ریڈ کراس کیمپ۔افسانہ

بادلوں کی بے ہنگم گرج اسے ایک بار پھر حقیقت کی دنیا میں لے آئی ۔ کرسی کی پشت سے سر ٹکائے نہ جانے وہ کب سے خیالوں کی دنیا میں گم تھا اس نے چونک کر اپنی انگلیوں میں دبے سگریٹ کے آخری ٹکڑے کو دیکھا جو جانے کب سے بجھ چکا تھا اسے ایش ٹرے میں پھینک کر اس نے دوسرا سگریٹ سلگایا ایک گہرا کش لے کر دھوئیں کا مرغولہ بناتے ہوئے اس نے میز پر بکھرے صفحات پر نظر ڈالی سادہ صفحات جن پر ایک حرف بھی تحریر نہیں تھا قلم کی نوک نے سادہ صفحہ پر سیاہی پھیلا کر ایک نقطہ بنا دیا تھا وہ خالی خالی نظروں سے اس نقطے کو دیکھتا رہا اور ا س کا منتشر ذہن پھر اسے ماضی کے دھندلکوں میں لے گیا ۔

وہ دو گھنٹے سے کچھ لکھنے کی کوشش کر رہا تھا مگر آج اس کی سوچیں کسی ایک نقطے پر مرتکز نہیں ہو پا رہی تھیں ۔ کوئی انجانی سی طاقت اس کا ہاتھ روک رہی تھی وہ قلم اٹھاتا کاغذ پر جھکتا اور بس سوچوں کا ایک لامتناہی سلسلہ اس کے ذہن کو منتشر کر دیتا وہ بے بسی سے قلم رکھ کر کرسی کی پشت سے ٹیک لگا لیتا اور کبھی سگریٹ کے دھویں پر نگاہ جما کر ذہنی یکسوئی حاصل کرنے کی کوشش کرتا تو کبھی آنکھیں بند کر کے سوچنے لگتا کہ وہ لکھنا کیا چاہتا ہے ؟ وہ جو کہنا چاہتا تھا جو لکھنا چاہتا تھا اس کے لیے اس کا ذہن بلکل صاف تھا مگر اس کے باوجود وہ لکھ نہیں پا رہا تھا ۔۔۔۔ کیوں ۔۔۔ کیوں وہ خود سے سوال کرتا اور اس کے سوال کی بازگشت بارش کی جھنکار کے ساتھ مل کر اس کی سماعت پر ہتھوڑے برساتی تو وہ خیالوں کی دنیا میں پناہ تلاش کرتا اس وقت بھی وہ آنکھیں بند کیے سقوط ڈھاکہ کے مناظر کسی فلم کی طرح دیکھ رہا تھا۔

سن 71 میں جب یہ سانحہ ہوا تو اس کی عمر محض پانچ ماہ تھی اسکی پیدائش اور اس سانحہ کا سن ایک تھا مگر وہ اس طرح تاریخ کے اس سیاہ باب کو دیکھ رہا تھا جیسے وہ خود اس کا ایک کردار رہا ہو ۔ کبھی اس کے سامنے الیکشن میں اپنی بے مثال جیت کی خوشی میں مٹھائیاں تقسیم کرتے مفلوک الحال لوگوں کے ہجوم رقصاں ہوتے جن کی آنکھوں میں خوشی کی چمک کسی عیاری سے کسی دھوکہ بازی سے پاک ایک ایسی معصومیت لیے نظر آتی جیسے ان کی آنکھیں کہہ رہی ہوں کہ اب ہمارے دن بھی بدلیں گے ۔۔۔۔۔ ہمیں اقتدار کی ہوس نہیں تھی پر ہم پر جنھیں تقدیر نے حکمران بنایا انہوں نے کبھی ہمارے ساتھ انصاف نہیں کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہمیں بھوک افلاس اور حقارت کے سوا کبھی کچھ نہیں دیا ۔۔۔۔ سننے والے نے ہماری سن لی اب حق حکمرانی ہمارے سر کا تاج بننے جا رہا ہے مگر ہم کسی کے ساتھ نا انصافی نہیں کریں گے ۔۔۔ہم کسی کو خود پر بوجھ نہیں سمجھیں گے ہم کسی کے منہ کا نوالہ نہیں چھینیں گے ۔ وہ خاموش تھے مگر ان کی نگاہیں بول رہی تھیں وہ دو مختلف تہذیبوں کا سنگم تھے ان کی زبان اور حلیوں میں بھی فرق تھا ایک گروہ قلیل تھا دوسرا ہر طرف رقصاں نظر آ رہا تھا مگر انکی خوشیاں بھی ا  ن کے غموں ہی کی طرح سانجھی تھیں جب ہی تو وہ ایک دوسرے سے بغلگیر اپنی فتح کا جشن منا رہے تھے ۔

بادل زور سے گرجا اور یکلخت اس کی نگاہوں میں بھی منظر کسی فلم ہی کی طرح تبدیل ہوگیا وہ تھا تو اب بھی وہیں مگر اب خوشی سے چمکتی آنکھوں میں تشویش کے سائے لرزاں تھے وہ چھوٹی چھوٹی ٹولیوں میں تقسیم ہوکر کہیں کسی چبوترے پر بیٹھے کہیں کسی درخت کی چھاؤں میں زمین پر بیٹھے ہر گلی ، ہر بازار ہر محلے میں بس ایک ہی بات پر تشویش کا اظہار کر رہے تھے کہ فوج نے اقتدار انھیں منتقل کرنے سے انکار کر دیا ہے ۔ ا ن کی آنکھوں کے دیپ بجھ چکے تھے جو عام لوگ تھے ووٹر سپورٹر اور اپنے گھربار کی فکر کرنے والے محنت مزدوری کرنے والے ان کی آنکھیں غم زدہ تھیں مگر جو سیاسی کارکن تھے ان کی آنکھیں شعلے اگل رہی تھیں وہ مضطرب تھے ۔ منظر پھر بدل گیا وہ گلیوں محلوں سے ہوتا ہوا ایک چوراہے پر آ گیا تھا یہ شہر کا معروف چوک تھا جہاں یونیورسٹی کے نوجوان جمع ہو کر احتجاج کر رہے تھے ۔۔۔۔ ایک آمر کے خلاف ایک ڈکٹیٹر کے خلاف تقریریں کر رہے تھے یہ نہتے نوجوان ۔۔۔۔ یہ طالب علم ایک آمر مطق سے اپنا حق مانگ رہے تھے اور پھر اچانک انھیں فوجی جوانوں نے چاروں طرف سے گھیر لیا اور ان پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دی گئی چند لمحے پہلے تک جیتے جاگتے زندگی سے بھرپور یہ نوجوان ایک آمر سے اپنا حق مانگتے مانگتے اسی آمر کے حکم پر خون میں نہلا دیے گئے درجنوں نوجوانوں کی لاشوں کو اپنے بوٹوں تلے روندتے فوجی جوان اب چھٹ چکے تھے زمین بھی ان کے خون سے سرخ ہو رہی تھی اور اس نے چشم تصور میں آسمان کو بھی سرخ ہوتے دیکھا ۔

اس کے ذہن میں چلتی فلم کا منظر پھر بدل چکا تھا اس کے ہاتھ میں دبی سگریٹ ایک بار پھر کبھی کی بجھ چکی تھی مگر اسے کچھ خبر نہیں تھی وہ دیکھ رہا تھا کہ امید اور نا امیدی کے درمیاں محصور ایک قوم کا عظیم مجمع ہے اور انکا رہنما ان سے التجا کر رہا ہے کہ اپنے جذبات قابو میں رکھو میں مذاکرات کر رہا ہوں وہ مان جائیں گے ۔۔۔۔۔ ہمیں ہمارا حق مل جائے گا وہ ایسے سینکڑوں چھوٹے بڑے اجتماع دیکھتا رہا اس رہنما کو اپنے لوگوں کو صبر کی تلقین کرتے سنتا رہا اور پھر یکلخت منظر بدل گیا تمام چھوٹے بڑے اجتماع اور ان میں لوگ مل کر انسانوں کا ایک سمندر بن گئے اس نے جس طرف نگاہ کی اسے انسان ہی انسان نظر آئے اگر ان میں کوئی قدر مشترک نظر آئی تو وہ سب ہی اپنے چہروں اپنے لباس سے مفلوک الحال دکھائی دیے۔۔۔

اس نے نگاہ اوپر اٹھائی تو اسے بجلی کے کھمبوں اور درختوں کی ٹہنیوں پر بھی لوگ بیٹھے نظر آئے وہ سب اپنے رہنما کا خطاب سننے کو جمع تھے جو مذاکرات کے بعد واپس آیا تھا اور پھر اس نے رہنما کی وہ جذباتی تقریر سنی جو پوری قوم کو جذبات سے دامن بچانے کا درس دیا کرتا تھا آج پوری طرح جذبات میں بہہ چکا تھا وہ بتا رہا تھا کہ مذاکرات ناکام ہو گئے جنرل نے اقتدار ہمیں دینے سے انکار کردیا اب ہمارے پاس صرف اور صرف ایک راستہ باقی بچا ہے آزادی ۔۔۔۔۔ آزادی ۔۔۔۔۔ آزاد بنگلہ دیش ۔۔۔۔۔۔۔

انسانوں کا سمندر دم بخود تھا کچھ خوش تھے کچھ حیران اور کچھ پر سکتے کی سی کیفیت طاری تھی وہ واپس اپنے گھروں کو جا رہے تھے اور پھر اس نے بیک وقت کئی منظر دیکھے ۔
اس نے فوج اور عوام کے درمیان ہوتی آنکھ مچولی دیکھی عام شہریوں کو خون میں نہاتے دیکھا مگر سب سے زیادہ کربناک منظر اس کے لیے وہ تھا کہ جن دو تہذیبوں کہ سنگم کو اس نے باہم بغلگیر دیکھا تھا اپنی فتح کا جشن مناتے دیکھا تھا جن کی خوشیاں اور غم سانجھے تھے اب وہ ایک دوسرے کی شکل دیکھنے کے بھی روادار نہٰیں تھے اکثریت اپنے رہنما کے ساتھ علیحدگی پر سمجھوتہ کر چکی تھی مگر اقلیت اپنے وطن کی تقسیم پر نالاں تھی وہ زار و قطار روتے تھے کہ ہمارے اجداد نے اپنی دھرتی پر لکیر کھنچنا گوارہ کرلی تقسیم ہندوستان تو نہیں ہوا تقسیم تو بنگال ہوا ہے ڈھاکہ نے کلکتہ کی جدائی سہہ لی صرف اس سرزمین کی خاطر پھر ہم اس سے کیونکر علیحدہ ہوں ۔۔ان کے اس گریہ کی انھیں بہت بھاری قیمت چکانا پڑی ۔

ایسے ہر منظر پر وہ کرسی کی پشت پر جھرجھری لے کر رہ جاتا اس نے وہاں ایک انتہا پسند مذہبی جماعت کے درندوں کو دیکھا اس نے دو نوں اطراف کی وردی والوں کو دیکھا اسے ایسا لگا جیسے فتح کاجشن بھی عورت ۔۔۔ اور شکست کا غم بھی عورت ۔۔ ایسے لگا جیسے اس لڑائی کا حاصل ہی عورت رہی ہو۔ اپنی فتح کا جشن منانے والوں کے بیچ اور شکست خوردہ جوانوں اور مذہبی رضاکاردرندوں کہ درمیاں مظوم بے بس عورتوں کی چیخیں ایک وحشتناک منظر پیش کر رہی تھیں انیسویں صدی کے دوسرے وسط میں انسانیت کا سر شرم سے جھک چکا تھا ان مہذب جانوروں کی وحشت پتھر کے دور کے انسان کو بھی شرمندہ کر رہی تھی وہ نیم خوابیدہ آنکھوں سے ان مناظر کو دیکھ رہا تھا اور اس کے ذہن میں ایوب کا وہ جملہ گونج رہا تھا جو اس نے مشرقی پاکستان کے حوالے سے کہا تھا کہ ” میں ان چھوٹے قد والوں کی نسل بدل کر رکھ دوں گا ” ۔

اس نے اپنے بدمست سجیلے جوانوں کو ذلت آمیز انداز میں اپنے ہی پرچم پر چل کر دشمن کے آگے ہتھیار ڈالتے دیکھا ۔اس کے لیے ان تمام مناظر سے زیادہ کربناک منظر وہ تھا جہاں اس نے ” محب وطن ” عورتوں کو فتح مند ” علیحدگی پسندوں ” کے ہاتھوں بے آبرو ہوتے دیکھا ا ن کے گھروں کو آگ لگتے دیکھا ۔
بادل پھر زور سے گرجا اور منظر بدل گیا وہ ان گلی محلوں میں لوگوں کو رقصاں دیکھ رہا تھا وہ خوشی سے جھوم رہے تھے ہر سمت بنگلہ دیش کے پرچم لہرا رہے تھے اس کی نگاہیں ڈھونڈ رہی تھیں ان لوگوں کو جو محب وطن تھے جو علیحدگی نہیں چاہتے تھے جنھیں  اس نے اپنی حب الوطنی کی بھاری قیمت ادا کرتے دیکھا تھا اور پھر وہ اسے نظر آ گئے ریڈ کراس کے کیمپوں کی ایک خیمہ بستی میں ۔۔۔۔

اس نے جھرجھری لے کر آنکھیں کھول دیں ۔۔ آہ ۔۔۔۔

وہ اب بھی وہیں ہیں چھیالیس سال بعد بھی ان کی تیسری نسل بھی وہیں جوان ہو رہی ہے انہی کیمپوں میں ۔۔۔ اس نے ایک سرد آہ بھری اور کرسی سے اٹھ کر کھڑکی سے باہر جھانکا۔۔ بارش تھم چکی تھی۔ اس نے بجھا ہوا سگریٹ ایش ٹرے میں ڈال کر دوسرا سگریٹ سلگایا اور قلم اٹھا کر کاغذ پر لکھنے لگا ۔ دماغ پر چھائی ہوئی گرد چھٹ چکی تھی وہ مطمئن تھا وہ جو لکھنا چاہتا تھا اس کا حوصلہ اسے مل چکا تھا اس کے لبوں پر ایک آسودہ مسکراہٹ تھی اور وہ کاغذ پر لکھ رہا تھا۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

” میں جانتا ہوں میری قوم علیحدگی پسند نہیں مگر تم نے اسے مجور کر دیا ہے کہ وہ اس انداز سے سوچے
جب تم اپنے مقصد میں کامیاب ہو جاؤ اور یہ علیحدگی عمل میں آ جائے تو اس شہر میں بسنے والی ریڈ کراس کی بستی
میں ایک خیمہ میرے نام کا بھی لگوا دینا اور اس کے دروازے پر لکھ دینا کہ جب تک اس وطن میں تم جیسے ” محب وطن ”
زندہ ہیں مجھ جیسے ” غداروں ” کا نصیب ریڈ کراس کے کیمپو ں کے سوا کچھ بھی نہیں “!

Facebook Comments

کاشف رفیق محسن
اسلام انسانیت کا مذہب ہے ،انسانیت ہی میرا مذہب ہے اور انسانیت ہی اسلام کا اصل چہرہ ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply