اوروں کو نصیحت اور خود میاں فصیحت۔۔۔ مہر ارم بتول

شارون مسیح بورے والا کا رہائشی جو کہ ایم سی ماڈل بوائز سکول میں زیرِ تعلیم تھا جہاں چند روز قبل اس کا داخلہ ہوا تھا۔ مسیحی ہونے کی بنا پر شارون کے ساتھ شروع دن سے ہی امتیازی سلوک روا رکھا گیا۔ آوازیں کسنے کے علاوہ اسے زبردستی مسلمان ہونے پر مجبور کیا جاتا۔ جنت کے خواب دکھائے جاتے اور دوزخ کا ڈراوا دیا جاتا۔ پھر ایک دن شارون کے ہم جماعتوں نے اساتذہ کی موجودگی میں اسے تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے قتل کر ڈالا اور اس “کفر” کے خاتمے پر طالب علموں اور اساتذہ نے رقص کیا۔ اس معصوم کے قتل کی وجہ یہ تھی کہ اس نے نام نہاد مسلمانوں کے گلاس میں پانی پی لیا تھا۔

سوال یہ ہے کہ کون ہیں یہ مسلمان، مسیحی، سکھ اور ہندو؟ کیا ہماری شناخت کیلئے فقط انسان ہونا کافی نہیں ہے؟ کیا انسانی جان کی کوئی اہمیت نہیں؟ یہ مذہب، ذات پات ۔۔۔۔ کیا ہے سب؟ مذہب کسی زبردستی کا قائل نہیں تو پھر کون لوگ ہیں جو اپنے وحشی پن کی تسکین کیلئے انسانیت کو شرمندہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں اور انسانیت ان وحشیوں سے منہ چھپائے اپنے تار تار وجود کے ساتھ نوحہ کناں ہے۔

ایسے ہی نوحے برما کی سرزمین پر روہنگیا مسلمانوں کی جابجا بکھری لاشوں سے بلند ہو رہے ہیں۔ جہاں حالیہ کئے جانے والے فوجی کریک ڈاؤن میں ہزاروں لوگوں کو بے دردی سے قتل کر دیا گیا۔ ہر طرف جلی ہوئی، بے سر لاشیں ہیں۔ عورتیں اپنی چادروں اور عصمت سے محروم ہیں۔ ماؤں کی آغوش معصوم بچوں کے خون سے لت پت ہے۔ جلتے گھروں سے بلند ہوتے شعلے اپنے مکینوں کے دردناک انجام پر رو رہے ہیں۔ اس ظلم و بربریت کی وجہ سے لاکھوں روہنگیا مسلمان ہجرت کرنے پر مجبور ہیں۔ 2013 میں اقوامِ متحدہ نے روہنگیا مسلمانوں کو دنیا کی ان قوموں میں شمار کیا جن کی سب سے زیادہ نسل کشی کی جا رہی ہے۔

ہزاروں لوگ ہجرت کر کے تھائی لینڈ میں پناہ گزیں ہوئے اور ان میں سے زیادہ تر انسانی سمگلنگ کا شکار ہو گئے۔ اس کے علاوہ لاکھوں لوگ پناہ کیلئے بنگلہ دیش کی سرحد پر بے سر و سامانی کے عالم میں شب و روز بسر کر رہے ہیں۔ جبکہ بنگلہ دیش کی وزیرِ اعظم حسینہ واجد نے یہ کہہ کر انہیں اپنے ملک میں پناہ دینے سے انکار کر دیا کہ وہاں پہلے ہی روہنگیا مسلمان پناہ گزین ہیں اور مزید مہاجرین کی گنجائش نہیں ہے۔

روہنگیا مسلمانوں کا قتلِ عام انسانیت کے خلاف جرم ہے اور اس جرم میں میانمار کی حکومت، فوج، سرکاری گارڈ اور پولیس شامل ہیں۔ اس انسانیت کے قتل کی ساری ذمہ داری میانمار کی حکومت کی ہے۔ اس معاملے میں میانمار کی رہنما آنگ سان سوچی کا کردار بھی قابلِ مذمت ہے جو خود کو انسانی حقوق کی علمبردار سمجھتی ہیں اور اس بنا پر نوبل انعام بھی حاصل کر چکی ہیں۔ آنگ سان سوچی کے لب بھی سلے ہوئے ہیں اور وجہ شاید سیاسی حمایت کا حصول ہے جو کہ وہ کسی صورت کھونا نہیں چاہتیں۔ اسی لئے شاید انہوں نے اپنا منہ اور آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔

اس مسئلے کو ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا پر زور و شور سے دکھایا جا رہا ہے۔ سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیوز کو دیکھ کر روح کانپ جاتی ہے۔ وہیں کچھ لوگ فیک ویڈیوز اور تصویریں بھی شیئر کر رہے ہیں جو کہ انتہائی غلط ہے۔ اس سے لوگ میانمار میں ہونے والے ظلم کو من گھڑت کہانی سمجھ لیتے ہیں۔ اس کے علاوہ دنیا بھر میں میانمار میں مسلمانوں پر ہونے والے ظلم کے خلاف مظاہرے ہو رہے ہیں جبکہ عالمی برادری، امتِ مسلمہ، انسانی حقوق کی تنظیمیں اور سیاسی و مذہبی جماعتیں خاموش ہیں۔ اس خاموشی کا مقصد کیا ہے، ابھی سمجھ نہیں آیا۔

لیکن ایک چیز جو قابلِ غور ہے، وہ یہ کہ ہم آج روہنگیا مسلمانوں کیلئے جو سڑکوں پر نکل آئے ہیں اور کچھ فلاحی و مذہبی جماعتوں نے انہی سڑکوں کے کنارے چندہ اکٹھا کرنے کیلئے کیمپ لگا لیے ہیں۔ کوئی ان سے پوچھے کہ کیا یہ زیادہ ضروری نہیں کہ ہم اپنے ملک میں ناانصا فیوں اور زیادتیوں کا شکار ہونے والے افراد کی مدد کریں۔ لیکن ہمیں اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ ہمارے ملک میں ہم خود اقلیتوں کے ساتھ کیا ظلم کر رہے ہیں۔ کتنے شارون اور مشال جو ظلم کی بھٹی میں جلے ان کیلئے کوئی نہیں بولا۔ کتنے گھر دہشت گردی کی نذر ہوئے کیا ان کے خاندانوں کا کوئی پرسانِ حال ہے۔ بلوچستان میں بلوچوں کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے، کیا وہ ظلم کسی کے اندر کا “مسلمان” بیدار نہیں کرتا؟ جب ہم خود اپنے ملک میں ہونے والے ظلم کو نہیں روک سکتے تو پھر کس منہ سے میانمار میں ہونے والے ظلم کو روکنے کی بات کرتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

یہ وقت جذباتیت کا نہیں کچھ سمجھداری کا ثبوت دینے کا ہے۔ پہلے خود کو ٹھیک کریں، اپنے ملک میں اقلیتوں کو تحفظ فراہم کریں اور محروم طبقات کو ان کے حقوق دیں پھر باہر کی دنیا کی فکر کریں۔ سڑکوں پر احتجاج اور قراردادوں سے کچھ نہیں ہو گا۔ اقوامِ متحدہ کی ویب سائٹ پر جا کر احتجاج ای میل کریں۔ سوشل میڈیا پر حقیقت پر مبنی کیمپین چلائیں۔ حکومت سفارتی سطح پر اس ظلم کے خلاف آواز اٹھائے اور یو این او سے مطالبہ کرے کہ وہ میانمار میں آزاد میڈیا کے ذریعے اصل حقائق سامنے لائے۔روہنگیا کے مسلمانوں کے لئے ٹھوس طریقے سے احتجاج کریں اور جو فوری کام کرنے کی ضرورت ہے وہ یہ کہ اپنے آس پاس ان لوگوں کو بھی مدِ نظر رکھیں جنہیں ہماری مدد کی ضرورت ہے۔ دوسروں کو نصیحت اور خود میاں فصیحت۔

Facebook Comments

مہر ارم بتول
وومنز سٹڈیز اور انتھرپالوجی میں ڈگری حاصل کی اور سیاسی و سماجی موضوعات پر قلمکاری کے ذریعے ان موضوعات کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ ان سے جڑے ایشوز پر روشنی ڈالنے کی سعی کرتی ہوں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply