کٹ پیس اور بات گزری رات کی۔۔۔ذیشان نور خلجی

آزادی مارچ مذاکرات کے حوالے سے مولانا فضل الرحمٰن نے کہا ہے ” مجھے یقین دلایا گیا ہے کہ دسمبر تک تبدیلی آئے گی۔”سردی کی شدت میں اضافہ ہوگا۔مونگ پھلی اور چلغوزے کی مانگ بڑھے گی۔ اس لئے میں واپس جا رہا ہوں اور اب خشک میوہ جات کی ایک بڑی کھیپ لے کے ہی اسلام آباد لوٹوں گا۔ آٹا تو پہلے ہی بہت مہنگا ہوچکا ہے۔تو لوگ چلغوزوں سے ہی پیٹ بھر لیا کریں۔ ویسے بھی اندھے عقیدت مندوں کی بھاری بھرکم کھیپ مجھے کچھ فائدہ نہیں پہنچا سکی۔ تو ڈرائی فروٹس کی کھیپ سے عوام کا ہی بھلا ہو جائے۔

امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے حکومتی پالیسیوں کے خلاف 22 دسمبر کو اسلام آباد میں احتجاج کا اعلان کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے “میں جب کسی نوجوان کو لنگر خانے میں دیکھتا ہوں تو مجھے شرم آتی ہے۔” میں ان سے منہ چھپاتا پھرتا ہوں۔اس لئے وزیر اعظم صاحب سے گذارش ہے کہ لنگر میرے گھر تک پہچانے کا، خاطر خواہ انتظام کیا جائے۔تاکہ مزید شرمندگی سے بچ سکوں۔

وزیراعظم عمران خان کو مخاطب کرتے ہوئے انہوں نے کہا “مجھے وہ ملک بتائیں، جس نے مرغی پر سوار ہو کر ترقی کا سفر کیا ہو۔” ہاں البتہ کنٹینر پہ سوار ہو کے ترقی لانے کے متعلق سوچا جا سکتا ہے۔اور میں ایک عرصے سے ترقی کے اس پہلو پہ سوچ سوچ کے ہلکان ہو رہا تھا۔ امید ہے اب 22 دسمبر کے احتجاج کے بعد مجھے افاقہ ہوگا۔اس کا تجربہ مرحوم متحدہ مجلس عمل کے ہمارے برادر بزرگوار نے بھی کیا ہے۔جو کہ کامیاب نہیں ہوسکے۔ لیکن پھر بھی ہم لازمی طور پہ اپنی سی کوشش کریں گے۔ کہ بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا۔

چلتے چلتے اب کچھ بات ہو جائے گزری رات کی۔
رات گئے خلائی مخلوق سے واسطہ پڑ گیا۔ واضح رہے اسے پاکستان میں مروجہ خلائی مخلوق قطعاً پڑھا جائے نہ لکھا جائے۔ بلکہ خلائی مخلوق صرف اس واسطے کہا ہے۔ ایک تو وہ نظر نہیں آرہی تھی۔ دوسرا اس میں غلبہ پانے کی تمام صلاحتیں بدرجہ اتم موجود تھیں۔

ایسے میں خوف کی اک لہر بدن میں دوڑ گئی کہ انسانی خصلت ہے۔ جیسے پیغمبر موسیٰ اژدھے کو دیکھ کے گھبرا گئے تھے۔ لیکن وہ تو موسیٰ تھے اپنے اعصاب پہ قابو پا گئے۔ میں بہرحال اپنے پہ قابو نہ رکھ سکا۔ ایک تو اس کے لئے انتہائی مضبوط اعصاب کی ضرورت ہے جو کہ مجھ میں بالکل مفقود ہیں۔ دوسرا میرے مُکے میں موسیٰ علیہ السلام جیسی جان نہیں کہ ایک ہی وار میں اگلے کی جان نکال دے۔سو میرا ڈرنا ایک فطری امر تھا۔

اسی اثناء میں وہ شریر مخلوق مجھ سے اٹھکیلیوں کی صورت، بدتمیزیوں پہ اتر آئی۔بالکل ہمارے وطن کے نونہالوں کی طرح۔

قریب تھا کہ میں ان کے ہاتھوں ہائی جیک ہو کے کسی نامعلوم منزل کا راہی ہو جاتا۔ اور میرا شمار بھی نامعلوم افراد میں ہونے لگتا۔ کہ ایسے میں مجھے وہ وظیفہ یاد آگیا جو سائیں ماکھا کے بقول ایسی افتاد سے بچنے کے لئے کارگر ثابت ہوتا ہے۔ میں نے باآواز بلند اس کا ورد شروع کردیا۔ گو کہ خوف کے زیرِ اثر میری ہمت جواب دے رہے تھی اور میرا وجود کپکپاہٹ کا شکار تھا۔ لیکن پھر بھی مجھے پوری طرح سے یاد ہے کہ غیر مخصوص انداز میں، میں بہت خوبصورت لحن سے با آواز بلند کلام کا ورد جاری رکھے ہوئے تھا۔ گھر کے سبھی افراد میرے گرد گھیرا ڈالے، مجھے عجیب نگاہوں سے تکے جارہے تھے۔ کہ آج ہمارے شہزادے المعروف شوہدے میں اک خوش الحان خطیب کی روح کہاں سے سرایت کر گئی۔ ویسے بھی وہ جانتے ہیں، جب کبھی مجھے حاضرین کے سامنے با آواز بلند کچھ کہنے کا موقع دیا جاتا ہے۔ تو میرا فوکس بجائے الفاظ کی ادائیگی اور آواز کے اتار چڑھاؤ کے اپنی کانپتی ٹانگوں پہ ہوتا ہے۔ اور اس وقت، جب کہ میرا سارا بدن شدید کپکپی کی زد میں تھا۔ تو میری آواز کیسے بانسری کی دھنیں ترتیب دے رہی ہے۔ کوئی بیس منٹ، میں یونہی ان سے برسر پیکار رہا
پھر ان کی شرارتیں تو کم نہ ہوئیں۔ لیکن،

خدا سمجھے گا مؤذن سے، کہ ٹوکا عین عشرت میں۔۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

خدا تو خیر، محشر میں مؤذن سے سمجھ ہی لے گا۔ لیکن جناب مؤذن صاحب، مجھ سوتے ہوئے کو اچھا بھلا سمجھا گئے۔ بادل نخواستہ میں نے کروٹ بدلی۔کھڑکی کے پار چاند ابھی تک اداس ہی تھا یعنی رات کاٹے نہ کٹی تھی۔ شاید تہجد کی اذان تھی۔ واپس نیند کی وادیوں میں جانا تو اب محال تھا۔ سو اٹھ کے آرام کرسی پہ بیٹھ گیا اور سگریٹ سلگا لیا۔ کمرے میں اندھیرا تھا اور   نائٹ  لیمپ  کی ہلکی سی روشنی میں، جلتے سگریٹ کا دھواں کچھ عجیب سے ڈراؤنے ہیولے بنا رہا تھا۔
لیکن اب کہ ڈرنے کی بجائے، میں کفِ افسوس ملنے لگا۔ ۔کہ جو لوگ ضرورت سے زیادہ حقیقت پسند ہوں
ان کی زندگی میں بھلا  ایسے رومانس کی گنجائش کہاں نکلتی ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply