جب راج کرے گی خلق خدا۔۔۔کامریڈ فاروق بلوچ

ہم اپنے نظامِ شمسی میں دور دور تک پہنچ رہے ہیں، ہم نے خود کار کاریں تیار کر لی ہیں، اور ساتھ ہی ابھی تک ہم اپنے روزمرہ کے مسائل حل کرنے میں بے اختیار ہیں۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقیاں دنیا کو حیرت زدہ اور مبہوت کر رہی ہیں، مگر اُس کے باوجود لاکھوں لوگ بےگھر اور بےچھت ہیں، مگر اُس کے باوجود اِس عہد کے نوجوان بےروزگار ہیں۔ یہ مسئلہ صرف وسائل کی کمی کے شکار ایک پسماندہ ملک کو درپیش نہیں ہے۔ ساؤ پالو، قاہرہ، گلاسگو، نیو کیسل اور لندن کی آبادیاں بھی اِس “زندہ” بحران کا شکار ہیں۔

دوسری جانب امریکی ڈونلڈٹرمپ جیسے ارب کھرب پتیوں کا ایک طبقہ ہے جن کے پاس لگژری کاروں کے سکواڈ ہیں، لگژری اپارٹمنٹ ہیں، لاکھوں ڈالر کے فن پاروں کی گیلریاں ہیں، ملٹی ملین کی بحری کشتیاں اور بیڑے ہیں، وہ دنیا بھر میں اپنے نجی طیاروں میں گھومتے ہیں اور اُنکے پاس نوکروں چاکروں کی فوج ظفر موج ہے جو دن رات اُن کی آؤبھگت کر رہی ہے۔ چند ہاتھوں میں بہت زیادہ مال و دولت اور طاقت کا ارتکاز صحیح معنوں میں جان لیوا بن گیا ہے۔ محض 85 ارب پتیوں کی دولت زمین پر رہنے والے لوگوں کی اکثریت کی مشترکہ دولت سے زیادہ ہے۔

امیروں کے خصوصی خورد و نوش والے خصوصی ریستورانوں میں کام کرنے والے محنت کش اور دیگر اداروں کے محنت کش اِس لیے خالی پیٹ رہتے ہیں تاکہ اُنکے بچے سکول جا سکیں۔ آج عام لوگ کی اکثریت جن کو “خوش قسمتی” سے کوئی روزگار مل جاتا ہے وہ اپنی سانسوں کی ڈوری کو بحال رکھنے کی جدوجہد میں کئی گھنٹوں پہ محیط اعصاب شکن ملازمت کرنے پہ مجبور ہیں۔ تپ دق اور سوکھ پن جیسی بیماریاں جن کا علاج بہت آسان اور ممکن ہے، اکیسویں صدی میں بھی ایک بار پھر انسانوں کی بستی میں لوٹ چکی ہیں۔

موجودہ عہد کی معیشت جان بوجھ کر اٹھائی اور گرائی جاتی ہے، فیکٹریوں کو غیر معینہ مدت کے لئے جان بوجھ کر بند کر دیا جاتا ہے اور مزدوروں کو کہا جاتا ہے کہ “ہمیں آپ کی طلب نہیں ہے”۔ بیکار و بدحال و بےروزگار محنت کش اُن فیکٹریوں کو تکتے رہتے ہیں، ابھی کُھلی کہ کل۔ اداروں کے ملازمین کو فارغ کر دیا جاتا ہے، فارمز اور سٹوروں سے کام کرنے والوں کو نکال باہر کیا جاتا ہے، ملٹی نیشنل کمپنیوں اور بینکوں کے تنخواہ داروں کو ایک شام اچانک کہا جاتا ہے کہ کل سے آپ کام پہ مت آئیے گا۔ اِس طرح ضرورت مند اور بیکار محنت کش مالکوں کی شرائط پہ کم اجرت کیساتھ میسر آتے ہیں۔ عوام کو اشیاء کی ضرورت ہے، اشیاء دستیاب ہیں، مگر خریدنے کی سکت و استطاعت نہیں ہے۔ اِس سارے معاملے میں انسانیت اور عقلیت کہاں ہے؟

سرمایہ داری کے لبرل عذر خواہ ہمیں یہ بتانے کی کوشش میں ہیں کہ یہ تخلیقی مجبوری ہے۔ محنت کشوں کو درختوں کے بیکار پتے کی مانند اُٹھا کر پھینک دینا سرمایہ داروں کے لیے عام سی بات ہے، اُن کے مطابق یہ منڈی کا کاروبار یوں ہی چلتا ہے، اِس کا کوئی اور حل نہیں ہے۔ یہ ایسے ہی چلتا رہا تھا، ایسے ہی چل رہا ہے اور ایسے ہی چلے گا۔ یہی انسانی فطرت ہے، یہی کاروبار کی فطرت ہے اور یہی منڈی کا رجحان ہے۔

ایک طرف بڑی بڑی رہائشی کالونیاں اور بڑی بڑی رہائشی عمارتیں خالی پڑی ہیں، جبکہ دوسری جانب لاکھوں لوگ جھونپڑیوں میں اور سڑکوں پر سسک رہے ہیں۔ لبرلزم کی آزاد منڈی کی نظر میں یہ “انسانی فطرت” ہے۔ آج اکیسویں صدی میں لاکھوں مرد، خواتین، بچے اور بوڑھے بھوکے ہیں، خالی پیٹ ہیں، جبکہ دوسری جانب کسانوں کو پیسے دئیے جاتے ہیں کہ زمینوں کو خالی رکھو۔ لاکھوں ٹن خوراک ضائع کر دی جاتی ہے۔ لیکن لبرل ازم کے عذر خواہ ہمیں بتاتے ہیں کہ یہ سب “انسانی فطرت” ہے۔ ادویات کے انبار لگے ہوئے ہیں، سٹور اور وئیر ہاؤس فرش سے لیکر چھت تک بھرے پڑے ہیں، دوسری جانب لوگ ایڑیاں رگڑ رگڑ کے قابل علاج بیماریوں کے سبب مر رہے ہیں کیونکہ اُن کے پاس علاج خریدنے کے پیسے نہیں ہیں۔ کیا ہم اِن کی بات مان لیں کہ یہ سب “انسانی فطرت” ہے؟

آج کی ترقی یافتہ صدی میں انسان اپنے عہد اور اپنی حیات کو ایسے منظم اور منصوبہ بند کیوں نہیں بنا سکتے کہ چند ایک لوگوں کو نوازنے کی بجائے تمام انسانیت کو سکھ میسر آجائے؟ اِس مسئلے سے نمٹنے کے لئے درکار تمام مہارت کے حامل کئی لوگ کافی تعداد میں ہمارے ارد گرد موجود ہیں۔ آج انسان پلوٹو اور اس سے بھی آگے راکٹ بھیجنے اور اِس سے بھی زیادہ بہت حیران کن کام کر سکتے ہیں۔ لیکن آخر کیا وجہ ہے کہ خوراک، لباس، رہائش اور ادویات دستیاب ہونے کے باوجود لاکھوں کروڑوں لوگ اِن ضروریات کو پورا کرنے سے قاصر ہیں یا پھر بہت تنگ و خوار ہیں؟
کیوں؟ آخر کیوں؟ ذرا غور کریں۔

نجی زمیندار، سرمایہ دار اور عمارت ساز کمپنیاں چونکہ تاجر ہیں، جب تک وہ ایک بڑا اور موٹا منافع نہیں دیکھتے، وہ محض انسانوں کی رہائشی ضرورت کی خاطر گھر تعمیر نہیں کریں گے۔ آزاد منڈی کے یہ سرمایہ دار صرف پیسہ بنانے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ اگر سرمایہ داروں کے لیے منافع نہیں تو سڑکوں پر سسکتے انسانوں کے لیے گھر بھی نہیں۔ بلکہ جتنے زیادہ دکھ ہونگے، اتنا زیادہ اِن ہوس زدہ سرمایہ داروں کا منافع بڑھے گا۔ اگر آپ کا خیال ہے کہ سرمایہ دار طبقے کے لبرل عذر خواہ میری اِن باتوں کو ہر ممکن طریقوں سے جھٹلانے کی کوشش نہیں کریں گے تو آپ خیالی دنیا میں رہتے ہیں۔
سرمایہ دار جو تقریباً سبھی کچھ کے مالک ہیں، اُنکا صرف ایک مقصد حیات ہے، یعنی دولت کمانا۔ ذاتی بنیادوں پر تو یہ لوگ کچھ کرتے ہی نہیں ہیں۔ اِن لوگوں نے اکاؤنٹنٹ اور منیجر رکھے ہوئے ہیں۔ اگر کہیں یہ سرمایہ دار کوئی محنت اور کام کریں گے تو بھی وہ کچھ سماج دوست کام نہیں ہوتا، مطمع نظر وہی دولت کی ہوس۔ یہ سرمایہ دار دوسروں کی شدید محنت کی پیداوار سے دولت کماتے ہیں۔ دوسروں کی محنت کا کھاتے، پیتے اور پہنتے ہیں۔ دوسروں کی شدید محنت سے بنے گھروں میں رہتے ہیں۔ جبکہ بدلے میں دیتے کچھ بھی نہیں۔

کہا جاتا ہے کہ یہ سرمایہ دار جب سرمایہ کاری کرتے ہیں تو اس طرح کئی لوگوں کو روزگار میسر آتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ورکرز کو دیا کیا جاتا ہے؟ اگلی تنخواہ تک بمشکل زندہ رہنے کی قلیل تنخواہ اور بدلے میں ورکرز سے لیا کیا جاتا ہے؟ اربوں کھربوں کا منافع۔۔ کیا یہ سرمایہ دار عوام اور ورکرز کی محبت میں سرمایہ کاری کرتے ہیں، یا پھر بھاری اور لامحدود منافع کی لالچ میں؟ یوں مزدوروں، ملازموں اور محنت کشوں کی محنت کا استحصال کر کے سرمایہ دار لامحدود منافع کماتے ہیں۔ موجودہ سرمایہ دارانہ استحصال قرون وسطی کے غلاموں کے استحصال جیسا صاف شفاف نہیں ہے جہاں زرعی غلام جاگیرداروں کی زمین پر مفت کے لئے کام کرنے پر مجبور تھے، لیکن حقیقت میں یہ دونوں استحصال ایک ہی سکے کے دو رُخ ہیں۔ سرمایہ دار کسی بھی شرط پہ کم اجرت کے بدلے ورکروں سے بیش بہا کام لیتے ہیں۔

گزشتہ صدیوں میں سرمایہ داروں نے سائنس و ٹیکنالوجی کی مدد سے پیداوار کے انبار لگائے اور دولت کمائی، مگر آج کے سرمایہ دار پیداوار کے جھنجھٹ اور پریشانی کے بغیر پیسے بنانا چاہتے ہیں۔ آپ سنڈے ٹائمز رِچ لسٹ پر نظر ڈالیں تو آپ کو سب سے امیر لوگ وہ نظر آئیں گے جن کی دولت کا انحصار خاندانی وراثت، انشورنس، بینکنگ اور مالیاتی خدمات پہ ہے۔ کچھ سرمایہ دار تو کرنسی نوٹ اور بانڈز کی خرید و فروخت سے لامحدود منافع کما رہے ہیں۔ لامحدود اور کبھی نہ ختم ہونے والی لالچ کے سبب یہ کچھ بھی داؤ پہ لگا سکتے ہیں۔ انسانیت نام کی کوئی چیز اِس طبقے میں موجود نہیں ہے، یہ اپنے منافع کیلئے اپنی ماں کو بھی بیچ دیتے ہیں۔ کیا یہ لوگ اپنے منافع کیلئے لاکھوں لوگوں کو جنگ کا ایندھن نہیں بنا رہے؟ یہ سرمایہ دار اپنے مخصوص طریقوں اور سیاسی مہروں کو استعمال کرتے ہوئے اربوں ڈالر کے ہتھیار استعمال کرواتے ہیں۔

ایسے سرمایہ دار بھی ہیں جو مختلف اداروں کو اپنی شرائط پر قرض دیتے ہیں جسکا سود بھی واپس کرنا تقریباً ناممکن ہوتا ہے۔ لوگ اِن سرمایہ داروں سے قرض لیکر فیکٹریاں لگاتے اور کھڑی کرتے ہیں۔ سرمایہ دار وقت آنے پر اپنی سخت شرائط اور سود کی عدم ادائیگی کی بنیاد پہ وہ فیکٹریاں اور ادارے اونے پونے خرید لیتے ہیں۔ دنیا کے امیر ترین فرد “وارن بفٹ” کی مثال دیکھ لیں۔ اِسی طرح بڑی بڑی اور مصروف ترین شاہراہوں پہ بنے “ٹول ٹیکس پلازوں” کے ٹھیکیداروں کی مثال دیکھ لیں۔ ایسے سرمایہ دار نہ کچھ پیدا کر رہے ہیں اور نہ ہی کوئی محنت مشقت کرتے ہیں، مگر “ریاستی قانون” کی مدد سے اربوں کماتے ہیں۔ بینکوں کے نظام میں سرمایہ کاری کرنے والوں کی مثال دیکھ لیں یا سٹاک ایکسچینج کے “اَن داتا” سرمایہ داروں کی خباثت کی مثال لے لیں۔ یہ سب ایک سے ہیں، یہ خون چوسنے والے ڈریکولا ہیں جو اپنے اپنے طریقے سے پیسہ بنانے کے چکر میں ہیں۔ کسی سیانے نے کیا خوب کہا ہے کہ “یہ دور دوسرے کی دولت کو اپنی دولت بنانے کا عہد ہے”۔

یہاں ایک اور منظر بھی پیشِ خدمت ہے۔ یہ اپنی دولت کو مکمل طور پر خرچ کرنے سے قاصر ہیں۔ کیونکہ عیش و عشرت کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ یہ سرمایہ دار زیادہ سے زیادہ کتنی گاڑیوں کی ڈرائیونگ کر سکتے ہیں یا بیک وقت کتنے بنگلوں میں رہائش رکھ سکتے ہیں۔ یہ لوگ پاگل ہو چکے ہیں۔ جنگلیوں جیسی شتر بے مہار خواہشات کی تکمیل کے بعد بھی اِنکی دولت بیکار پڑی رہتی ہے۔ یا دوسرے چھوٹے کاروباریوں کے استحصال پہ خرچ ہوتی ہے۔ اعلی ترین عہدوں کے حصول پہ خرچ ہوتی ہے۔ پھر بھی اُنکی دولت کا بیشتر حصہ بیکار پڑا رہتا ہے۔

ہمیں بتایا گیا ہے کہ “محنت کرو اور ایک دن تم بھی امیر ہو جائے گے”۔ اِس فارمولے پہ عمل کرتے ہوئے چند محنت کش افراد غربت کی چَکی سے نکل آتے ہیں۔ لیکن سرمایہ دارانہ نظام میں ایک محنت کش صرف محنت کش رہتا ہے۔ محنت اور مشقت مزدوروں کی حالت کو بہتر بنانے کی بجائے اُنکے مالکان کو مزید امیر بناتی ہے۔ ثبوت کے طور پر آج قومی آمدنی میں مزدوروں کے حصے میں مسلسل کمی دیکھی جا سکتی ہے اور سرمایہ داروں کے حصے میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔

اِسی طرح آکسفورڈ مارٹن سکول کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں پچاس فیصد ملازمین کی ملازمتیں بڑے خطرے (HIGH RISK) کا شکار ہیں۔ جی بالکل درست پڑھا ہے، پچاس فیصد۔۔۔۔
ہمیں بتایا جا رہا ہے کہ یہ سب کچھ روبوٹ کی آمد کے سبب ہو رہا ہے۔ انسانی محنت کشوں کی جگہ مشینری اور روبوٹ کام کر رہے ہیں اس لیے انسانوں کو ملازمت سے برطرف کیا جا رہا ہے۔ کیا یہ ایک المیہ نہیں ہے؟ روبوٹس کی ایجاد اور ترقی سے انسان کو سہولت ملنی چاہئے تھی مگر کیپٹلزم کے تحت یہ ایجاد و ترقی وبال بن رہی ہے۔ یعنی لبرل ازم کے پاس انسان کی قسمت میں ساری زندگی مشقت کی چَکی میں پِستے رہنے یا بےروزگار ہو کر سسکتے رہنے کے سوا اور کوئی آپشن ہی موجود نہیں ہے۔ کیا بےبسی ہے؟ اور کیا ناکامی ہے؟

بھیانک صورتحال کے بھیانک نتائج ہوتے ہیں۔ ایک طرف لوگ بےروزگار، بیکار اور قوتِ خرید سے محروم ہیں، دوسری طرف زائد پیداوار کے انبار لگ رہے ہیں۔ یہ عالمی بحران کا پیش خیمہ ہے۔ جب لوگ بےروزگار ہونگے اور کچھ خریدنے کے قابل نہیں ہونگے تو مال کون خریدے گا، مارکیٹ مندی کا شکار ہو گی۔ 2008ء سے بھی بڑا اور بھیانک بحران سر اُٹھائے گا۔
اِس بھیانک اور خطرناک صورتحال سے نکلنے کا واحد حل یہ ہے کہ فوراً سے پہلے ذرائع پیداوار کو قومیا لیا جائے۔ خاص طور پر عظیم الشان سب سے بڑے 150 ملٹی نیشنل ادارے بلامعاوضہ چھین لیے جائیں۔ منصوبہ بندی کے ساتھ پیداوار کی جائے اور اُس پیداوار کی قیمت دو چار مالکان کی جیبوں کی بجائے سماج پہ خرچ کی جائے۔ اگر ہم ایسا کر لیتے ہیں تو ہم سکولوں کالجوں اور یونیورسٹیوں پہ خرچ کریں گے۔ جدید ترین، آرام دہ اور خوبصورت ترین رہائشی منصوبے شروع کر سکتے ہیں۔ جدید ریاستی زرائع نقل و حمل پہ خرچ کر سکتے ہیں۔ مناسب ترین پالیسیوں کی مدد سے ماحولیاتی آلودگی کا خاتمہ کرتے ہوئے عوام کو بیماریوں سے محفوظ رکھ سکتے ہیں۔ یکسر مفت ہسپتالوں اور ادویات پہ خرچ کر سکتے ہیں۔ ایک منصوبہ بند معیشت ہی محنت کشوں کے کام کے اوقات کو مختصر بنا سکتی ہے اور ریٹائرمنٹ کی عمر بھی گھٹا سکتی ہے۔

ہمیں کہا جاتا ہے کہ یہ ایک ناقابل عمل اور بیوقوفانہ آئیڈیا ہے۔ مزدور کیسے سماج کو بہتر بنا سکتے ہیں۔ محنت کش سماج کو اور ذرائع پیداوار کو کیسے چلا سکتے ہیں۔ یہ مزدوروں کیلئے ممکن ہی نہیں۔ میرا سوال ہے کہ آخر کیوں ممکن نہیں۔ ہاں سرمایہ دارانہ نظام میں مزدور اِس قابل بالکل بھی نہیں کہ وہ سماج کی نشو و نما کر سکیں۔ لیکن سوشلزم میں یہ عین سچ ہے کہ محنت کش ہی سماج کی قیادت کرتے ہیں۔ ہمارے اردگرد سارے کام تو محنت کش ہی تو کر رہے ہیں۔ محنت کش کارکنان ہی بالکل درست بتائیں گے کہ اُن کے اپنے کام کی جگہ کو کس طرح چلا سکتے ہیں۔ وہ موجودہ مالکان کے مقابلے میں یہ کہیں بہتر چلا سکتے ہیں۔ آج کے عہد میں “چالاکی، مستعدی اور قابلیت” کا مطلب یہ ہے کہ کم سے کم اخراجات اور اجرت کی بنیاد پہ زیادہ سے زیادہ منافع کیسے کمایا جا سکتا ہے۔ مگر منصوبہ بند معیشت کے تحت “قابلیت” یہ ہو گی کہ سماج اور انسان کو زیادہ فائدہ کیسے پہنچایا جا سکتا ہے جس کا بہتر فیصلہ ورکر اور محنت کش کی نسبت کوئی دوسرا کر ہی نہیں سکتا۔ سوشلسٹ معیشت کے تحت انجنیئر، کیمپوٹر ماہرین اور سائنسدانوں کی مدد سے کام کے اوقات میں کمی کرتے ہوئے بہتر پیداوار اور بہتر سماج تعمیر کیا جائے گا۔ اگر آج پیداوار اور معیشت منصوبہ بندی سے کی جائے تو کوئی بھی بےروزگار نہیں رہے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors

سرمایہ داری کے تحت ہونے والے بھاری ضیاع کو سوشلسٹ منصوبہ بند معیشت کے تحت دور کیا جائے گا۔ مثال کے طور پر آج جنگوں اور اسلحے کے اخراجات معاشرے پر ایک بڑے پیمانے پر بوجھ بن رہے ہیں۔ اس وقت اس دنیا میں 15700 کے قریب ایٹمی ہتھیار موجود ہیں۔ حکومتیں اگلی دہائی میں وسیع تباہی کے ہتھیاروں پر ایک ٹریلین ڈالر خرچ کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔ کیا یہ پاگل پن نہیں تو اور کیا ہے؟ کیا اِن انسان دشمن اخراجات کو انسان دوست اخراجات کے ساتھ بدلا نہیں جا سکتا؟ ہم اپنے ممکنہ وسائل جنگوں، ہتھیاروں اور تنازعات میں استعمال نہیں کریں گے بلکہ اپنے سکھ اور بہبود کیلئے استعمال کریں گے۔ سائنسدانوں کی قابلیت کو بم یا تباہی کے زیادہ جدید ہتھیاروں کی تعمیر پر برباد نہیں کیا جائے گا بلکہ سب کی بہتری اور پیداواری ترقی کیلئے استعمال کیا جائے گا۔
آج کی منافقت سے بھر پور سرمایہ دارانہ جمہوریت دراصل امیروں کی جمہوریت ہے، اِس کے امیر حکمران امیروں کے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں ۔ بینکاروں اور سرمایہ داروں کے اس آمریت کا متبادل ہمارے پاس ہے، یعنی ہم کام کرنے والے لوگوں کی جمہوری حکومت قائم کریں گے۔ ایک ایسا معاشرہ جو کام کرنے والے لوگوں کے لئے کام کرنے والے لوگوں کی طرف سے قائم ہو گا۔ آئیے سرمایہ دارانہ نظام کو جڑ ختم کرتے ہیں۔ ایک ایسا معاشرہ تعمیر کرتے ہیں جہاں “ہر ایک سے اُس کی صلاحیت کے مطابق کام لیا جائے گا، اور ہر ایک کو اُس کی ضرورت کے مطابق دیا جائے گا۔” بدوسرے الفاظ میں ایک صحتمند معاشرہ جس کی بنیاد یکجہتی اور ہم آہنگی ہو گی اور سرمایہ دارانہ نظام کے مصائب بالآخر تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک دئیے جائیں گے۔

Facebook Comments

فاروق بلوچ
مارکسی کیمونسٹ، سوشلسٹ انقلاب کا داعی اور سیاسی کارکن. پیشہ کے اعتبار سے کاشتکار.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply