ آزاد ہندوستان میں آج پہلا دن ہے ، جب مسلمان نا منظور کی سرخیاں اخباروں کی زینت بنی ہیں ۔ ہم ابھی بھی اس وہم میں مبتلا ہیں کہ این آر سی اور شہری ترمیم بل دو علیحدہ بل ہیں ۔ جبکہ اس ملک کی حقیقت یہ ہے کہ سی این جی اور نوٹ بندی کی شروعات بھی مسلمانوں کو ذہن میں رکھ کر کی گئی ۔ آپ مغالطے میں ہیں اگر اب بھی آپ کو احساس ہے کہ دوسرے درجے کے شہری ہو کر آپ کامیابی کی سیڑھیاں طے کر سکتے ہیں ، کوئی انقلاب لا سکتے ہیں، کوئی کرشمہ دکھا سکتے ہیں ۔ شہری ترمیم بل کو کسی راجیہ سبھا میں بھیجے جانے کی ضرورت نہیں۔ وہ اپنی طاقت ، اپنے منصوبوں ، اپنے ارادوں سے واقف ہیں اور اب کھلے طور پر انہوں نے اعلان کر دیا کہ ہندو راشٹر میں مسلمان دوئم درجے کے شہری ہیں ۔ اس کا احساس ٢٠١٤ میں ہو چکا تھا ۔لیکن یہ یقین نہیں تھا کہ کوئی بھی حکومت اس طرح کھلے عام مسلمانوں کو ملک سے باہر کا راستہ دکھا سکتی ہے ۔ کیا غیر مسلم جنہیں تلاش کر کر کے اس ملک میں جگہ دی جائے گی ،کیا وہ صرف ہندو ہوں گے ؟ کیا سکھ طبقہ اپنے مذہب کو قربان کر دے گا ؟ کیا بودھ اپنا مذھب بھول جائیں گے ؟ کیا جین مذہب کے پیروکار اپنے مذہب کی قربانی دینے کے لئے تیار ہیں ؟ بھاجپایی ایکٹر اور لیڈر روی کشن نے بیان دیا کہ ١٠٠ کروڑ ہندو آبادی والے ملک کو ہندو راشٹر ہی کہا جائے گا ۔ میڈیا تو پہلے دن  سے مسلمانوں کے خلاف ہے ۔ مودی خاموش ہیں وزیر داخلہ نے اب شطرنج کی نئی بساط پر وزیر کو اتار دیا ہے ،مہرے پٹ رہے ہیں ۔ اور مسلمان سیاسی تماشا دیکھنے کو مجبور — امبیڈکر کے آئین سے آہستہ آہستہ مساوات ، ملت ، برابری کے حقوق کا صفحہ غائب ہو جائے گا ۔ پھر ہماری مسجدیں ، ہمارے مدرسے سب ان کی تحویل میں ہوں گے ۔ فرض کیجیے ، ہم سڑکوں پر اُترتے ہیں ۔ سو کروڑ آبادی کے سامنے ہماری کوئی بساط نہیں ۔وہ چاہتے ہیں کہ مسلمان سڑکوں پر آئیں اور اکثریت کو اپنی مضبوطی کا شدید احساس ہو ۔ اس وقت معاشی اعتبار سے ملک کی موت ہو چکی ہے ۔ لیکن اکثریت میں جشن کا ماحول ہوگا کہ آخر مسلمانوں کو حقیر درجے تک پہنچا دیا گیا ۔ پھر عدالتیں رہ جاتی ہیں ۔ اب ملی تنظیموں کو اتحاد کا مظاہرہ کرتے ہوئے چاہیے کہ عدالت کا رخ کریں ۔ ہماری طاقت بچے گی تو ہماری شناخت بھی محفوظ ہوگی ۔ ہماری مسجدیں بھی — میں نے مرگ انبوہ میں لکھا کہ مسلمان گھر اور بیشمار مسلمان اچانک راتوں رات غائب ہو جاتے ہیں ۔ میرے ایک قاری نے سوال کیا ، ایسا کیسے ممکن ہے ؟ میرا جواب تھا ، شہری ترمیم بل اور این آر سی پر عمل ہونے دیجیے ۔

جرمن آج بھی مرگ انبوہ کو فراموش نہیں کر سکے ۔لاکھوں کی تعداد میں سیاح تاریخ کے المناک مناظر کی یاد تازہ کرنے آتے ہیں جبکہ جرمنوں کو مرگ انبوہ کا لفظ سننا بھی گوارا نہیں ۔ کل یہی ہوگا ۔ تاریخ یاد رکھے گی کہ پچیس کروڑ آبادی والی اقلیت کے ساتھ مرگ انبوہ کی ریہرسل کی گئی ۔ میں نے ناول مرگ انبوہ لکھتے ہوئے ان تمام حقیقتوں کو سامنے رکھا تھا ۔مجھے یقین تھا ، کہ اس کے بعد ہندو راشٹر اور این آر سی کا ہر سفر آسان ہو جائے گا ۔ ابھی صرف ریہرسل ہے ۔
ملک کا نوے فیصد میڈیا ہندو راشٹر کی بحالی کے لئے مسلمانوں کے خلاف ہے—

اس وقت ملک کے صفحہ پر مسلمانوں کے خون سے جو کہانی لکھی جا رہی ہے ۔اسے روکنا ہوگا ۔۔اشتعال انگیز بیانات اور روز روز ہونے والی ہلاکت کے قصّوں کو ختم کرنا ہوگا ۔لیکن کیا یہ آسان ہے ؟ –آپ ڈرینگے تو حکومت ڈرائیگی-آپ جس دن ڈرنا چھوڑ دینگے ،اس دن سے حکومت ڈرنے لگے گی —نفسیات کا یہ معمولی نکتہ ہے کہ ہر ہٹلر اندر سے کمزور ہوتا ہے ۔وہ مجمع میں دہاڑتا ہے ۔سچ بولنے والے ایک معمولی سے آدمی سے بھی وہ ڈر جاتا ہے۔

میڈیا ،ٹی وی چینلز اور حکومت نے مسلمانوں کو دوسرے بلکہ تیسرے درجے کی مخلوق گرداننا شروع کر دیا ہے ۔ایک ایسی مخلوق جسے بس اس سر زمین سے باہر نکالنا باقی رہ گیا ہے ۔آنکھیں بدل گئی ہیں ۔کچھ دن اسی طرح گزرے تو مسلمان اس ملک میں نمائش کی چیز بن کر رہ جائینگے ۔۔دیکھو ۔۔وہ جا رہا ہے مسلمان ۔۔یہ ہونے جا رہا ہے ۔سوالات کے رخ خطرناک طور پر مسلمانوں کے لئے مایوسی کی فضا تیار کر رہے ہیں ۔۔۔ہندوستان کی مقدّس سر زمین نفرت کی متحمل نہیں ہو سکتی ۔۔اور ۔مشن اپنے نظریہ میں تبدیلی لائے ،یہ ممکن نہیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

سوال بہت سے ہیں ۔ہندوستان کے چوراہوں اوردیواروں پر صرف یہ عبارت لکھی جانی باقی ہے کہ ہندو راشٹر میں آپ کا سواگت ہے۔مسلمانوں اور دلتوں کا قتل ، ہر روز نئے مظالم ، صرف میڈیا کی آنکھ بند ہے ۔اس لئے کہ مکمل میڈیا خریدا جا چکا ہے ۔حکومت ہر شعبہ کو خرید چکی ہے ۔انصاف کی عمارت پر بھی زعفرانی پرچم چند دہشت گرد لہرا چکے ہیں ۔۔
۲۰۰۲ تک ہندستانی سماج اس مقام تک نہیں پہنچا تھا، جہاں وہ اب پہنچتا نظر آرہا ہے۔ اور اب شہری ترمیم بل نے ہندو راشٹر کے سفر کو آسان بنا دیا ۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے امبیڈکر کا آئین غائب ہو جائے گا ۔۔ یہی تو مرگ انبوہ ہے ۔۔میں نے مرگ انبوہ میں ہندوستان کے مستقبل کو دیکھا ہے ۔۔

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply