• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • آرمی چیف کا ایکسٹینشن نوٹیفکیشن معطل ، یعنی معاملات اتنے بھی سادہ نہیں ہیں۔۔غیور شاہ ترمذی

آرمی چیف کا ایکسٹینشن نوٹیفکیشن معطل ، یعنی معاملات اتنے بھی سادہ نہیں ہیں۔۔غیور شاہ ترمذی

چیف جسٹس پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ نے چیف آف آرمی سٹاف کی ایکسٹینشن کے خلاف ریاض حنیف راہی کی طرف سے سادہ کاغذ پر ہاتھ سے لکھی ایک درخواست کو واپس لینے کی التجاء کو مسترد کرتے ہوئے اسے اپنے دور کا پہلا “از خود نوٹس” قرار دے دیا جس کے بعد ان سمیت سپریم کورٹ کے 3 معزز ججوں نے 29 نومبر بروز جمعہ سے شروع ہونے والی چیف آف آرمی سٹاف کی اگلے 3 سال کے لئے ایکسٹینشن کو معطل کر دیا کیونکہ اس نوٹیفیکیشن کے اجراء کا حکومتی طریقہ کار درست نہیں تھا- اس موقع پر پاکستان کی سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے جنرل قمر جاوید باجوہ سمیت دیگر فریقین کو نوٹس جاری کر دیئے ہیں- سپریم کورٹ کے تحریری حکم نامے کے مطابق عدالت کو بتایا گیا کہ علاقائی سکیورٹی کی صورتحال کے پیش نظر آرمی چیف کو توسیع دی جا رہی ہے لیکن ایسی توسیع کے لئے خطے کی سکیورٹی کی صورتحال کی اصطلاح مبہم ہے۔سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ علاقائی سکیورٹی سے نمٹنا فوج کا بطور ادارہ کام ہے، کسی ایک افسر کا نہیں اور ‘علاقائی سکیورٹی کی وجہ مان لیں تو فوج کا ہر افسر دوبارہ تعیناتی چاہے گا’۔ عدالتِ عظمیٰ کا یہ بھی کہنا ہے کہ اٹارنی جنرل مدت ملازمت میں توسیع یا نئی تعیناتی کا قانونی جواز فراہم نہیں کر سکے۔ عدالت کے مطابق فوجی قوانین کے تحت صرف ریٹائرمنٹ کو عارضی طور پر معطل کیا جا سکتا ہے اور ریٹائرمنٹ سے پہلے ریٹائرمنٹ معطل کرنا گاڑی کو گھوڑے کے آگے باندھنے والی بات ہے- عدالت کا یہ بھی کہنا ہے کہ اٹارنی جنرل نے قانون کی کوئی ایسی شق نہیں بتائی جس میں چیف آف آرمی سٹاف کی مدت ملازمت میں توسیع اور دوبارہ تعیناتی کی اجازت ہو۔

جسٹس آصف کھوسہ
جنرل باجوہ

آرمی چیف کی توسیع کے کیس کا فیصلہ کچھ بھی ہو کم از کم ہماری اسٹیبلشمنٹ پر یہ تو اچھی طرح واضح ہو گیا ہوگا کہ اس نے نالائقوں اور نااہلوں کے جس ٹولے کو پاکستان کے اقتدار پر مسلط کیا ہے وہ تو آرمی چیف کی ایکسٹینشن کا معاملہ بھی ڈھنگ سے حل نہیں کر پایا۔ پہلے وزیراعظم نے یہ نوٹیفکیشن جاری کیا۔ پھر پتہ چلا کہ یہ تو صدر مملکت کا کام ہے تو صدر سے نوٹیفکیشن جاری کروا دیا- پھر پتہ چلا کہ کابینہ کی ایڈوائس کے بغیر صدر یہ کام کر ہی نہیں سکتا تو صدارتی نوٹیفکیشن کو ہی کابینہ کے گیارہ وزیروں سے سائن کروا لیا اور آج سپریم کورٹ کے نوٹس لینے کے بعد انہیں پتہ چلا کہ کابینہ کی منظوری کے بعد دوبارہ یہ نوٹیفکیشن صدر نے جاری کرنا تھا۔ مزید سر پیٹنے کی بات یہ کہ 12 ستمبر کو محترمہ عاصمہ شیرازی کے ساتھ انٹرویو میں صدر مملکت نے فرمایا تھا کہ نوٹیفکیشن ابھی ان تک پہنچا ہی نہیں کہ وہ سائن کریں جبکہ نوٹیفکیشن پر 19 اگست کی تاریخ درج ہے- اپوزیشن راہنماؤں کا کہنا ہے کہ جو حکومت اپنے سرپرست اعلیٰ کی توسیع کا سادہ سا نوٹیفکیشن جاری کرنے میں ناکام رہے اس سے ملک کی کایا پلٹنے کی توقع رکھنے والے تمام احمقوں کو 21 توپوں کی سلامی-

Advertisements
julia rana solicitors london

کچھ دنوں سے تجزیہ نگاروں کے ایک دھڑے نے ان خدشات کا اظہار کیا تھا کہ جنرل باجوہ کے ایکسٹینشن لینے کے فیصلے پر کچھ قوتیں خوش نہیں ہیں- اب یہ واضح ہوتا جا رہا ہے کہ اقتدار کی درون گردشوں میں معاملات اتنے بھی سادہ نہیں جتنے حکومتی وزراء اور ترجمانوں کی فوج ظفر موج ظاہر کرنے کی کوشش کر رہی ہے- ان تجزیہ نگاروں کے مطابق دراصل باجوہ و عمران پارٹنر شپ سے اب اسٹیبلشمنٹ کے باقی فریق خوش نہیں ہیں- انہیں شکایت ہے کہ جنرل باجوہ اور عمران خان اکیلے بیٹھ کر سارے فیصلے کر لیتے ہیں جبکہ بعد میں باقی اسٹیک ہولڈرز کو ان فیصلوں کے بارے بتایا جاتا ہے۔ حکومتی بدترین کارکردگی ڈھکی چھپی نہیں اور اس کارکردگی کا بوجھ اس حکومت کو لانے والے بھی محسوس کرتے ہیں اور اس پر انھیں بھی شرمندگی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔شکایت کرنےوالوں کا کہنا ہے کہ وفاقی کابینہ میں تبدیلی ہو, ، آئی ایم ایف، کشمیر و سی پیک ہو یا فوجیوں کو اہم نوکریاں دینا ہو، بس دو افراد بیٹھ کر فیصلہ کر لیتے ہیں۔ دوسری طرف وزیر اعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ سب کی بجائے صرف جنرل باجوہ کا ان کے ساتھ ایک پیج پر ہونا ہی کافی ہے۔اسٹیبلشمنٹ کے ان 2 طاقتور دھڑوں کے درمیان اب کھلی جنگ چھڑ چکی ہے اور جب تک ایک حریف ہار نہیں مانتا, واقعات کا سلسلہ رکنے والا نہیں۔

تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ جنرل باجوہ اسٹیبلشمنٹ کے دھڑوں میں عمران خاں کی غیر مشروط حمایت کی وجہ سے تنہا ہو چکے ہیں- انہیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ صرف عمران خان ان کی طاقت نہیں بن سکتا- انہیں غور سے سمجھنا چاہئے کہ ان کے گرد گھیرا دن بدن تنگ کیا جا رہا ہے۔ جنرل باجوہ اور عمران خاں مخالف اسٹیبلشمنٹ گروپ بھی بہت منظم اور طاقتور لگ رہا ہے- تمام فریق اسی کے پیج پر نظر آ رہے ہیں- عدالتیں، فوج میں ایکسٹینشن مخالف گروہ، نیب، اپوزیشن، حکومتی اتحادی وغیرہ وغیرہ-
وزیرِ قانون فروغ نسیم

کل عدالت میں خوب تماشا لگ سکتا ہے- ظاہر ہے کہ صدر کو ایکسٹینشن کی منظوری کے لئے وزیراعظم اور کابینہ کی طرف سے جو سمری بھیجی گئی ہو گی اس میں ایکسٹینشن کی وجوہات درج ہوں گی- ان وجوہات کو لے کر عدالت سارے فریقین سے خوب سوالات کرے گی- عدالت ایکسٹینشن کی وجوہات سے عدم اتفاق کرتے ہوئے اسے کالعدم بھی قرار دے سکتی ہے- اسی لئے سپریم کورٹ نے حکومت سے لے کر آرمی چیف تک کو فریق بنایا ہے۔ یاد رہے کہ آئین کی تمام شقوں کی حتمی تشریح کا اختیار سپریم کورٹ کو حاصل ہے- یقیناً آج بہت گھمسان کا میدان لگنے کی امید ہے۔ وزیر قانون اپنی وزارت سے استعفی دے کر چیف آف آرمی سٹاف کے وکیل کی حیثیت سے کیس لڑنے خود آ رہے ہیں اور یہ دیکھنا خوب رہے گا کہ وہ اپنے مؤکل کا دفاع کیسے کرتے ہیں-

فی الحال تو ایک ایشو یہ بھی بنا ہوا ہے کہ فروغ نسیم کا لائیسنس بار کونسل نے معطل یا منسوخ کیا ہوا ہے- وہ آرمی چیف کی طرف سے عدالت میں کیسے پیش ہوں گے, یہ بھی تو ایک سوالیہ نشان ہے-
اس معاملہ کو ایک انتظامی اور طریقہ کار کی غلطی سمجھنے کی بجائے ایک سوچی سمجھی موو قرار دینے والے معروف لکھاری اور پولیٹیکل سائینس کے استاد ظفر فیاض کہتے ہیں کہ “مطلب آپ کو یہ لگتا ہے کہ صبح عدالت ہر گز یہ نہیں پوچھے گی کہ جس نوٹیفیکیشن کو معطل کر دیا گیا اور جو معاملہ عدالت میں زیر بحث تھا, اس پر سابقہ فیصلوں اور ڈائریکشن کے برخلاف نہ صرف کابینہ نے بحث کی بلکہ نوٹیفیکیشن بھی نکال دیا تو کیوں نا پوری کابینہ یا وزیر اعظم کو توہین عدالت میں طلب کر لیا جائے؟- اچھا چلیے یعنی آپ یہ سمجھتے ہیں کہ جن قوتوں نے جسٹس کھوسہ کی پوزیشن کو مستحکم کیا وہ اتنے بودی، کمزور اور لاغر ہیں کہ صرف ایک نئے نوٹیفیکیشن سے ہوا میں تخلیل ہو جائیں گی؟- یا آپ سمجھتے ہیں کہ جسٹس کھوسہ نے یہ سب اس لئے کیا تاکہ اگلے ہی دن سوری, سوری کہہ کر اسے واپس کر لیں؟- اور ریٹائرمنٹ سے صرف کچھ ہفتے پہلے ہوا میں اُڑتا تیر پکڑیں اور ۔۔۔ کیا آپ کا دل یہ مانتا ہے کہ ریٹائرمنٹ سے صرف ایک دن پہلے سوموٹو جیسا نایاب اور نادر آئیڈیا سوچنے والے اتنے ہی بیوقوف ہیں جتنا آپ چاہتے ہیں کہ وہ ہوں اور وہ آپ کی خواہش پر ہو بھی جائیں گے”؟-
ثاقب نثار

جب آصف علی زرداری کی پیپلزپارٹی کو اقتدار ملا تو جہیز میں افتخار چوہدری بھی مل گیا۔ ایک تو پہلے ہی پیپلز پارٹی کا دامن گورننس کے اعتبار سے کافی تنگ تھا تو اُوپر سے جہیز میں اتنا سامان۔ آئے روز افتخار چوہدری اپنے چہیتے ایک, دو صحافیوں اور دیگر میڈیائی مجاہدوں کی کچی پکی سٹوریوں پر سوموٹو لینے لگا۔ حکومت ویسے نہیں چل رہی تھی اور افتخار چوہدری کا بھوت الگ سے۔ ۔ ۔ اُس زمانے میں نواز شریف ایک نستعلیق سامع کی حیثیت سے ہر سوموٹو پر واہ واہ کے ڈونگڑے برساتے رہے- زرداری صاحب کے 5 سال پورے ہوئے اور 50 ایک مقدمات بھی- اب باری تھی نواز شریف کی۔ ثاقب نثار نے پوری طرح کاربن چھوڑنے والے کوئلے دُھا کر رکھے اور سانس نہیں لینے دیا۔ آخری وقتوں میں عدالت کے سوموٹو اختیار سمیت نیب اور کچھ دیگر اداروں کی پاورز کو کلپ کرنے کی بات چلی مگر دونوں جماعتیں ایک دوسرے سے تعاون پر تیار نہیں تھیں۔ عمران خان نے ان 8/10 سالوں میں رج کے داد کی۔ سُر ٹھیک لگے نا لگے مگر وہ ہر جج کی ایگزیکٹیو کے اختیار میں مداخلت پر ڈونگرے برسانے شروع کر دیتے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اب دو ایک دن سے انہیں بھی عین اُسی جگہ تکلیف کی شکایت ہے جہاں دو بڑی سیاسی جماعتوں کو اپنے اپنے دور اقتدار میں پرابلم تھی۔ جس طرح پیپلز پارٹی کی نواز شریف اور پھر نواز شریف کی پیپلز پارٹی نےمدد نہیں کی، بالکل اسی طرح اب یہ دونوں عمران خان کی مدد نہیں کریں گے۔

راقم سمیت کسی کو بھی اس معاملے کے اخلاقی پہلو میں چنداں دلچسپی نہیں ہونی چاہئے مگر یہ بات قابل غور ہے کہ صحیح معنوں میں اصلی سٹرکچرل چینج (نظام کی تبدیلی) کی ہمیں اشد ضرورت ہے۔ ہمارے ریاستی ادارے اور ان کے کام کرنے کے طریقے میں اتنے زیادہ نقائص ہیں جن کے ہوتے جمہوری عمل کا سموتھ (smooth) انداز سے ورکنگ کرنا ممکن نہیں۔ یہ بڑی بات ہے کہ اس کے باوجود آئینی اور اقتصادی حوالے سے پیپلز پارٹی اور نون لیگ دونوں نے بہت بھرپور کامیابیاں ڈلیور کیں مگر تئیس چوبیس کروڑ کی آبادی میں کچھ بھی کر لیں وہ اونٹ کے منہ میں چارے جیسا ہی نظر آئے گا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply