لاہور کے شاپنگ مال میں عورت کی بدمعاشی۔۔۔۔رمشا تبسم

رات کتوں میں بحث جاری تھی
انسانیت مر گئی  انسانوں میں!
اس بات سے اب قطعی انکار نہیں کہ  ہم اس زمانے میں بے شمار جاہل لوگوں میں انکی جہالت سہتے ہوئے جی رہے ہیں۔کوئی دولت, شہرت یا رتبہ انکی جہالت چھپا نہیں سکتا۔یہ افراد اب معاشرے کا ناسور ہیں جو کسی صورت چھپ نہیں سکتا بلکہ مزید پھیلتا جا رہا ہے۔ انکی جہالت کسی ہلکائے ہوئے کتے کی طرح ہر وقت کسی نہ کسی پر حملہ آور ہونے کو شکار ڈھونڈتی ہے.پرانے زمانے میں ہلکائے کتوں کا ایک ہی علاج تھا کہ  ان کو گولی مار دی جاتی تھی۔اس طرح سے وہ زہریلا کتا دوسرے انسانوں کو زہریلا کرنے کے قابل نہیں رہتا تھا۔کبھی کبھی اس گھٹن اور تشدد کے ماحول میں مجھے محسوس ہوتا ہے کہ ان جاہل لوگوں کی جہالت بھی ہلکائے ہوئے کتے کی مانند ہے اور اسکا بھی حل اگر گولی نہیں تو کم سے کم کوئی سزا , کوئی قانون یا کوئی طریقہ ہو جس سے ان لوگوں کو انکی جہالت اور بوکھلاہٹ سمیت قابو کیا جا سکے۔

دو دن پہلے لاہور کے ایک معروف شاپنگ مال میں ایک غنڈی رن کی آمد ہوئی۔ان  محترمہ نے وہاں موجود ایک سیلز گرل سے کوئی چیز مانگی جس پر عین ممکن ہے کوئی  تُو تکار  ہو گئی  ہو۔محترمہ نے سیلز گرل کو بھاگ کر پکڑا اور کسی صورت اس کو جانے نہ دیا۔ اس کو پورے شاپنگ مال میں گھسیٹتی رہی۔مارتی رہی گالیاں دیتی رہی،بالوں سے پکڑ کر کئی  مرد اور خواتین کی موجودگی میں اس کو زمین پر روندتی رہی اور کسی بدمعاش کی طرح بغیر ڈرے اور شرمندہ ہوئے یہ غنڈی رن اس سیلز  گرل پر حملہ کرتی رہی۔شاپنگ مال کا عملہ غائب رہا اور کوئی سکیورٹی گارڈ نہیں پہنچا، سوائے ایک دوسری سیلز گرل جو تمام  وقت اپنی ساتھی کو بچانے کی کوشش کرتی رہی۔عملہ تو دورکی بات ہے وہاں موجود مرد حضرات انتہائی بے بس نظر آئے۔

ایک گھٹیا عورت ایک نوجوان لڑکی کو بالوں سے پکڑ کر اپنے قدموں میں گھسیٹتی ہوئی بار بار اسکو معافی مانگنے کا کہتی رہی۔اور اس لڑکی نے معافی مانگی ،بار بار مانگی، مگر یہ عورت اس بات پر بضد رہی کہ  مجھے سنائی نہیں دے رہا اونچی آواز میں معافی مانگو ۔یہاں سے اس ظالم عورت کی نفساتی بیماری کا اندازہ  بھی بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ویڈیو بنانے والا مرد اور اس سارے ظلم کو دیکھنے والے بھی بے شمار مرد ہی تھے۔ہاں وہاں موجود کچھ عورتیں بھی تھیں مگر حیرت کی بات ہے کسی مرد اور عورت نے اس مار کھاتی لڑکی کو اپنی بہن بیٹی کی جگہ تصور نہ کیا، لہذا کسی نے اس غنڈی عورت کا  زبردستی نہ ہاتھ روکا نہ اس سیلز گرل کی اس قدر توہین اور مار پیٹ سے اس کو بچایا۔مرد حضرات زبانی احتجاج کرتے رہے۔اور سیلز گرل کو معافی مانگنے کا بھی کہتے رہے۔

ہم آدمیوں کی بدمعاشی یا اس طرح کے ظلم پر ان کو فوراً “ہیجڑہ” کہتے ہیں۔مگر میں بہت سوچنے کے بعد بھی اس ظالم عورت کے لئے ایک   بھی مناسب  لفظ نہیں ڈھونڈ سکی کیونکہ ہر برا اور گھٹیا لفظ اس عورت کی اس حرکت کے آگے انتہائی چھوٹا ہے۔

ہمارے اس بے حس معاشرے کا انصاف دیکھیے یہی حرکت اگر ایک مرد نے کی ہوتی تو موم بتی مافیا سمیت پورا سوشل میڈیا اس مرد کو لعن طعن کرتے ہوئے پوری مرد برادری کو ہی نشانے پر لے چکا ہوتا۔مگر چونکہ اب ظالم ایک عورت ہے لہذا موم بتی مافیا کی موم بتیوں میں پانی پڑ گیا ہے اور انسانی حقوق کے ٹھیکیداروں کی انسانیت گھاس چرنے چلی گئی  ہے۔میرے نزدیک ظلم اگر عورت کرے تو بھی اتنا ہی قابلِ  مذمت ہے ،جتنا مرد کا کیا گیا جرم اور ظلم۔اور عورت کی طرف سے کیے گئے ظلم پر خاموشی اختیار کرنا ایک جہالت ہے۔مجھے مرد کا ظلم بھی ناقابل قبول ہے اور اس سے زیادہ ناقابل قبول اور مذمت کے قابل عورت کا کیا گیا ظلم ہے ۔بحیثیت  عورت مجھے اس ظالم عورت کے عورت ہونے پر شرمندگی ہے۔اور میں عورت ہو کر اس عورت کے ظلم کی شدید مذمت کرتی ہوں۔ہر مرد اور عورت کو اس عورت کے خلاف آواز اٹھانی چاہیے۔

کچھ عرصہ قبل ایک بس میں بس ہوسٹس سے ایک آدمی نے بدتمیزی کی۔وہاں موجود مرد حضرات میں سے کسی نے آگے بڑھ کر اس آدمی کا نہ منہ بند کیا نہ فوراً اس آدمی کو بس سے اتارا۔بیچارے بے بس مرد کیسے ایک مرد کا منہ بند کر سکتے تھے۔
موجودہ واقع میں بھی مرد بیچارے ہی رہے۔جہاں ایک ظالم عورت کو اس لئے نہ روک سکے کہ  وہ ایک عورت ہے اس کو ہاتھ نہیں لگا سکتے۔مگر جو عورت انکے قدموں میں بیٹھی جس کے بال پکڑ کر ایک ظالم عورت گھسیٹ رہی تھی اسکی عزت اسکی حرمت کا خیال کسی کو نہ آیا کہ ہاتھ اٹھا کر ہی ظالم کا ہاتھ روک لیتے اور مظلوم لڑکی کو بچا لیتے۔جس تشدد کا مظاہرہ یہ عورت کر رہی تھی عین ممکن تھا وہ اسکی جان بھی لے لیتی۔مگر افسوس کسی نے حقیقی طاقت دکھا کر اس عورت کو روکنے کی کوشش نہیں کی۔ہاں افسوس سب کو بہت ہوا ہو گا۔کیونکہ افسوس کے لئے ہمت کی ضرورت نہیں ہوتی۔

حال پوچھتی نہیں دنیا زندہ لوگوں کا زاہد
چلے آتے ہیں جنازے پر بارات کی طرح

یہاں ایک بات قابل فکر ہے۔کوئی بس سروس ،کوئی شاپنگ مال جہاں خواتین کو نوکری دی جاتی ہے وہاں خواتین کے تحفظ کا کوئی اقدام کیوں نہیں کیا جاتا؟۔کیا لڑکیوں کی عزت اتنی معمولی ہے کہ  کوئی بھی آ کر پامال کر کے چلا جائے؟۔شاپنگ مال میں سکیورٹی اور کیمرہ سسٹم اتنا ایکٹیو ہوتا ہے کہ  آپ کوئی چیز چوری کر کے باہر نہیں جا سکتے مگر حیرت کی بات ہے وہاں انکی ایک ملازمہ کو ایک بدمعاش خاتون تشدد کا نشانہ بناتی ہے،نہ کوئی عملہ بھاگتا ہوا آتا ہے نہ کوئی سکیورٹی ٹیم۔

جہاں ایک طرف وہ ظالم خاتون اس لڑکی کی مجرم ہے وہیں  میرے نزدیک شاپنگ مال کے مالکان  بذات ِ خود سیلز گرل کے مجرم ہیں ۔جن کا اتنا ناقص انتظام تھا کہ  کوئی بھی وہاں آ کر غنڈہ گردی کر کے فرار ہو سکتا ہے۔
ہم لوگ انسان کہلانے والی مخلوق شاید چوپائے سے زیادہ بے بس اور مجبور ہیں۔جو شاپنگ مال میں موجود سیلز گرلز کو دیکھ کر رال تو ٹپکا سکتے ہیں ۔ویڈیو بنا سکتے ہیں مگر ظلم کو روکنے کی جرات نہیں کر سکتے۔
میری نظر میں غنڈی رن پر   قتل کا مقدمہ درج ہونا چاہیے۔کیونکہ یہ عورت ایک قاتلہ ہے۔اس ظالم عورت نے ایک لڑکی کی خود اعتمادی کا قتل کیا ہے۔اسکی عزت نفس کا قتل کیا ہے۔اسکی ہمت اور حوصلے کا قتل کیا ہے اسکی عصمت کا قتل کیا ہے۔ اس قسم کے قاتلوں کے لئے اب ٹھوس اقدامات کرنے کی ضرورت ہے جن سے ان جیسے تشدد پسند لوگوں کو لگام ڈالی جا سکتی۔
بحیثیت  عورت میں یہ محسوس کر سکتی ہوں کہ  اس ظالم عورت کا ایک ایک تھپڑ اس لڑکی کے جسم پر جتنی چوٹ لگا رہا ہو گا اس سے ز یادہ اسکی روح اور خود اعتمادی پر ضرب لگا رہا ہو گا۔اس لڑکی کا ٹوٹا ایک ایک بال اس معاشرے اور وہاں موجود لوگوں سے روزِ قیامت حساب مانگے گا۔کتنی ذلت کا سماں ہوتا ہے کہ  کوئی چار لوگوں کی موجودگی میں آپ سے اونچی آواز میں کوئی  بات کرے اور یہاں بات اونچی آواز کی ہی نہیں کسی کو پکڑ کر اس حد تک ذلیل کرنے کی تھی کے شاید  وہ انسان اسی موقع پر موت کی دعا مانگ کر اس شرمندگی سے نجات چاہتا ہو۔
ایک مشہور اور بہت بڑے شاپنگ مال کی ناقص سکیورٹی اور اس ظالم عورت دونوں پر کارروائی کی جانی  چاہیے۔تاکہ آئندہ محنت مزدوری کرنے والی  خواتین اور مرد کو کسی قسم کی پریشانی یا رسوائی کا سامنا نہ کرنے پڑے۔

اس ویڈیو کو دیکھ کر کئی  گھنٹے میرے تمام الفاظ تمام احساسات کسی بند کمرے میں منہ چھپا کر بیٹھ گئے۔کہا جائے تو کیا کہا جائے، لکھا جائے تو کیا لکھا جائے۔کیا کوئی  لفظ  اس ظلم اور ذلت کو کم کر سکتا ہے۔چاہے  الفاظ  جتنے بھی جذبات اور احساسات میں بھگو کر ادا کیے  جائیں  وہ اس ظلم سہتی لڑکی کی روح کے زخموں کی تکلیف کو کم کر سکتے ہیں؟ پھر اس موقع پر مجھے خاموش رہتے ہوئے مردہ انسانیت مردہ معاشرے کے ساتھ ساتھ اپنا ضمیر مردہ اور تعفن زدہ محسوس ہو رہا تھا۔لہذا اپنے ضمیرکی بقاء کی خاطر مجھے اس معاملے پر اداس دل اور نم آنکھوں سے آواز اٹھانی پڑی۔نہ الفاظ ساتھ دے رہے ہیں نہ احساسات بیان کیے  جا رہے ہیں۔مگر پھر بھی میں اتنا کہوں گی ہماری بہن کے ساتھ جو ہوا وہ قابل مذمت ہے اور ہم بحیثیت قوم شرمندہ ہیں۔اور جو ظالم عورت نے کیا ایسی شخصیات اور کردار معاشرے کے لئے گالی ہیں اور ناقابل قبول ہیں۔اس ظالم عورت کو سخت سے سخت سزا ملنی چاہیے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ہم بدلتے ہیں رخ ہواؤں کا
آئے دنیا ہمارے ساتھ چلے!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply