تعلق کی ڈور۔۔۔ندیم رزاق کھوہارا

کرّہ ارض کا سب سے بڑا گرم اور خشک ترین مقام صحارا کا ریگستان ہے۔ جہاں لاکھوں کلومیٹر تک ریت ہی ریت بچھی ہے۔ کئی کئی دن سفر کرنے کے بعد بھی سبزے یا نمی کا ایک قطرہ نظر نہیں آتا۔ حیات اتنی مفقود ہے کہ کہیں کوئی زندہ جانور نظر آئے تو وہ بھی بے جان ریت ہی کا ایک حصہ معلوم ہوتا ہے۔

دوسری جانب زمین کا سرسبز اور مرطوب ترین مقام ایمیزون کا جنگل ہے۔ دنیا کے نو ممالک پر پھیلا یہ جنگل اتنا وسیع و عریض اور متنوع نباتات کا حامل ہے کہ اسے کرہ ارض کے پھیپھڑے بھی کہا جاتا ہے۔ یہاں ہونے والی بارشیں دنیا کے سب سے بڑے دریاؤں میں سے ایک یعنی دریائے ایمیزون کو تشکیل دیتی ہیں۔

گویا ایک جانب سبزے، پانی اور حیاتیات کی بہتات ہے  تو دوسری جانب گرمی، خشکی اور جمادات کا راج۔۔۔۔ ایک جانب زندگی ہی زندگی ہے تو دوسری جانب بے جان ریت ہی ریت۔۔۔۔ یہ دونوں مقامات زمین کے دو مختلف براعظموں پر واقع ہیں۔ ان کا آپسی فاصلہ اڑھائی ہزار کلومیٹر سے بھی زائد ہے۔ لیکن اس کے باوجود ان کا آپس میں بہت ہی گہرا تعلق ہے۔ یہ ایک دوسرے کے لیے اتنے ہی لازم و ملزوم ہیں جتنے کہ میں اور آپ، ایک دوسرے کے لیے۔۔۔۔بظاہر میرا اور آپ کا کوئی تعلق نہیں۔ لیکن مجھ سے شاید سینکڑوں کلومیٹر دور آپ اس تحریر کو پڑھ رہے ہیں اور میں آپ کے لیے لکھ رہا ہوں تو ہمارے درمیان ایک خاص تعلق قائم ہے۔ ایک ایسا تعلق جس کے بغیر نا آپ رہ سکتے ہیں نا میں۔۔۔ اس تعلق کی نوعیت مختلف ہو سکتی ہے۔ لیکن ہم سب کسی نا کسی دھاگے سے آپس میں ضرور جڑے ہیں۔ مزید تفصیل میں جائے بغیر واپس اصل موضوع پر آتے ہیں۔

میں بتا رہا تھا کہ صحارا کے ریگستانوں اور ایمیزون کے جنگلات میں فطرت، فاصلے اور مظاہر میں بے پناہ فرق ہونے کے باوجود دونوں آپس میں ایک گہرے تعلق سے جڑے ہیں۔ یہ تعلق ہے خوراک کا۔۔۔۔ جی ہاں، دنیا کا سب سے بڑا صحرا دنیا کے سب سے بڑے جنگل کو خوراک مہیا کرتا ہے۔ بے جان ریت اپنے سے ہزاروں کلومیٹر دور موجود حیات کو زندہ رہنے کا سامان مہیا کرتی ہے۔

ایمیزون میں ہونے والی موسلادھار بارشوں سے ہر سال اس کی مٹی آسمان سے گرنے والے پانی کے ساتھ بہہ کر سمندر برد ہو جاتی ہے۔ یہ وہ مٹی ہوتی ہے جس میں موجود نمکیات اور غذائی اجزاء جنگل کی نباتاتی حیات کے لیے بہت ضروری ہوتے ہیں۔ لیکن بڑی مقدار میں مٹی کے بہ جانے سے یہ اجزاء نایاب ہونے کا خدشہ پیدا ہو جاتا ہے۔ نتیجہ ہریاول کی کمی اور پھر اس ہریاول کو تناول کرنے والے چرند پرند درند کی معدومی۔۔۔۔ لیکن ٹھہریے جناب۔۔۔۔۔ نظامِ ہستی اتنا سادہ و کمزور نہیں۔

اس کمی کو پورا کرنے کے لیے ہر سال صحارا سے کروڑوں ٹن ریت اور مٹی اٹھتی ہے۔ ہزاروں کلومیٹر کا سفر طے کرتی ہے۔ بحر اوقیانوس کے پانیوں سے اوپر ہی اوپر فضاؤں میں تیرتی ہے۔ ایک براعظم سے دوسرے براعظم تک پہنچتی ہے۔ اور ایمیزون کے جنگلات کی تہہ میں آ کر بچھ جاتی ہے۔

صحارا کا ریگستان کسی زمانے میں سمندر ہوا کرتا تھا۔ لیکن پھر آہستہ آہستہ خشک ہوتا گیا۔ اس لیے اس کی تہہ میں موجود ریت میں بے بہا اقسام کی خوردبینی حیات اور فوسلز وغیرہ اپنے اندر نمکیات، غذائی اجزاء، اور فاسفورس کی بہت بڑی مقدار رکھتے ہیں۔ یہ ریت جب جنگلات میں آ کر بچھتی ہے تو یہی اجزاء ایمیزون کی حیات کے لیے غذا کا کام دیتے ہیں۔ یوں ایک صحرا، ایک جنگل کو خوراک مہیا کرتا ہے۔ جینے کا سامان فراہم کرتا ہے۔

ایک اندازے کے مطابق سالانہ 28 ملین ٹن ریت ہواؤں کے دوش پر صحرا سے جنگل تک پہنچتی ہے اور جنگل میں منگل کر دیتی ہے۔ اس بات سے قطع نظر کہ وہ کون سے فطری یا طبیعی عوامل ہیں جو ریگستانوں کو کھیت کھلیان سے جوڑ دیتے ہیں۔۔۔۔۔ یہ سوچیے کہ وہ کون سی قوت ہے جو صحرا کو یہ بتاتی ہے کہ جاؤ اور فلاں جنگل کو اپنی طاقت فراہم کر کے آؤ کیونکہ وہ تم بن ادھورا ہے۔ اس کا جیا جانا مشکل ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

میں کسی جانب اشارہ نہیں کرتا۔ نتیجے کو آپ کی سوچ کے دھاروں پر چھوڑتا ہوں۔ لیکن اتنا عرض کرتا چلوں کہ اس دنیا میں ہم سب کہیں نا کہیں، کسی نا کسی شکل میں، کسی نا کسی صورت ایک ڈور سے بندھے ہیں۔ ہم سب کا نظامِ زندگی ایک دوسرے سے ہی مشروط ہے۔ اگر آپ تحریر کے اس موڑ پر پہنچ آئے ہیں تو کسی خاص مقصد اور لگن کی وجہ سے۔۔۔ اسی مقصد اور لگن نے مجھے یہ مجبور کیا ہے کہ میں اسے لکھوں۔ ہمارے درمیان بھی ایک تعلق ہے۔ ہر ذی روح ایک تعلق سے جڑا ہے۔ نوعیت مختلف ہو سکتی ہے لیکن تعلق کی یہ ڈور پوشیدہ طور پر ہر جگہ قائم ہے۔ اور اس کا سرا کسی نا کسی طاقت کے ہاتھ میں ہے۔

Facebook Comments

ندیم رزاق کھوہارا
اردو زبان، سائنس، فطرت، احساس، کہانی بس یہی میری دنیا ہے۔۔۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply