سنتِ ابراہیمی کے تقاضے اور ہماری عیدِ قرباں/انور عباس انور

میڈیا کے ذریعہ معلوم ہوا کہ پچھلے سال چند عاقبت نااندیشوں نے منڈی مویشیاں جو عارضی طور پر عید الااضحیٰ کے لیے جانوروں کی خرید و فروخت کے لیے قائم کی گئیں ہیں، وہاں قربانی کے لیے لائے گئے جانوروں کی کیٹ واک کاانعقاد کیا، جہاں فلم اور اسٹیج کے اداکاروں نے بھی اپنے جوہر دکھائے اور ٹھمکے لگا لگا کر خوب داد وصول کی۔ جس کی ویڈیو منظر عام پر آنے پر مختلف طبقات کی جانب سے اس کیٹ واک کا اہتمام و انتظام کرنے والوں اور اس میں حاضرین کے جذبات میں ہیجان خیزیاں ابھارنے والوں کی شدید مذمت کی گئی۔

عوام الناس کے غم و غصے کو خاطر میں نہیں لایا گیا اور نہ اس سے سبق سیکھا گیا اور نہ ہی یہ گھناؤنا فعل سرانجام دینے والوں نے اپنے کیے پر نادم ہونا گوارا کیا۔ لوگوں کی تنقید کا ان عناصر نے الٹا اثر لیا اور اس سال لاہور کی سگیاں پُل کے اردگرد قائم کی گئی منڈی مویشیاں میں بھی گائے اور بیلوں کی واک  کا انتظام و اہتمام کیا، جہاں رقاصاؤں نے اپنے فن بلکہ بے حیائی کے جوہر دکھائے، گانوں پر خوب ناچیں ، کسی اللہ کے ایک بندے نے بھی اس پر اعتراض کرتے ہوئے صدائے احتجاج   اور نعرہ حق بلند کر کے غیر ت وحمیت مسلم کے زندہ ہونے کا ثبوت نہیں دیا۔

چند دن پہلے لاہور پریس کلب میں بیٹھا تھا، رات کے دو بج رہے تھے کہ دوست قمرالزماں بھٹی آئے اور بتایا کہ میں منڈی مویشیاں کا پیکج کر کے آیا ہوں۔ قمر بھٹی بتا رہا تھا کہ چند فن کاروں نے خوب ’’ٹھمکے‘‘ لگائے اور قربانی کے جانوروں کی کیٹ واک کو کامیاب بنایا۔ سوال اٹھتا ہے کہ اس واک کا یا پروگرام کا انعقاد کرنے والے، اس میں حصہ لینے والے تمام افراد غیر مسلم ہیں؟ کیا یہ سب اسلامی تعلیمات سے نابلد ہیں؟ کیا انہوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسمعیل علیہ السلام کی اس قربانی کے متعلق کچھ نہیں سن رکھا؟ قربانی کے جانوروں کے لیے قائم منڈیوں میں جانوروں کی کیٹ واک مجروں کی حوصلہ شکنی کرنے کے لیے کچھ اقدامات نہیں کیے گئے۔

پوری دنیا کے مسلمان عیدِ قرباں منا رہے ہیں، جانوروں کو قربان کیا جا رہا ہے، اللہ نہ کرے کہ پچھلے سالوں کی طرح اس بار بھی عید الاالضحیٰ کے ایام میں بھی لوگ عید کے گوشت سے محروم رہیں، قربانی کرنے والے سارا گوشت اپنے’’منہ ملاجے‘‘ دوستوں عزیزوں میں بانٹ دیں اور اپنے ریفریجریٹرز گوشت سے بھر کے رکھ لیں، ایسا کرنے سے سنت ابراہیمی کی ادائیگی کے تقاضے ادھورے بلکہ نامکمل رہ جائیں گے۔

فلسفہ قربانی جہاں تک میں سمجھ پایا ہوں، یہ ہے کہ قربانی کرنے والے قربانی کے جانوروں کے پاس کھڑے ہو کر یہ عہد کریں کہ ’’ اے اللہ، جس طرح تیرے پیارے نبی اور خلیل اللہ نے تیرے احکامات پر عمل کرتے ہوئے، اور تیری خوشنودی حاصل کرنے کے لیے اپنے فرزند حضرت اسماعیل علیہ السلام کو تیری راہ میں قربان کیا، اسی طرح ہم عہد کرتے ہیں کہ اگر تیرے دین پر کوئی مشکل آن پڑی، اور تیری توحید کے تحفظ کے لیے ہمیں اپنی اولاد قربان کرنے کی نوبت آئی تو ہم جانوروں کی طرح اپنی اولاد تیری راہ میں قربان کردیں گے‘‘۔ اس کے علاوہ ہمیں اپنے بچوں کی تربیت بھی اس انداز سے کرنا چاہیے، اور بچوں کو فلسفہ قربانی سے آگاہ کرنا چاہیے۔

قربانی کے گوشت کے تین حصے ہوتے ہیں؛ ایک اپنا، دوسرا اپنے عزیز و اقارب اور تیسرا حصہ غربا و مساکین کا ہے۔ تین حصے رکھ کر اللہ سبحانہ تعالیٰ نے یہ بندوبست کیا کہ اس کی مخلوق کے جو لوگ سال کے 362 دن گوشت کھانے کی ہمت نہیں رکھتے، وہ عید کے تین دن مفت گوشت کھا پائیں، لیکن ہم (قربانی دینے والے) غربا و مساکین کو ان کا حصہ نہ دے کر اللہ کے احکامات کی نافرمانی کرتے ہیں۔ امرا اور دولت کے نشے میں مست لوگوں نے عید کے خالص مذہبی تہواروں کو بھی ذاتی اناؤں کی بھینٹ چڑھا دیا ہے۔ بہت سارے لوگ اللہ کے احکامات اور سنتِ ابراہیمی پر عمل کرنے کی بجائے قربانی اس لیے کرتے ہیں کہ، گلیوں، محلوں اور برادری میں ناک کٹنے سے بچائی جا سکے۔

گلی محلوں اور برادری میں ناک کو کٹوانے سے بچانے کے لیے دی جانے والی قربانی دکھاوے اور ریا کاری کے زمرے میں آتی ہے۔ کچھ لوگ ناک بچانے کی دھن میں قربانی کے جانور قرض لے کر بلکہ بعض اوقات سود پر قرض اٹھا کر قربانی کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔ ایسا وہ اس لیے کرتے ہیں کہ قربانی نہ دینے سے معاشرے میں ان کے غریب ہونے کا تاثر ابھرے گا جو انہیں کسی صورت قابلِ قبول نہیں۔

قربانی کرنے والوں کو اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ کم از کم ان کے آس پاس کوئی سفید پوش جس نے قربانی نہ کی ہو یا اس بار قربانی کرنے کی سعادت حاصل کرنے کی سکت نہ رکھنے کے باعث قربانی کے جانور نہ خرید پائے ہوں، ان کا حصہ انہیں ضرور پہنچایا جائے اور غربا و مساکین کو بھی اپنی عید کی خوشیوں میں شریک کیا جائے۔ اس بات کا بھی دھیان رکھا جائے کہ دروازے پر گوشت مانگنے والوں کو دو تین بوٹیاں دے کر ان کا تمسخر نہ اڑایا جائے بلکہ انہیں عزت دی جائے، گھر میں بٹھا کر انہیں چائے پانی پلایا جائے اور اتنا گوشت دیا جائے کہ ان کی ایک وقت کی ہانڈی پک جائے اور وہ تمہیں دعائیں دیں۔

عیدِ قربان کو میلے ٹھیلے کے انداز میں منانے سے گریز کیا جائے، اور کوئی ایسا فعل انجام دینے سے اجتناب برتا جائے جس سے اسلام دشمنوں کو قہقہے لگانے اور باتیں بنانے کا موقع ہاتھ لگے۔ لیکن اب تک کی صورت حال حوصلہ افزا نہیں دکھائی دے رہی۔ دوکانداروں، تاجروں نے خوب عوام الناس کا خون نچوڑا ہے، تیس روپے کلو فروخت ہونے والے پیاز سے لے کر ادرک، ٹماٹر، لہسن، دھنیا سمیت دیگر اشیا کی قیمتیں کئی گنا کر کے اپنے بچوں کی عیدی جمع کی ہے، اور اس لوٹ مار سے قربانی کے جانور خریدے گئے ہیں۔ سرکاری افسران نے اپنے ماتحتوں سے قربانی کے جانور لیے ہیں۔

ذرا سوچیں کہ ایسی قربانی کرنے سے انہیں کوئی ثواب اور اجر ملے گا؟ اجر و ثواب اسی صورت ملنے کی امید رکھنی چاہیے جب قربانی حلال کے کمائے پیسوں سے کی جائے اور اس کی اصل روح کو بحال رکھا جائے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

صلاحِ عام ہے یارانِ نکتہ داں کے لیے!۔

Facebook Comments

حال حوال
یہ تحریر بشکریہ حال حوال شائع کی جا رہی ہے۔ "مکالمہ" اور "حال حوال" ایک دوسرے پر شائع ہونے والی اچھی تحاریر اپنے قارئین کیلیے مشترکہ شائع کریں گے تاکہ بلوچستان کے دوستوں کے مسائل، خیالات اور فکر سے باقی قوموں کو بھی آگاہی ہو۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply