کپڑے بھی یہیں اُتار دوں؟۔۔۔۔شاکرہ نندنی

اُس کے ناخن چبانے سے مجھے سخت اُلجھن ہو رہی تھی۔ ایک دو بار دل چاہا اسے ٹوک دوں۔ لیکن وہ مجھ سے کچھ فاصلے پر عورتوں کے ہجوم اور بچوں کے غُوں غاں میں شاید میری بات نہ سُن پاتی۔ ویسے بھی وہ اپنے خیالوں میں اتنی محو تھی کہ لگتا تھا اس ماحول کا حصہ ہی نہیں، آتشیں گلابی جوڑے پر کالی چادر لپیٹے چہرے پر معصومیت کا غازہ اور حُزن کی لالی سجائے وہ اپنے داہنے ہاتھ کے مہندی لگے ناخن مسلسل چبا رہی تھی۔
حجرے کا میلا پردہ ہِلا، جواپنا اصلی رنگ و روپ تو نہ جانے کب کا کھو چکا تھا لیکن اس پر کہیں کہیں رنگ برنگے کپڑوں کے ٹکڑے لگے تھے جبکہ دوسری طرف بوری لگائی گئی تھی تاکہ روشنی آر پار نہ ہو۔
,پہلےایک سوکھا ہوا پنجہ نما ہاتھ بازو سمیت باہر آیا پھر کالے بھجنگ سے متولی ،جس کا نام” بابا ٹیکہ” تھا نے گردن تک منہ باہر نکالا، گلے سے جھانکتی تعویذ کی میلی ڈوری، سر پر ملگجی ٹوپی، لال انگارہ آنکھیں، میلے دانت اور نسواری ہونٹ، پردے کو تھامے ہوئے ہاتھ کی آدھی انگلیاں پیلی اور دھوئیں سے جلی ہوئیں تھیں، جن میں دو تین بڑے بڑے نگینوں والی مندریاں اُڑس رکھیں تھیں۔ کہنی تک مُڑی ہوئی میلی آستین اور بازو کی اُبھری ہوئیں سبز رگیں۔۔ ایسی کہ جیسے کسی نے جسم میں متعدد جونکیں گھسا دیں ہوں، کلائی میں کالے دھاگے بندھے تھے۔
کلثوم مائی۔ بابا ٹیکہ نے پکارا
چرس کی بدبو کا بھبھوکا پوری فضا میں پھیل کر اگر بتی کی خوشبو پر حاوی ہو گیا۔
ایک دم موت جیسا سکوت چھا گیا، خاموش ہو کر سب اسے یوں دیکھنے لگے جیسے وہ ہی ان کے دُکھوں کا نجات دہندہ ہو۔
کلثوم مائی ،بابا ٹیکہ دوبارہ کرختگی سے چلایا۔۔۔
اچانک اس لڑکی نے یوں چونک کر دیکھا جیسے کسی گہری نیند سے جاگی ہو۔
میں ہوں۔ وہ اٹھ کر تیزی سے بڑھی
تو اُدھر مر، سوئی ہوئی ہے کیا، آوازیں دے دے کر ذلیل ہو رہا ہوں، بابا ٹیکہ غُرایا۔۔
وہ اپنے کھلے پائینچے کی شلوار پاؤں کے نیچے آجانے سے زمین پر بیٹھی اگلی عورت پر گرتے گرتے بچی اور دو سیڑھیاں چڑھ کر بھاگنے کے انداز میں حجرے میں داخل ہونے لگی۔
او ،او ،کملی جوتیاں باہر اتار، جانتی نہیں دربار کی بےادبی ہوتی ہے، ادب کے تقاضے تم کیا جانو، پیر سائیں کے جلال کو جانتی نہیں ۔۔۔ گستاخ عورت۔۔۔ چوتھی جمعرات ہے پھر بھی جاہل کی جاہل ہی رہی، بابا ٹیکہ سانپ کی طرح پُھنکارا۔
وہ حواس باختہ ہو کر جوتا اتارتے ہوئے سہمی ہوئی آواز میں بولی ۔
سائیں کپڑے بھی یہیں اُتار دوں؟؟

Facebook Comments

ڈاکٹر شاکرہ نندنی
ڈاکٹر شاکرہ نندنی لاہور میں پیدا ہوئی تھیں اِن کے والد کا تعلق جیسور بنگلہ دیش (سابق مشرقی پاکستان) سے تھا اور والدہ بنگلور انڈیا سے ہجرت کرکے پاکستان آئیں تھیں اور پیشے سے نرس تھیں شوہر کے انتقال کے بعد وہ شاکرہ کو ساتھ لے کر وہ روس چلی گئیں تھیں۔شاکرہ نے تعلیم روس اور فلپائین میں حاصل کی۔ سنہ 2007 میں پرتگال سے اپنے کیرئیر کا آغاز بطور استاد کیا، اس کے بعد چیک ری پبلک میں ماڈلنگ کے ایک ادارے سے بطور انسٹرکٹر وابستہ رہیں۔ حال ہی میں انہوں نے سویڈن سے ڈانس اور موسیقی میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ہے۔ اور اب ایک ماڈل ایجنسی، پُرتگال میں ڈپٹی ڈائیریکٹر کے عہدے پر فائز ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply