ماں اللہ رکھی

ماں اللہ رکھی
نسرین چیمہ
یہ دنیا رنگ برنگی شخصیات سے بھری پڑی ہے۔ کچھ فرعون کے پیروکار ہیں کچھ موسٰی کے۔اچھے برے، نیک و بد، دوست اور دشمن سب اپنا اپنا کردار ادا کرنے میں مصروف ہیں۔ کہیں معمارِ قوم ہیں اور کہیں تخریب کار، کہیں لٹیرے ہیں اور کہیں محافظِ قوم، کہیں ظالم و مظلوم کی داستانیں ہیں اور کہیں حاکم و محکوم کے قصے، کہیں قانون کے لمبے ہاتھ ہیں اور کہیں قانون شکنوں کی ہٹ دھرمیاں، یہ وہ سلسلہ ہے جو روزِ قیامت تک چلتا رہے گا۔
انسان قطار اندر قطار” مولودگی اور روانگی “کے سفر پر رواں دواں ہے۔ بہت سے لوگوں کا کوئی کردار تاریخ نے رقم نہیں کیا، مگر وہ ایک محدود دائرے میں اپنی جڑیں گاڑ گئے ہیں۔ وہ ہمیں جھنجھوڑ جھنجھوڑ کر کہتے ہیں کہ ہم نے دنیا میں نہ صرف اللہ کے، بلکہ اس کے بندوں کے حقوق بھی ادا کیے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے حسنِ سلوک کی وجہ سے بندوں کے دلوں میں گھر کر جاتے ہیں۔
زبانِ حال سے قابلِ ذکر ہے ماں اللہ رکھی، جو اس فانی دنیا سے کوچ کر چکی ہے مگر گاؤں والوں کے ذہنوں کے گوشوں میں اب بھی کہیں آباد ہے۔
ماں اللہ رکھی ایک دیہات کی رہنے والی تھی، انتہائی سادہ اور ناخواندہ خاتون۔ وہ گاؤں کے تمام لوگوں، بچے، بوڑھے اور جوان، سب کی ماں تھی۔ ماں اللہ رکھی کسی تاریخ کا حصہ تو نہیں ہے مگر اپنے کار ہائے خیر کی وجہ سے یاد کی جاتی ہے۔ وہ گاؤں کی انتہائی نیک اور باکردار خاتون تھی، بڑی بے عیب اور باحیا خاتون۔
قدرت نے اسے بے لوث خدمت کے لیے پیدا کیا تھا۔ پورے گاؤں میں جس کو جو کام ہوتا اسے کرنا وہ اپنی ذمہ داری سمجھتی تھی۔ ہر گھر میں ماں اللہ رکھی کو ،دن میں کئی بار یاد کیا جاتا تھا کیونکہ ہر چیز کی فراہمی کے لیے ماں اللہ رکھی کو پکارا جاتا تھا۔ وہ کبھی کسی گھر سے،کبھی اپنے گھر سے اور کبھی کسی گلی کے کسی موڑ سے دستیاب ہوجاتی تھی۔
ہر طرف سے انڈے، چینی، گھی، گڑ، شکر، چاول، آٹا، نمک، مرچوں اور دالوں کے سوال تھے جو صبح سے شام تک چلتے تھے۔ ان کو پورا کرنے کے لیے وہ گلی گلی اور گھر گھر گھومتی تھی۔ وہ نہار منہ نکلتی اور کبھی کبھار بھوکے پیٹ ہی لوگوں کے کام نمٹا کر واپس آجاتی۔نہ تو وہ منہ زور تھی نہ بد اخلاق۔ اسے جب بھی پکارا جاتا وہ اپنا شفقت بھرا متبسم چہرہ لیے نمودار ہوجاتی تھی: جی بی بی! وہ محبتوں کی علمبردار تھی۔ عاجزی اور حلیمی اس کے چہرے سے ٹپک رہی ہوتی تھی۔ اسے نہ کوئی طمع تھی نہ لالچ، نہ کسی سے دکھ نہ حسد، نہ کینہ نہ دشمنی، نہ مال سے محبت نہ زر کی طلب۔ وہ خدمتِ خلق کا جذبہ لیے گھر سے نکلتی تھی مگر اپنے جذبے کے احساس سے خود بھی بے خبر تھی۔ وہ اکیلی تھی اور سوال بہت زیادہ تھے۔ وہ بڑے حوصلے سے ڈھیر سارے سوالوں کو گڈمڈ کرتی پورے گاؤں کا چکر کاٹ آتی۔ کسی کو کچھ دے آتی کسی سے کچھ لے آتی۔ یہ سلسلہ پورا دن چلتا۔ گاؤں کے لوگ اسے گھر میں ٹکنے نہیں دیتے تھے، وہ زیادہ تر باہر ہی نظر آتی تھی۔
کبھی کسی موڑ پر وہ چادر کے پلو میں دیسی انڈے ڈالے ہوے دکھائی دے جاتی۔ کبھی اگلی گلی میں دیسی گھی کا ڈبہ اٹھائے نظر آجاتی۔ کبھی کپڑے میں گڑ باندھ کر لا رہی ہے، کبھی سرخ مرچیں، اور کبھی کسی کے لیے چاول لا رہی ہے۔ کبھی مکئی کا آٹا تو کبھی جوار، کبھی باجرہ۔ تمام اشیائے خوردنی کے بھاؤ ماں اللہ رکھی سے معلوم کیے جاتے تھے، کیونکہ گھریلو خرید و فروخت کے سارے نظام کی وہ چیف کنٹرولر تھی۔ کبھی کسی چیز کا بھاؤ زیادہ بتاکر اسے مہنگا کر دیتی کبھی کم بتاکر اسے سستا کر دیتی، جِس وجہ سے چودھرانیوں سے ڈانٹ بھی پڑ جاتی تھی۔ بے لوث خدمت کرنے والی یہ خاتون کبھی کسی سے پیسے، کپڑے اور کھانے پینے کی ڈیمانڈ نہیں کرتی تھی۔ کسی نے اپنی خوشی سے کچھ کھلا پلا دیا یا دو چار روپے دے دیے تو خوش ہوجاتی تھی۔ آج ذہن کے پردے سے بار بار یہ سوال ٹکراتا ہے کہ اس نے گاؤں والوں کو کیا دیا؟ اور گاؤں والوں نے اسے کیا دیا؟ فقط دو گز زمین!
کیا ایسی شخصیات روز روز پیدا ہوتی ہیں؟ نہیں۔ وہ دنیا سے چلی گئی۔ وہ صفحہ ہستی سے کیا غائب ہوئی کہ دوبارہ ایسی شخصیت نظر نہیں آئی۔ اب وہ دلوں کے اندر آباد ہے۔ ایک خاموش پکار ہے جو ابھی بھی سنائی دیتی ہے:
ماں اللہ رکھی، ماں اللہ رکھی۔
ہماری دعا ہے اللہ تعالیٰ اسے جنت الفردوس میں جگہ دے۔ آمین۔

Facebook Comments

نسرین چیمہ
سوچیں بہت ہیں مگر قلم سے آشتی اتنی بھی نہیں، میں کیا ہوں کیا پہچان ہے میری، آگہی اتنی بھی نہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply