سفر نامہ: شام امن سے جنگ تک۔۔۔ حلب سے روانگی/سلمٰی اعوان۔قسط19

مراۃ النعمان میں چند گھنٹے!
خدا بھی کیسا مہربان اوررحیم ہے۔ علی نے صبح ناشتے پر بتا دیا تھا کہ فوراً نکلنا ہے اِس کی خواہش ہے کہ ہم راستے میں آنے والے اہم مقامات دیکھتے چلیں۔
میرا اندر تو جیسے پھول کی طرح کھِل گیا تھا۔
”ہائے علی جیتے رہو۔ کتنا بڑا احسان کر رہے ہو۔“
وہ ہنستے ہوئے بولا۔
”آپ پر تھوڑا لیکن خود پر زیادہ۔“
پر جب اُس نے ادلیبAdleb، صلاح الدین سٹیڈیل، لاطاکیاLattakia، پھر حماHama، حمصHoms،ابو العلا المعریٰ اور عمر بن عبد العزیز کے مزارات پر جانے کاذکر کیا۔فاطمہ کو تو جیسے پتنگے سے لگ گئے۔ بولنے کی تو اُسے یوں بھی بیماری تھی۔ بات ا بھی علی کے منہ سے بس ختم ہی ہوئی تھی جب اس نے اپنا مشوروں والا پٹارہ کھول دیا۔
”اِن چھوٹے موٹے شہروں کو چھوڑو۔ وقت ضائع کیوں کریں؟ حمص میں پڑاؤ کرتے ہیں۔ خالد بن ولید کے مزار پر کچھ وقت گزاریں گے۔“
”تمہیں اگر کسی بات کا پتہ نہیں تو چپ رہو۔ میری مینجر سے رات تفصیلی بات ہوئی ہے۔ یہ سب راستے میں ہی تو ہیں۔ کوئی ایک آدھ جگہ بس تھوڑا سا مرکزی شاہراہ سے ہٹ کر ہے۔“
فاطمہ نے جواباً ٹر ٹر کرنے کی کوشش نہ کی۔ شوہر کی مزاج آشنا تھی۔ ہاں البتہ تھو بڑا سا منہ ضرور بنا لیا۔
جی چاہا کہوں فاطمہ تیرا چہرہ بڑا پیارا سا ہے۔یونہی تو نے غصہ بھر لیا ہے اِس میں۔ ذرا اچھا نہیں لگ رہا۔اور تم کیا عمر بن عبد العزیز کے مزار پر حاضری دینا نہ چاہو گی؟اتنی بڑی ہستی۔ عمرابن خطاب کا پڑپوتا۔ ان کے اوصاف کا کچھ حصہ لئے ہوئے۔ اور ہاں ابو العلا المعریٰ، حلب کا کلاسیکل انقلابی شاعر۔یہ تو سچی بات ہے تحفہ دیکھنے کو ملے گا۔ چلوتھوکو غصے کو۔ ایسا پیار کرنے والا شوہر ساتھ ہے۔ ماں جیسی ایک عورت جو سیر سپاٹوں کی حد سے زیادہ شوقین ہے جس کی من کی مراد بن کہے پوری ہو رہی ہے۔ دعائیں لو اس کی اور سیر سپاٹے کی اِس نعمت سے لطف اٹھاؤ۔
نسرین کی طرف دیکھا۔وہاں نہ خوشگواری تھی اور نہ ہی بیزاری کا کوئی عنصر تھا۔ وہ تو جانے کن سوچوں میں گم تھی۔ میں نے چہرہ باہر کی طرف کر لیا۔ سچی بات ہے میں تو ٹھنڈی ٹھار مزے میں تھی۔ مجھے کیا چاہیے تھا۔ میرا تو حال پانچوں گھی میں اورسر کڑاہی میں جیسا تھا۔
دفعتاً نسرین کی تجسس وحیرت میں ڈوبی آواز نے گاڑی کے ماحول میں ارتعاش سا پیدا کیا۔
”ارے بھئی یہ وہی المعریٰ تو نہیں جس کا علا مہ اقبا ل نے بال جبرائیل میں ذکر کیا ہے؟ مجھے یاد آئی ہے ابو العلا المعریٰ کے عنوان سے اس کی نظم۔ ساتھ ہی نسرین نے پڑھنی بھی شروع کر دی تھی۔
کہتے ہیں گوشت نہ کھاتا تھا معریٰ
پھل پھول پر کرتا تھا ہمیشہ گزر اوقات
اِک دوست نے بھونا ہوا تیتر اُسے بھیجا
شاید کہ وہ تیتر اسی ترکیب سے ہو مات
یہ خوانِ تروتازہ معریٰ نے جو دیکھا
کہنے لگا وہ صاحب ِ غفران ولزومات
اے مرغکِ بیچارہ ذرا یہ تو بتاتو
تیر ا وہ گناہ کیا تھا جس کی مکافات؟
افسوس صد افسوس شاہیں نہ بنا تو
دیکھے نہ تری آنکھ نے فطرت کے اشارات!
تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات!


سچی بات ہے مجھے تو نظم کا قطعی علم نہ تھا۔المعریٰ کا یوں نام سن رکھا تھا۔ جانتی وانتی کچھ نہیں تھی۔ ہم تینوں تو اِس معاملے میں کورے ہی تھے۔ اقبالیات کی عاشق اگر کسی چیز کے بارے میں کچھ کہتی تھی تو یقیناً  درست ہی ہوگا۔
بہر حال کوئی ساٹھ کلومیٹر پر مرکزی شاہراہ سے کچھ ہٹ کر پہاڑیوں میں گھرا ہرا بھرا بحیرہ روم کی ہواؤں میں لپٹا ادلیبAdleb دیکھنے کو ملا۔ کھیتوں اور باغوں میں جا بجا کہیں پلاسٹک کہیں پولیتھین کی چادریں اور کہیں اس کے شیڈ موسمی سبزیوں اور پھلوں کو بچانے کے لئے چھاؤں کرتے نظر آتے تھے۔ کیا بات تھی شہر کی۔اتنا خوبصورت کہ جتنا جھوٹ بول لو۔ ہری کچور فصلوں میں لہلہلاتا، مسکراتا، سارے شام کو دانہ دنکا دینے کا اعزاز سمیٹے بہت ہی اچھا لگاتھا۔ داڑھیوں اور برقعو ں کی بہتات نظر آئی تھی۔ گائیں بھی نظر پڑیں۔
گاڑی روک کر شبیر نے راہگیر سے ابو العلیٰ المعریٰ اور عمر بن عبد العزیزکے مزارات کا پوچھا۔
راہگیر نوجوان سا لڑکا تھا۔ اس نے معرۃ النعمان جگہ کے بارے بتایا۔المعریٰ کا مزار وہاں سے کچھ ہی دور تھا۔ عمر بن عبد العزیز کے روضے کے علاوہ وہاں ایک میوزیم بھی ہے جانا تھا۔
المعریٰ کے بارے ہمیں علی سے پتہ چلاتھا کہ ملحد شاعر تھا۔ عمر بن عبد العزیز امیہ خاندان سے تھے۔ یہاں مجھے علی کے لب ولہجے میں خفیف سا بھی مسلکی اختلاف محسوس نہیں ہوا تھا۔ علی بڑی لبرل سوچ کا حامل اور مزے کا بند ہ تھا۔ اس نے ہوٹل کے مینجر سے المعریٰ کے بارے کافی کچھ سنا تھا۔ یہی تھوڑا بہت اُس نے ہمارے ساتھ بھی شیئر کیا۔
میں نے بند شیشے سے باہر دیکھا تھا۔

یوں لگتا تھا جیسے مٹیالے آسما ن سے سیال سونے کی آبشار سبک خرامی سے بہتی ہوئی اُن جگہوں کو نہال کر رہی تھی جس کا مضافاتی قصبہ معرۃ النعمان کے نام کا بورڈ اٹھائے ہوئے تھا۔ سڑک کے کنارے نصب بورڈدیکھ کر ڈرائیور نے گاڑی کی رفتا ر کم کرکے اُسے اندر جانے والے راستے پر موڑ دیا تھا۔
راستے کے دونو ں اطراف دور تک پھیلے ویرانوں میں زیتون کے پیڑوں، جنگلی درختوں، خاکستری چٹانوں اور کہیں کہیں کھنڈرات کو دیکھتے ہوئے میں سوچے چلی جاتی تھی کہ شام تاریخی اور ثقافتی لحاظ سے کس قدر امیر ہے۔ دور افتاد ہ جگہیں بھی خزانے چھپائے بیٹھی ہیں۔
معرۃ النعمان کچھ جدید اور کچھ قدامت کا رنگ وروپ لئے مرکزی شاہراہ سے ہٹ کر قصبہ نما شہر تھا۔ بازار میں زندگی کی رونقیں پورے عروج پر تھیں۔ عورتیں آزادانہ گھومتی پھرتی تھیں۔تاہم اکثریت سیاہ میکسی نما گاؤن اورحجاب میں ملبوس تھیں۔ داڑھیوں اور کلین شیو مردپتلون قمیضوں میں اور کہیں توپ پہنے گھومتے پھرتے تھے۔ سرخ وسفید پھولی پھولی گالوں والے من موہنے سے بچے ماؤں کے ساتھ چلتے پھرتے پیارے لگے تھے۔ سبزی، پھلوں، کھلونوں اور کپڑ ے کی دکانیں رنگوں کی برسات میں لتھڑی پڑی تھیں۔ کچھ پھلوں سبزیوں کے مانوس چہرے اور کچھ نامانوس سے تھے۔ جی چاہتا تھایہاں رکیں۔ کچھ خریدیں،نامانوس چہروں کے نام پوچھیں۔مگرسچی بات ہے علی سے ڈر لگتا تھا۔

شہر شاعر سے محبت کرتا محسوس ہوتا تھا۔ کئی خوبصورت جگہوں اور پارکوں میں رومن آرٹ کے شاہکار پیڈسٹل پر سجے اُس کے مجسمے نظر آئے تھے۔پھر گاڑی مختلف گلیوں کے موڑ کاٹتی ایک عمارت کے سامنے رُ ک گئی۔ محرابی صورت لمبا سا برآمدہ جس کے سامنے آنگن میں پتھر کے پیڈسٹل پر اپنے وقت کا عظیم فلسفی شاعر اپنے دونوں بازو لپیٹے بیٹھا تھا۔ کچھ دیر کھڑی دیکھتی رہی۔ گھنی داڑھی اور بے نور آنکھوں والا جس کا دماغ ذہانت سے مالا مال تھا۔

فاتحہ پڑھی۔ دعائے خیر کی۔ شاعر کے بار ے کچھ مزید جان کاری ہوئی کہ دانتے نے ڈیوائن کومیڈی اسی شاعر سے متاثر ہو کر لکھی تھی۔عمر خیام بھی شاعر سے بہت عقیدت رکھتا تھا۔ دعائے خیر مانگنے کے بعد بھی وہیں بیٹھی تھی۔
پچیس جولائی 2008ء کی مرۃ النعمان کی روشن سی صبح جو میری یادوں کی پتلیوں میں میری ڈائری کے صفحات پراپنی تفصیلات کے ساتھ قید تھیں۔ اوراِس وقت دھیر ے دھیرے وہاں سے نکل کر میرے سامنے بکھرے سفید کاغذوں پر تصویریں بنا رہی تھیں۔
دفعتاً میں نے لکھتے لکھتے سراٹھایا۔ مرۃالنعمان کی اُس دنیا سے اپنے گھر اور اپنے کمرے کی دنیا میں آئی کہ مارچ2013ء کی کچھ قدرے ٹھنڈی کچھ قدرے گرم سی سہ پہر کو خادمہ نے چائے کی چھوٹی سی ٹرے میرے سامنے رکھ دی ہے۔ مہکتی خوشبو سے بے حال کرتی چائے کا گھونٹ لیتے ہوئے اپنے مزاج کے برعکس کہ چائے کو بس ہمیشہ لطف وسکون سے پینے کی کوشش کرتی ہوں یونہی کمپیوٹر آن کر لیا۔ میل باکس کو چیک کیا۔ ڈاکٹر ہدا کی میل منتظر تھی۔
”اُف“۔
جیسے میری چائے میں زہر گھل گیاتھا۔ میں پڑھتی تھی اوردیکھتی تھی اُس عظیم شاعر کو اُسی خوبصورت پارک میں اُسی پیڈسٹل پربیٹھے ہوئے مگر کیسے؟ بغیر سر کے۔
وہ جو علم وآگہی کا پیکر تھا۔ جس کی سوچ اور فکر اپنے وقت سے صدیوں آگے کی تھی۔ وہ گیارھویں صدی کا شاعر کب تھا؟ وہ تو بیسوی اکیسیویں صدی کا شاعر ہے۔ جو انسان کو آزاد دیکھنے کامتمنی تھا۔ سٹر انڈمارتے روایتی معاشروں سے کہیں بالا اپنی سوچوں میں خود مختار اور اپنے اظہار میں بے باک۔
ڈاکٹر ہدالکھتی ہے۔

”تنگ نظری اور تعصب کے زہر نے انسان کے اندر کی معصومانہ انسانیت کو نگل لیا ہے۔ انہیں وحشی بنا دیا ہے۔ ہاتھ میں بندوقیں اورہتھوڑے پکڑا دئیے ہیں۔ اُن کے چھوٹے ذہنوں نے اس کا بڑا ذہن توڑ دیا ہے۔
سلمیٰ آپ کے الفاظ مجھے یاد آتے ہیں۔ آپ کی شاعر کے لئے مرعوبیت۔ شام کتنا خوش قسمت ہے۔ اس کی ذات کے کتنے حوالے ہیں۔ ٹھوس اور جاندار۔ اب یہ رُخ بھی دیکھ لیں۔
میں نے نصرہ ال فرنٹ کے لوگوں سے پوچھا ہے۔ سر توڑ کر تم خود کو طرّم خان سمجھتے ہو۔ بڑا معرکہ مارا ہے تم جاہلوں نے۔ مگر اس کا سر صدیوں پہلے جو لوگوں کو دے گیا تھا۔ اس کا کیا کروگے؟ افسوس کہ اس تک توتمہاری رسائی نہیں۔
ہاں تم لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ اسد فیملی کے آباؤ اجدا د میں سے ہے جو خاندان صدیوں سے بدعتی چلا آرہا ہے۔ چلو شکر تم نے سر توڑ کر بنیاد پرست مسلمان ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے خود پر جنت کے دروازے کھولنے کا سر ٹیفکیٹ حاصل کر لیا ہے۔
ڈاکٹر ہدا نے تو اپنے پھپھولے پھوڑ لئے تھے پر میں کیا کرتی؟ میرا ملک بھی تو ایسے ہی ننگ انسانیت لوگوں کے ہاتھوں یرغمال ہوا پڑا ہے۔
مگر چند دنوں بعد عرب رائٹرز یونین کے احمدعلی ال سیگا کی ای میل نے واقعے کی دوسرے رنگ میں تصویر کشی کی۔
اگر میں اپنے خیالات واحساسات اور سوچ کا تجزیہ کروں تو کہنا پڑے گا کہ بت شکنی کا یہ انداز اور طریقہ کار ماڈرن سیریا کے ثقافتی وتہذیبی ورثے کی تباہی سے کہیں زیادہ اُس فکر ونظر سے متصادم ہے جہاں ماڈرن عرب دنیا جدّت اور قدامت کی نظریاتی کشکمش میں گھری نظر آتی ہے۔ یہ منظر مجھے دھکیل کر انقلاب فرانس کے اُن دنوں میں لے گیا ہے۔ جہاں عوام نے مذہبی شخصیات کے مجسموں کے سر توڑ دیئے تھے۔
مجھے لگتا ہے کہ اسی طرح کی ایک اور سٹیج سیٹ ہوگئی ہے۔ ایک جانب انتہا پسندی کی حامل قوتیں میانہ روی اور اعتدال کے راستوں پر چلنے سے انکاری ہیں اور مسلسل شکاری کتوں جیسے طرز عمل سے ا س کا تیا پانچہ کرنے پر تلی ہوئی ہیں۔ دوسری جانب قرون وسطیٰ کی سی سوچ رکھنے والے ایک معتدل آزاد خیال معاشرے کے متمنی ہیں۔ تیسر ی جانب ماڈرن انتہا پسند اپنے راگ الاپ رہے ہیں۔
اس کی موت کے ایک ہزار سال کے بعد اس کی جس انداز میں گردن زنی ہوئی اس نے سوال اٹھایا ہے کہ یہ کیا بیسویں صدی کے ادبی حلقوں کے آپس کے تنازعات کا کہیں شاخسانہ تو نہیں۔

میں نے لکھنا بند کر دیا تھا۔ دل بڑا بوجھل ساتھا۔ شب کے کسی پہر اٹھی اور دوبارہ معرۃ النعمان پہنچی۔ کہ جب اُس کی تربت گاہ پر کسی جذب کے سے عالم میں بیٹھی تھی۔
آنکھیں ہنو زبند تھیں۔ پھر بہت ساری ذاتی دعائیں اوپر والے کے حضور بھیج کر فارغ ہوئی تو جانی کہ وہاں میرے سوا اور کوئی نہیں۔ باہر آکر دیکھا ڈرائیور کچھ ملتجی سی صورت بنائے کھڑا تھا۔ پتہ چلا تھا کہ اُس نے علی سے ایک گھنٹے کی اجازت طلب کی ہے۔
”کیوں بھئی خیریت؟“ وہ پوچھ رہا تھا۔
”میری بہن یہاں رہتی ہے۔ بس کھڑے کھڑے اُسے دیکھنے کی اجازت چاہتا ہوں۔“
فاطمہ کو ایسا موقع اللہ دے۔
”تو اب سمجھ آئی یہ معرۃ النعمان کے لئے کیوں مرا جا رہا تھا؟“

”اگر آپ چاہیں تو یہاں سے کچھ زیادہ دور نہیں بہت شاندار الماآرا میوزیم ہے۔ آپ کو لئے چلتا ہوں۔ بڑی تاریخی حیثیت ہے اس کی۔ آپ اُسے دیکھ لیں۔اس دوران میں بھی بہن سے مل آؤں گا۔“
ڈرائیور لڑکے نے فاطمہ کے لال پیلے چہرے کو نارمل کرنے کی کوشش کرتے ہوئے پیش کش کی۔ تاہم علی نے نرمی سے کہا۔
”چلو چھوڑو۔ ہم لائبریری میں چل کر بیٹھتے ہیں۔ کتابیں دیکھتے ہیں۔ کوئی بات چیت کرنے والا ملا تو شاید ہمارے علم میں کچھ اضافہ ہی ہو۔مگر ہاں گھنٹے سے زیادہ وقت نہیں لینا۔“
لائبریری کتابوں سے بھری ہوئی تھی اور مزے کی بات کہ لائبریرین سلمان سکور بھی اظہار خیال میں منہ پھٹ ہتھ چھٹ ٹائپ کا تھا۔ شاعر بارے ابھی کچھ جاننے کے لئے منہ کھولا ہی تھا کہ اُس نے جیسے رٹو طوطے کی طرح بولنا شروع کر دیا تھا۔

”بہت منفرد اور بڑا شاعر ہی نہ تھا، فلاسفر تھا، لکھاری تھا۔ مگر سب سے بڑھ کر لادینیت کی دنیا کا وہ ایک ایسا شہسوار تھا کہ جس نے قد م قدم پر متنازعہ امور پر بحث ومباحثے کے دروازے کھولے۔اُس نے مذہبی عقائد کو لتاڑا۔ اسلا م کو ردّ کیا نہ صرف اسلام بلکہ عیسائیت، یہودیت اور مجوسیت سبھوں کو رگید ڈالا۔ اپنے وقت کا سماجی انصاف کا بڑا داعی تھا۔ مگر اِن سب کے باوجود وہ عرب کے عظیم کلاسیکل شعراء میں اہم نام کے طور پر جانا جاتا ہے۔“
فاطمہ کا تو مانو جیسے کسی نے نرخرہ دبا دیا ہو۔ تڑخ کر بولی۔
”ایک تو جس کے پاس کچھ علم آجائے وہ سب سے پہلے مذہب کا تیا پانچہ کرنے بیٹھ جاتا ہے۔ کوئی پوچھے رب بیوقوف تھا جس نے اتنی بڑی دنیا کا سیاپا سہیڑا۔ تو بھئی جب اس نے کائنات بنائی تو مرضی تو اسی کی چلنی تھی نا۔ سو ذہنی، جسمانی اور معاشی فرق سب اس نے اپنی دنیا کا حُسن او ر رونق بڑھانے کے لئے اپنی تخلیق میں بانٹ دئیے۔ یہ اُس کی مخلوق کے کچھ سرپھرے بھی اول درجے کے نمک حرام اُسی کے لتّے لینے لگ جاتے ہیں۔“

علی نے تیکھی آنکھ کا پہلا وار فاطمہ پر کیا۔ دوسری معذرت خواہانہ نظر لائبریرین پر ڈالی جو ادھیڑ عمر کا گورنمنٹ ملازم تھا اور جس نے اپنی ملازمت کا ذکر بڑ ے فخریہ انداز میں کیا تھا۔
”میری بیوی کو بولنے کی بیماری ہے۔ یہ ٹر ٹر نہ کرے تو اِسے کھانا ہضم نہیں ہوتا۔ آپ نے محسوس نہیں کرنا۔ ہم تو زیارت کے لئے آئے تھے۔ ہماری خوش قسمتی کہ آپ جیسے صاحب علم سے ملاقات ہوگئی۔ آپ کاکام بھی حرف اور کتاب سے ہے۔ تو شاعر کے بارے میں کچھ بتائیے۔
سچی بات ہے لگتا تھا۔پیچارہ جیسے ترسا بیٹھا ہے کہ کوئی بولنے کو کہے تو سہی۔شروع ہوگیا۔
پورا نام عرب روایت کے مطابق بڑا لمبا چوڑا ہے۔ ابولاعلیٰ احمد ابن عبد اللہ المعریٰAbul.AlaAl-Maari۔ پیدائش یہی کوئی لگ بھگ وسط دسمبر 973ء اِسی معرۃ النعمان Marrat al Numan میں ہوئی۔ بنو سلیمان مرا کے معزز خاندان کی شاخ تنوخ سے تعلق تھا۔ پیدائشی اندھا نہ تھا۔ چار سال کی عمر میں چیچک جیسی بیماری کا شکار ہوا اور دونوں آنکھوں کے نور سے محروم ہوگیا۔
دیکھ لیجیے صدیوں پہلے بھی یہ قصبہ ایسے ہی آباد تھا۔ یہیں معرۃ النعمان میں ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ ہاں البتہ تعلیمی سلسلے میں کچھ وقت تریپولی اور انطاکیہAnitoch اور شام کے دیگر شہروں میں گزارا، جہاں اُس نے قدیم مسودات اور کتابوں کو زبانی یاد کیا جو وہاں محفوظ تھیں۔
یہیں اُسے اپنے باپ کی وفات کا علم ہوا۔ اپنے دکھ کا اظہار اُس نے ایک مرثیے میں کیا۔والد سے محبت اور اُس کی شخصی خوبیوں کا اعتراف اُ س نے جس انداز میں کیا اُس نے اُسے ایک شہ پارہ بنا دیا۔ بغداد میں بھی کچھ وقت گزاراجو اُس وقت علم وادب اور شعر وفن کا گہوارہ تھا کہ زمانہ عباسیوں کا تھا جو اسلام کا روشن اور سنہری دور خیال کیا جاتا ہے۔
یوں شاعری کا آغاز تو بچپن سے ہی ہوچکا تھا۔ لگ بھگ 1010ء میں سیریا واپسی کی کہ ماں کی صحت بہت خراب رہنے لگی تھی۔ اُس وقت تک وہ شاعری کے ذریعے خاصی شہرت اور عزت حاصل کر چکا تھا۔
اُس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ یاس کا مارا ہوا، قنوطی اورآزادانہ سوچ رکھنے والا مفکر تھا۔ معریٰ اپنے عہد کی ایک متنازعہ عقلیت پسند شخصیت تھی۔ جس کے ہاں سچائی کی دلیل کا سب سے بڑا حوالہ تھا۔ تاہم وہ زندگی اور اُس کے رویوں بابت بہت قنوطی تھا۔
اورساتھ ہی نسرین نے اپنی زبان کھولی۔
”تو بھئی قدرتی بات ہے۔ ایسا ہونا تو فطری ہے۔ میرے خیال میں تو اُس پر یہ تنہائی پسندی اور قنوطیت کا اعتراض لگانا قطعی مناسب نہیں۔چار سال کی عمر میں ایک بچہ شدید بیماری کے ہاتھوں اپنی آنکھیں کھو بیٹھتا ہے۔رنگ وحُسن سے بھری دنیا سے محروم ہو جاتا ہے۔ غربت کے ہاتھوں پروان چڑھتا ہے۔ ماں وہ بھی بیمار۔ اب بھلا وہ قنوطی نہ ہوگا تو اور کیا ہوگا؟“
نسرین نے شاعر کے دفاع میں تقریر کر ڈالی تھی۔
سلمان سکور نے نسرین کی بات کو سراہتے ہوئے اس میں اضافہ کیا۔
”آپ نے بالکل درست کہا۔ خود اُس نے بھی اپنے بارے میں کچھ ایسا ہی کہا ہے کہ وہ دوہرا قید ی ہے۔ ایک اندھے پن کا، دوسرے تنہائی کا۔سبزی خور تھا۔ ایک جگہ لکھتا ہے۔
”ذبح کئے جانور کے گوشت کو کھانے کی کبھی خواہش نہ کرو۔“
”لو یہ نئی بات۔ نرا ہندوؤں کا فلسفہ۔ یہ بوٹی تین دن نہ ملے تو طلب تڑپنے لگتی ہے۔
بے حال کر ڈالتی ہے۔“ فاطمہ نے دھیمی آواز میں ٹکڑا لگایا۔
شادی کرنے اور اولاد پیدا کرنے کے بھی وہ سخت خلاف تھا۔
”بچوں کو دنیا کے مصائب اور آلام بھوگنے کے لئے چھوڑ دو یہ کہاں کا انصاف ہے؟“ وہ کہتا تھا۔
”ہائے زندگی سے مسرتیں کشید کرنے کا فن ہر کسی کو نہیں آتا نا۔ ہائے زندگی کی نعمتوں سے محرومی۔ کتنا بد قسمت تھا؟“ فاطمہ جملے بازی اور چٹکلے چھوڑنے سے باز آہی نہیں سکتی تھی۔
اُف میں نے کوفت سے سوچا ایک تو میری اِن ساتھیوں کو بولنے کی بیماری ہے۔
”تو کچھ کام کے بارے بھی بتا دیں۔“
میں نے سوچا کچھ اِس بارے بھی تھوڑا بہت پتہ چل جائے۔ دمشق سے کتابیں ڈھونڈنے کی بھی کوشش کروں گی۔ ایک تسلی انٹرنیٹ کی بھی تھی۔
سقط الزندSayat.Zand۔ آغاز کی شاعری اِس مجموعے کی بہت سی نظمیں حلب کے معروف لوگوں کی ستائش میں ہیں۔دراصل یہ وہ مجموعہ تھا جس نے اُسے بطور شاعر متعارف کروایا۔ اِس مجموعے نے اُس کی شہرت دور نزدیک پہنچائی۔
دوسرا مجموعہ۔ لزوم مالا یلزم (غیرضرور ی ضرورت) اسے عام طور لزومیات بھی کہتے ہیں۔ یعنی زندگی کو، اس کے طور طریقوں، اس کے چلن اور کاروبار کو المعریٰ نے کیسے دیکھا، محسوس کیا اور برتا؟
اُس کا تیسرا شہرت پانے والا کام نثر کی کتاب رسالتہ الغفرانRisalat-al-ghufran کی صورت میں ہے۔ یہ بھی اُس کی ایک اہم کتاب ہے۔ کہاجاتا ہے کہ اُس کایہ کام عربی کے شاعر ابن ال کراQarih کے مذہبی نظریات کا براہ راست جواب ہے۔ یہاں شاعر جنت کی سیر کرتا ہے۔ اُس کی ملاقات اپنے آباؤ اجداد اور زمانہ
جاہلیت کے شعراء سے ہوتی ہے۔ اسلام کے عقید ہ کے برخلاف جس کے مطابق کہ صرف وہ لوگ جو خدا کو مانتے ہیں وہی نجات کے مستحق ہیں۔
ایک خیال یہ بھی ہے کہ اُس کا کام ابن شہدIbn Shuhayd کے رسالہ ال توابی وال جوابی کی طرح کا ہے۔ ہاں البتہ یہ بھی ایک خیال ہے کہ دانتے نے ڈیوائن کو میڈی المعریٰ سے متاثر ہو کر لکھی ہے۔یہ المعریٰ کے سو سال بعد کی کتاب ہے۔ تاہم یہ صرف خیال ہی ہیں۔ کوئی تحقیقی یا تنقیدی کام اِس ضمن میں سامنے نہیں آیا جو ثابت کر ے کہ المعریٰ ابن شہد کے نام سے متاثر تھا۔ بعینہ جیسے دانتے المعریٰ سے۔
یہاں اگر میں کچھ تفصیلاً لزومیات Luzumiyyat کے بارے بات کروں تو شاعر کو سمجھنے میں زیادہ آسانی ہوگی۔
یہ اُس کی شاعری کا وہ مجموعہ تھا جس میں اُس نے شاعری کے روایتی اور مروجہ روش سے احتراز کیا۔
اپنے اِس مجموعے لزومیات میں جب اُ س نے اپنے اردگرد پھیلے ہوئے اندھے یقین واعتقاد کے مقدس اظہار ئیے پر تنقید اور نقطہ چینی کی تو وہ کفر کا مرتکب ٹھہرا۔ معذرت خواہانہ رویہ اپنانے کی بجائے اُ س نے اپنا کام پیش کر دیا۔ ٹھوس اور دلیل سے بھری آواز میں کہا۔
”میں نے اپنی شاعری کو تصوراتی رعنائیوں سے نہیں سجایا۔ میں نے اپنے احساسات وجذبات سے سیاہ کئی صفحات کو فضول محبت کی یاوہ گوئیوں، جنگ وجدل کے مناظر، شراب اورمے خانوں کے تذکروں اور اِدھر اُدھر کی فضولیات کے گل بوٹوں سے آراستہ نہیں کیا۔میں نے اُسے جھوٹ اور منافقت کے زیور نہیں پہنائے۔ میرا کام تو سچ بولنا ہے۔
میں ڈنکے کی چوٹ پر یہ بات کہنا چاہوں گا کہ شاعری کو سچائی کے اظہارکا وسیلہ نہیں بنایا گیا بلکہ اُسے جھوٹ پر کھڑا کیا گیا ہے۔ یہ اپنے وجود، اپنی ماہیت میں جب تشکیل پاتی ہے تو بے
حد کمزور ہوتی ہے۔اِس لئے میری تمنا ہے کہ اپنے قارئین کو اپنی کھری اور سچی شاعری میں شامل کروں۔“
اپنے بارے میں المعریٰ کہتا ہے۔
”ایک نابالغ ذہن کا مالک مجھے ملحد کہتا ہے۔ لیکن وہ اپنی پہچان میں درست نہیں۔ اگرچہ میں نے اپنی خواہشات کو ضبط اور کنٹرول کے دائروں میں مقید کر لیا ہے۔مجھے دنیاوی خواہشوں کے حصول کے لئے بھاگنے سے ہمیشہ نفرت رہی۔ بغداد میں اپنی شاعری کو بیچنے پر میں نے پابندی لگادی تھی۔ اور اب تو میرا وہ حال ہے کہ دنیا کی اِن آرزوؤں نے بذات خود ہی مجھ سے کنارہ کشی کر لی ہے۔“
تاہم اُس کی مردم بیزار فطرت ایک دوسرے رنگ میں ظاہر ہوتی ہے۔ وہ کہتا ہے۔
”میں بنی نوع انسانوں میں سے ایک منکر کے طورپر بنا دیا گیا ہوں کیونکہ میں انہیں گہرائی سے جانتا ہوں۔مگر میرا علم جواُن کے لئے تخلیق ہوا ہے محض ایک گرد ہے۔“
ظاہر ہے روایتی معاشرے اِس درجہ ننگی سچائیوں کو ہضم نہیں کرتے۔ المعریٰ کی حد درجہ بے باکی اور صاف گوئی سے اظہار خیال نے بھی اُس وقت کی سوسائٹی کے سرکردہ اور معزز افراد کو ناراض کر دیا۔
رونالڈ نکولسReynold Nicholos کے الفا ظ میں۔
”انسانی المیوں پر اپنی سوچوں اور خیالات میں وہ معاشرے میں رائج نا انصافی، ہپو کریسی، توہمات اور ظالمانہ سلوک پر بے حد مشتعل ہو جاتا ہے۔ وہ اِس بات پر زور دیتا ہے کہ زندگی کے بارے۔ ریت، روایت، رواج اور عقیدے کے خلاف دلیل کا ہونا ضروری ہے۔ مذہب اُ سکے نزدیک بے سروپا حکایتوں کا مرقع ہے جو پرانے لوگو ں نے ایجاد کیں۔ بے وقعت اور بے مایہ۔

پیغمبروں کی باتیں سب فضول۔ انسان تو مزے میں تھا۔ مذہب کے شوشو ں نے سارے فساد کھڑ ے کئے۔ ہر مذہب پر اُس نے تنقید کی۔ راہب، پادری اور مولوی آنکھیں بند کر کے اندھے اعتقادات پر ایمان رکھتے ہیں۔ سوچ نہیں۔ زمین کے باسی دو طرح کے ہیں۔ ایک جو دماغ رکھتے ہیں مگر مذہب نہیں۔ دوسرے وہ جو مذہب رکھتے ہیں مگر دماغ نہیں۔
”بھئی یہ تو سولہ آنے سچ بات ہے۔“ دونوں خواتین پھر بول اٹھیں۔
علامہ اقبال نے بھی تو یہی کہا ہے۔ دین ملا فی سبیل اللہ فساد۔ بھلا ہم سے زیادہ اِس اندھے تعصب کا شکار اور کون ہوگا؟
ڈرائیور آچکا تھا۔ سلمان سکور نے گفتگو کو سمیٹنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔
یہ حقیقت ہے کہ مفکرین جیسا کہ ابن سینا، ابن رُشد اور المعریٰ جیسے جتنے یورپ میں ہر دل عزیز ہوئے اتنے اسلامی دنیا میں نہ ہو سکے۔ یورپ کی عیسائی دنیا نے اُن کی فلاسفی اور نظریات کو زیادہ کھلے طریقے سے اپنایا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یورپ کی تحریک احیائے علوم میں ایک بڑا کردار مسلم مفکرین کا بھی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”سفر نامہ: شام امن سے جنگ تک۔۔۔ حلب سے روانگی/سلمٰی اعوان۔قسط19

Leave a Reply