حدیث اور سنت کا فرق۔قسط 4۔ڈاکٹرطفیل ہاشمی

وضع حدیث کا سیلاب

فقہاء صحابہ کرام حدیث اور سنت کے فرق پر مکمل نگاہ رکھتے تھے. بے شمار ایسے واقعات ہیں جہاں انہوں نے کسی حدیث کو خلاف سنت ہونے کے باعث رد کر دیا یا اس کا محمل بتایا کہ رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کسی خاص موقع یا کسی فرد کے لیے رخصت، مخلص یا بیان جواز کے لیے کوئی بات کی تھی یا فہم راوی کا قصور تھا جسے سنت کے طور پر بیان کیا جا رہا ہے(اگر کوئی سکالر چاہے تو ایسی احادیث کا ایک مجموعہ تیار کر سکتا ہے جنہیں سنت متداولہ کے مطابق نہ ہونے کے باعث صحابہ کرام نے قبول نہیں کیا) .

صحابہ کرام کے بعد دور تابعین میں مدینہ منورہ میں فقہاء سبعہ کی ایک کونسل تشکیل دی گئی جو جدید پیش آمدہ مسائل کے حل کے لیے کتاب اللہ اور سنت متداولہ کی روشنی میں فیصلے کرتی تھی. اس عنوان سے سنت ثابتہ کا اولین مجموعہ جو حدیث و سنت کے درمیان واضح خط امتیاز کھینچتا ہے امام مالک کی معروف کتاب الموطأ ہے.
فقہاء سبعہ کے طریق کار کے تتبع میں بعد میں کوفہ میں امام ابو حنیفہ نے مجلس تدوین فقہ کی تشکیل کی اور کتاب و سنت کی اساس پر مکمل فقہ مدون کر دی.۔۔۔

لیکن۔۔عام اہل علم کو حدیث اور سنت کے اس دقیق فرق کا نہ اس وقت ادراک تھا نہ اب تک ہو سکا،جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ حدیث کی اہمیت کے پیش نظر لوگ علم حدیث کے حصول کے لیے ٹوٹ پڑے اور جمع احادیث کے شوق فراواں اور صحیح و سقیم کے عدم امتیاز کے باعث امت وضع حدیث کے طوفان بلا خیز کا شکار ہو گئی.ابتدائی عہد میں علم حدیث کے حامل بے پناہ عزت، شہرت، دولت اور لوگوں کی توجہ حاصل کر لیتے تھے، اس کے لیے لوگ سفر کرتے، مال خرچ کرتے نتیجتاً ہزارہا لوگ اس دوڑ میں شامل ہوگئے.

وضع حدیث کے محرکات!

1-دینی جذبہ!

لوگوں کو قرآن کی طرف متوجہ کرنے کے لیے قرآن کی سورتوں کے فضائل یا مختلف آیات کی دنیوی اور اخروی برکات بیان کرنے کے لیے احادیث وضع کی گئیں اور وضع کرنے والے یہ سمجھتے تھے کہ اس طرح وہ ایک کار خیر کی طرف لوگوں کو متوجہ کر رہے ہیں اور یہ کام باعث اجر ہے.
2-ترغیب و ترہیب!

ایسی احادیث وضع کی گئیں جن میں برے کاموں کی خوفناک سزائیں اور اچھے کاموں کے بے پناہ اجر کا تذکرہ تھا. اسے کار خیر سمجھ کر کیا جاتا اور اس نوعیت کی بہت سی احادیث کتب حدیث میں موجود ہیں بلکہ آج تک تبلیغی مقاصد کے لیے بلا تحقیق استعمال ہوتی ہیں. محدثین نے اس نوع کی احادیث کو قبول کرنے میں نرمی سے کام لیا. شاید ان کے ذہن میں یہ تھا کہ گناہ پر اگر اتنی سزا یا نیکی پر اتنا اجر نہ بھی ملا جو ان احادیث میں ہے تب بھی فی الجملہ برائی سے بچنے اور نیکی کرنے کی ترغیب میں کوئی قباحت نہیں ہے. اس نوعیت کی روایات بالعموم ایسے عابد، زاہد متقی اور مستجاب الدعوات افراد سے مروی ہیں جن کے بارے میں خطیب بغدادی لکھتے ہیں کہ

ہمارے کچھ بھائی ایسے ہیں کہ اگر وہ دعا کے لیے ہاتھ اٹھائیں تو ان کی دعا رد نہیں ہوتی لیکن ان کی عام شہادت پر بھی اعتماد نہیں کیا جاسکتا چہ جائے کہ ان سے حدیث لی جائے. یحیی بن سعید کے بقول :حدیث کی تحقیق میں نیکو کار راویوں سے زیادہ کوئی چیز دھوکے کا باعث نہیں. یحیی بن سعید القطان، ابن ابی الزناد اور امام مالک متفق ہیں کہ مدینے میں ایسے لوگ بڑی تعداد میں ہیں جن پر مالی معاملات میں ہر طرح کا اعتماد کیا جا سکتا ہے لیکن کسی ایک حدیث میں بھی ان پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا. واقعہ یہ ہے کہ ایسے افراد پر تنقید کرنا ناممکن ہے لیکن یہ امام مالک ہیں جنہوں نے اپنے آپ کو تشریعی احادیث تک محدود رکھا اور ایسی احادیث لینے سے اجتناب کیا جبکہ دوسرے محدثین اپنے آپ کو اس حد تک نہیں رکھ سکے.
3-شہرت کے حصول کے لیے!

علم حدیث کے عالم اور ہزاروں لاکھوں احادیث کے حامل مرجع خلایق ہو جانے کے باعث شہرت کی بلندیوں پر فائز ہو جاتے اور تعداد روایات میں ایک دوسرے پر سبقت ہی وجہ مفاخرت تھی جس کی وجہ سے شہرت کے خواہش مند لوگوں نے احادیث وضع کرنا شروع کر دیں، اس کے لیے وہ نہ صرف متون بلکہ اسناد بھی وضع کرتے تھے.


4-باطل عقائد کی تائید کے لیے!

جب خوارج، معتزلہ، مرجئہ اور شیعہ فرقے وجود میں آئے تو انہوں نے اپنے اپنے ائمہ اور عقائد کی حمایت میں احادیث وضع کیں. ان میں سے بیشتر احادیث کا تعلق تفسیر قرآن سے ہے. اس طرح انہوں نے تفسیری لٹریچر میں اپنے باطل عقائد و افکار داخل کر دیے.
5-سیاسی وجوہات!

ایسی احادیث جن سے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ یا حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت پر استدلال کیا جاتا ہے، حضرت علی رضی اللہ عنہ، امیر معاویہ کے باہمی اختلافات اور حضرت علی رضی اللہ عنہ اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی باہمی آویزش سے متعلق اکثر روایات موضوع ہیں. (یاد رہے کہ ویح عمار والی روایت متواتر ہے) اسی طرح یہ کہ جب خلافت بنو عباس کے پاس آ جائے گی تو ان سے براہ راست حضرت عیسی علیہ السلام کو منتقل ہوگی یا اپنے خلفاء کے تقدس کے بیان کے لیے مہدی کی روایات کا سیاسی پس منظر ہے.
6-رنگینی وعظ!

وعظ کو پر کشش اور اثر افرین بنانے کے لیے روایات و قصص کی ہمیشہ ضرورت رہی ہے. واعظ، مبلغ اور مساجد میں قصہ گوئی کرنے والے بے تکلف روایات گھڑ لیتے تھے
7-حکمرانوں کی خوشنودی کے لیے!

درباری علماء اپنے فاسق و فاجر حکمرانوں کی حرکات کو سند جواز بخشنے کے لیے احادیث وضع کر لیتے.
8-اسرائیلی روایات!

قرآن اور بائبل کا ماخذ ایک ہے اور بہت سے مضامین میں یکسانی بھی ہے. ایسے مواقع پر قرآنی اجمال کی اسرائیلی روایات سے شرح و تفصیل کرنا نہ صرف نو مسلم یہود علماء کے ہاں متداول تھا بلکہ کئی مسلمان ثقہ اہل علم بھی ان تفصیلات کو تفسیری روایات میں شامل کرنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے جو رفتہ رفتہ احادیث کے طور پر روایت ہونے لگتیں.
9-فرقہ واریت!

صرف اپنے فرقے کی تائید کے لیے ہی نہیں بلکہ ایک خارجی اور رافضی کا بیان نقل کیا گیا ہے کہ وہ اپنی ضرورت کے لیے حلت و حرمت کے احکام کی احادیث بھی وضع کر لیتے
وضع حدیث کا رجحان اس قدر وبائی شکل اختیار کر گیا تھا کہ موضوع روایات اور وضاعین کے تذکروں پر مستقل کتابیں لکھی گئیں.
اس فتنے کے سد باب کے لیے کیا کِیا گیا۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

( جاری ہے)

Facebook Comments

ڈاکٹر طفیل ہاشمی
استاد، ماہر علوم اسلامی، محبتوںکا امین

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply