یہ جو سیاست گردی ہے اس کے پیچھے وردی ہے۔۔۔عزیز خان

محکمہ پولیس کی بربادی کی داستان شاید نوا ز شریف کے وزیراعلی بننےکے ساتھ ہی شروع ہوگئی تھی ۔اس سے پہلے پولیس میں کبھی سیاسی مداخلت نہ سنی جاتی تھی ۔میں اور میرے دیگر بیج میٹ جن کی بھرتی 1980سے 1985تک ہوئی وہ بغیر کسی سیاسی سفارش کے تھیں۔جس میں میرٹ کو مدنظر رکھا گیا تھا ۔نومبر1988کے الیکشن میں بطور ASI تھانہ لیاقت پورتعینات تھا اس الیکشن میں ایک آزاد امیدوار MPAبن گئے الیکشن کے دن ہی حکم ملا کہ MPAکو فوری طور پر لاہور بھجوانا ہے پھر وہی کیا جو کرنا تھا یعنی تعمیل حکم ۔

پھر چھانگا مانگا کی سیاست شروع ہوئی MPA’sکو خریدا گیا انھیں جانوروں کی طرح بسوں میں بھر کر اسمبلی ہال لایا گیااور اس طرح نواز شریف پنجاب کے وزیراعلی بن گئے ۔مرکز میں پیپلز پارٹی کی حکومت تھی اور بے نظیر بھٹو وزیراعظم تھیں۔مگر نوازشریف کی آنکھیں وزیراعظم کی کرسی پر تھیں اور پھر ہوئی سیاسی اکھاڑ پچھاڑ۔ MPA’sنواز شریف کی آنکھوں کا تار اتھے۔نائب تحصیلدار ASIکی سیٹیں سیاستدانوں میں بانٹی گئیں ان میں سے کچھ نے یہ سیٹیں بیچیں اور کچھ نے اپنے رشتہ داروں میں تقسیم کیں۔لاہور میں تو کمال ہوگیا۔بہت سے جرائم پیشہ ،ریکارڈ یافتہ نوجوان بھی محکمہ پولیس میں بھرتی ہوگئے ۔اس سے پہلے پورے پاکستان سے ٹرینگ کے لیے پولیس افسران سہالہ آیا کرتے تھے ۔سندھ ، آزاد کشمیر، بلوچستان ، صوبہ سرحد موجودہ KPKاور پنجاب کے بھرتی شدہ پولیس ملازمین سہالہ میں ہی ٹرینگ کرتے تھے۔

سہالہ میں بھی پیپلز پارٹی کے سندھ سے آئے ہوئے پولیس ملازمین جن کی بھرتی بھی سیاسی طور پر ہوئی تھی اور پنجاب کے مسلم لیگ ن کے بھرتی شدہ پولیس ملازمین میں ہاتھا پائی ہوئی ۔ایک دوسرے کے خلاف نعرے بازی کی گئی اور پھر سندھ کے پولیس ملازمین کا داخلہ سہالہ میں ممنوع قرار دے دیا گیا ۔ اب یہ ملازمین شداد پور اور دیگر جگہ ٹرینگ کرتے ہیں۔

نوازشریف حکومت نے محکمہ پولیس پر ایک اورمہربانی کی اور 1993میں براہ راست انسپکٹرز بھرتی کر لیے گئے ۔اسی طرح 1995 اور 1998 میں بڑی تعداد میں براہ راست انسپکٹرز بھرتی کیے گئے ۔یہ سارے انسپکٹرز اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے جن میں ڈاکٹر، انجنئیرز اور M.A پاس بھی تھے۔ان کو PSP کلاس کے توڑ کے لیے بھرتی کیا گیا تھا پلان یہ تھا کہ ان کی بطور Dsp فوری ترقیاں کر کے پنجاب میں لگایا جائے گا اور پھر Sp بنا کر Dpo لگا دیا جائے گا۔
(مگر اللہ کو کُچھ اور منظور تھا پرویز مشرم کے مارشل لا نے نواز حکومت کا خواب پورا نہ ہونے دیا )

ان انسپکٹرز کو فوری بعد تھانوں پر SHOلگایاگیا مگر ان میں سے چند ایک کے سوا باقی انسپکٹرز بطور SHOناکام ثابت ہوئے۔
اب پولیس کے محکمہ میں پانچ قسم کی بھرتیاں ہو رہی تھیں۔پہلی بھرتی وہ کانسٹیبل جو بھرتی ہو کر انسپکٹر تک ترقی پاتے   تھے،ان میں سے کچھ DSPبھی بن جاتے تھے ۔دوسری بھرتی جو ASIپروبیشنرز کی تھی جو ترقی کرتے ہوئے DSPتک جاتے تھے ان میں کچھ SPبھی بن جاتے تھے۔ تیسری بھرتی براہ راست انسپکٹرز کی تھی جن کی ترقی کے بارے میں کوئی قانون نہیں بنایا گیا تھا کہ ان کا مخصوص کوٹہ ہوگا یا ان کی سنیارٹی باقی محکمہ پولیس کے ساتھ ہوگی ۔ چوتھی بھرتی براہ راست DSP’sجو زیادہ تر سندھ ، بلوچستان ،KPKمیں وڈیروں کے بیٹوں یا رشتہ داروں کوخوش کرنے کے لیے کی جاتی تھی اور پانچوںPSPاے ایس پی کی تھی جو چار سال میں SPترقی یاب ہوجاتے تھے کیونکہ یہ وفاق کے ملازم ہوتے ہیں ان کی ترقی میں کبھی کوئی رکاوٹ نہیں ہوتی انھیں عرف عام میں نوری مخلوق بھی کہا جاتاہے۔

پھر یہاں سے شروع ہوئی محکمہ پولیس میں براہ راست انسپکٹرز اور ASI’sکے درمیان سنیارٹی کی جنگ اس جنگ نے پورے محکمہ پولیس کو برباد کر دیا۔سیاسی بھرتیوں ،سیاسی تعیناتیوں نے رہی سہی کسرپوری کردی ۔کچھ پولیس ملازمین نے سفارش اور عدالتی احکامات کیساتھ انعامیہ اور آؤٹ آف ٹرن پرموشن بھی لیں۔اس میں کھلاڑیوں نے بھی خوب مزے کیے۔ہمارے ساتھ بھرتی ہونے والے والی بال کے ایک کھلاڑی جو آج کل ایک ضلع کے DPOہیں 1985میں ہی انسپکٹرہو گئے تھے جبکہ ہمارا بیج 1987میں سب انسپکٹر پروموٹ ہوا تھا ۔ڈائریکٹ انسپکٹرز اور ASIرینکرز کی عدالتی جنگ میں جیت ڈائریکٹ انسپکٹرز کی ہوئی تما م سابقہ سنیارٹی لسٹ ختم کردی گئی اور پھر نئے سرے سے بننے والی سنیارٹی لسٹ میں ڈائریکٹ انسپکٹرز اوپر آگئے جن میں1993اور 1995 کے تما م انسپکٹرز اب SPہیں جبکہ 1998 کے سارے انسپکٹرز DSPہیں۔اس جنگ نے پولیس ملازمین کے دلوں میں ایک دوسرے کے خلاف نفرت بھر دی۔

ن لیگ کی حکومت نے ایک نئی پالیسی بنا دی جس میں ڈائریکٹ سب انسپکٹرز بھی پبلک سروس کمیشن کے ذریعے بھرتی کیے جانے لگے ۔ان سے پہلے کے T/ASI’s پبلک سروس کمیشن کے ذریعے ہی بھرتی کیے گئے تھے اُن کی ترقی رک گئی ۔اس وقت محکمہ پولیس میں ترقی کاکوئی فارمولا نہ ہے ۔بارہ ،بارہ سال سے ASI’sترقی یاب نہیں ہو رہے اسی طرح سب انسپکٹرز سے انسپکٹرز کی ترقی بھی رکی ہوئی ہے۔ بر وقت پروموشن نہ ہونا جونئیر کا سینئر ہو جانا بھی محکموں کی بربادی کا سبب بنتا ہے پروموشن نہ ہونے سے اکثر پولیس ملازمین کام میں دلچسپی نہیں لیتے سزا کا خوف بھی اُن کا کُچھ نہیں بگاڑ سکتا حالانکہ پولیس رولز میں محکمانہ ترقی کا سارا باب موجود ہے مگر اُس پر عمل نہیں کیا جاتا۔

پسند ناپسند اور اقربا پروری نے بھی اس محکمہ کا بیڑا غرق کیا ،کماؤ پوت والا فارمولا سب سے زیادہ خطرناک ثابت ہوا جو ملازم SHO کو زیادہ کما کر دے گا اُس کی آنکھ کا تارا ہو گا اسی طرح Dsp کے لیے کماؤ SHO اہمیت کا حامل ہوتا ہے اور کماؤ Dsp اپنے Sp کی خدمت کرتا ہے۔

ڈی پی او ، ڈی آئی جی اور باقی افسران کے لیے تو فنڈز ہی کافی ہیں جو اکاونٹنٹ اور ایم ٹی انچارج سے مل کر کھائے جاتے ہیں۔پروموشن کے اس سسٹم میں رینکر Sp گریڈ 19 میں آسانی سے ترقی یافتہ نہیں ہوسکتا چاہے اُس کا ریکارڈ کتنا اچھا کیوں نہ ہو،بلوچستان بھیجے جانے کے خوف سے نئے رینکرز SP,s کو PSP کیڈر دے دیا گیا ہے کہ ان کو بلوچستان بھجوایا جا سکے اور محکمہ کے لیے قربانی دے سکیں۔

شہباز شریف کی حکومت میں پوسٹنگ کے لیے MPA یا MNA کی سفارش ضروری تھی مگر اس حکومت نے تو کمال کردیا اب آئی جی سے لے کر کانسٹیبل تک تمام اپنا زیادہ وقت حکمرانوں کی خوشامد میں گُزارتے ہیں

Sho , Dsp ,Dpo ,Rpo کوئی بھی ایسی پوسٹنگ نہ ہے جو بغیر سیا سی سفارش کے ہو،گورنس کا جتنا فقدان عثمان بُزدار کی حکومت میں نظر آیا کبھی بھی نہیں دیکھا، تھانوں میں کرپشن عام ہے بغیر پیسوں کے FIR درج نہیں ہو سکتی ہر ملازم کو یقین ہے کہ اُس کا کوئی کُچھ نہیں بگاڑ سکتا اگر کُچھ ہوا بھی تو وہ سفارش سے بچ جائیں گے۔

Advertisements
julia rana solicitors

نواز شریف حکومت میں سیاسی بھرتی اور کرپشن کا جو بیج بویا گیا تھا اب وہ تنا ور درخت بن چکا ہے جسے عمران خان کی حکومت میں عثمان بُزدار مزید پروان چڑھا رہے ہیں پتا نہیں یہ مزید کتنا بڑا ہوگا ؟ پولیس کے ذریعے اپنی حکمرانی قائم رکھنے کی آرزو میں اگر مُلک اور قوم برباد ہو بھی جائے تو کیا قرق پڑتا ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply