جنسی ہراسمنٹ اور ہمارا المیہ۔۔۔ماریہ علی

گزشتہ دنوں مشہور اداکار محسن عباس حیدر کے اپنی بیوی پہ تشدد اور ہراسمنٹ کا معاملہ سماجی رابطے کی ایک ویب سائٹ کے ذریعے سامنے آیا اور پھر میڈیا پر اس کے متعلق ایک لامتناہی بحث کا آغاز ہوا جو تاحال جاری ہے۔اس میں تازہ اضافہ پاکستانی کرکٹر امام الحق کے کسی دوشیزہ کے ساتھ نجی گفتگو کے سکرین شاٹ ہیں جو کسی طرح لیک کیے گئے اور اسے بھی ہراسمنٹ کے کیس کا رنگ دیا گیا۔ اسی طرح کے کئی واقعات ماضی میں بھی ہوتے رہے اور ہمارے میڈیا کی زینت بنتے رہے جن میں سے اکثر محض الزامات تھے۔
ہراسمنٹ ایک ایسا معاملہ ہے جو بیک وقت نہایت حساس بھی ہے اور انتہائی توجہ طلب بھی،ہمارے ہاں ہراسمنٹ کی صحیح طرح سے تعریف ہی نہیں کی گئی جس کی وجہ سے مرد و زن کے ہر طرح کے روابط کو ہراسمنٹ کا نام دے دیا جاتا ہے، جو خطرناک صورتحال ہے۔ میں یہ کہنے میں حق بجانب ہوں کہ جس طرح توہینِ رسالت اور اہانتِ مذہب کے معاملات کو جذباتیت کی بھینٹ چڑھا کر ایک نامختتم بحث کا آغاز کردیا گیا بالکل اسی طرح یہ معاملہ بھی دن بدن گھمبیر سے گھمبیر تر ہوتا چلا جارہا ہے اور کچھ بعید نہیں کہ آنے والے وقتوں میں یہ کسی بڑے طوفان یا سماجی خلا کا باعث بنے۔

ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہراسمنٹ کہتے کسے ہیں اور کون کونسے عمل اس زمرے میں آتے ہیں۔۔آگے بڑھنے سے پہلے یہ بات واضح کرلیں کہ دو لوگوں کی باہمی گفتگو جس میں دونوں فریقین کی شمولیت ہو, اگر بعد میں عام عوام کے سامنے لا کر اسے ہراسمنٹ کا نام دیا جائے تو یہ ہر گز ہراسمنٹ نہیں ہے بلکہ یہ گفتگو لیک کرنے والے فریق پر ہرجانے کا کیس بنتا ہے. اگر ہراسمنٹ کا کوئی شبہ ہے تو بات کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ دوسرے فریق کو, بلکہ اسے تو چاہیے کہ وہ ہراسمنٹ کے مرتکب ہونے والے کو بلاک کرے اور سائبر کرائم ونگ کو اس کے خلاف درخواست دے نہ کہ   وہ اسے میڈیا پر لیک کرکے سستی شہرت حاصل کرے۔

اسی طرح آج کے دور میں مرد و زن کا اختلاط ناگزیر ہوچکا ہے, اس لیے کسی لڑکے کا کسی لڑکی سے بات کرنا کوئی غیر اخلاقی عمل نہیں ہے تاہم اگر وہ کسی غلط ارادے سے بات کرتا ہے یا غیر اخلاقی گفتگو یا حرکت کا مرتکب ہوتا ہے تو اس کے خلاف فی الفور کارروائی ہونی چاہیے، تہذیب کے دائرے میں رہ کر بات کرنا کسی صورت ہراسمنٹ نہیں ہے، جب تک ہم ان باتوں کو نہیں سمجھیں گے, یہ بحث لاحاصل ہے۔

سب سے اہم بات یہ کہ ہمارے ہاں یہ سمجھا جاتا ہے کہ محض مرد ہی عورت کو ہراس کرسکتا ہے جو بالکل غلط ہے۔اگر کوئی عورت کسی مرد کو کسی بِنا پر بلیک میل کرتی ہے یااسے استعمال کرنے کی کوشش کرتی ہے تو اس کے خلاف بھی ویسی ہی کارروائی ہونی چاہیے اور اسے بھی اسی طرح ہدفِ تنقید بنایا جانا چاہیے،برابری کے علمبرداروں کے یہاں آکر پَر جلنا شروع ہو جاتے ہیں،وہ ایک طرف ہر سطح پر برابری کا مطالبہ کرتے ہیں تو دوسری طرف بہت سے معاملات میں عورت کو صنفِ نازک ہونے کا فائدہ دینے کا مطالبہ بھی کرتے ہیں جو کہ سراسر منافقت ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

ضرورت اس امر کی ہے کہ ہراسمنٹ پر باقاعدہ قانون سازی کی جائے اور اس بات کا تعین کیا جائے کہ کون کونسے اعمال و افعال ہراسمنٹ کے زمرے میں آتے ہیں،بہت سے لوگ ہراسمنٹ کو بطور کارڈ استعمال کرتے ہوئے شرفاء کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں اور عوام میں آگاہی نہ ہونے کے باعث اس طرح کے لوگ اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب بھی ہو جاتے ہیں،ایسے لوگوں کی وجہ سے ان خواتین کا حق بھی مارا جاتا ہے جن کے ساتھ واقعی ہراسمنٹ ہوتی ہے،لہذا یہ ضروری ہوچکا ہے کہ اس معاملے کی سنجیدگی کا ادراک کرتے ہوئے فوری اقدامات اٹھائے جائیں، آئین میں اس کے متعلق واضح قوانین بنائے جائیں اور عوام میں آگاہی پھیلائی جائے تاکہ وہ لوگ جو واقعتاً اس مکروہ فعل کے مرتکب ہوتے ہیں ان کو قرار واقعی سزا دی جائے اور جعلی الزامات لگانے والوں کی بھرپور حوصلہ شکنی کی جائے۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو مستقبل قریب میں بہت خوفناک صورتحال کا سامنا ہوسکتا ہے جو نہ تو سماج کےلیے فائدہ مند ہے اور نہ ہی ہماری اقدار کےلیے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply