افواہوں کا بازار۔۔علی خان

انٹرنیٹ کی  باآسانی دستیابی سے آج کے انسان کو بہت سی سہولیات میسر   آئی ہیں۔  لوگوں سے رابطے میں آسانی اور سستا میڈیم انٹرنیٹ سے ہی ممکن ہے۔ سمارٹ فون نے دنیا کے تمام ملکوں کی اقتصادی پالیسیوں کی ترجیحات کو بدل کر رکھ دیا ہے ۔ اس وقت دنیا میں موجود سب سے ذیادہ دولتمند انسانوں کی فہرست میں پہلے 25 لوگوں کا کاروبار کسی نہ کسی طرح انڑنیٹ سے منسلک ہے۔

آپ آن لائن بہت سے کاروبار بہت کم سرمائے سے شروع کرسکتے ہیں اب بینکنگ کی آن لائن سروسز  آپ کو  ہر جگہ  آپ کے موبائل پر میسر ہیں اور آپ کو بینک کی لمبی قطاروں میں انتظار نہیں کرنا پڑتا۔ جہاں انٹرنیٹ نے موجودہ انسان کی زندگی میں بہت سی مثبت تبدیلیاں  برپا کی ہیں ، وہیں اس کے منفی اثرات بھی  مرتب ہوئے ہیں ۔ آپ بہت آسانی سے کوئی بھی جھوٹی خبر منٹوں میں سینکڑوں لوگوں تک پہنچا دیتے ہیں اور وہ سینکڑوں آگے اور سینکڑوں لوگوں تک ۔ اور یوں ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔

اگر آپ اپنے کسی دوست سے کوئی مذاق کرنا چاہتے ہیں تو بس ایک فرضی مظلوم کہانی بنائیں اور ساتھ تصویر میں تبدیلی کریں اور کسی بھی گروپ میں بھیج دیں ۔ باقی کا کام وہاں موجود لوگ کار ثواب سمجھ کو خود ہی کر دیں گے۔ یہ ایک ایسا آلہ ہے جس سے امریکہ  کا صدر بھی پریشان ہے اور آپ اکثر اسے “Fake News” کا رونا روتے سنیں گے۔ آپ کو اکثر انعام کے  لالچ کا میسج وصول ہوگا جس میں کبھی ہوائی جہاز کا مفت ٹکٹ ہوگا تو کبھی کیش انعام تو کبھی کھانے کے فری واؤچرز۔ طریقہ واردات میں آپ کو یہ پیغام آگے تین یا چار لوگوں کو پہنچانا ہوگا اور بدلے میں آپ کو یہ بیش قیمت انعامات  مل جائیں گے۔ یہ طریقہ کافی پرانا ہے جب انٹرنیٹ عام نہیں تھا اور کمپیوٹر کا وجود پاکستان میں بالکل نہ ہونے کے برابر تھا، تب کچھ کاغذ  آپ کو تھما دیے  جاتے تھے اور انہیں فوٹو کاپی کروا کر آپ کو مزید لوگوں  میں تقسیم  کرنا  ہوتا تھا ورنہ آپ کا بہت قیمتی نقصان ہو سکتا تھا۔

سوال یہ ہے کہ آخر انٹرنیٹ جیسی مفید چیز کا ایسا استعمال کیوں؟ تو اس کا جواب ہے بس یوں ہی شغل میلے کے لئے۔ لیکن اس وقت ایک ایسا مافیا بھی وجود پا چکا ہے جو عام لوگوں کی رائے بدلنے کے لئے ایسےہتھکنڈے استعمال کرتا ہے ۔ اس سے کسی کی ساکھ کو نقصان پہنچایا جا سکتا ہے کیوں  کہ عام لوگ تحقیق سے دور ہیں اور بس دوسروں کی پہنچائی ہوئی خبر  پر ہی اکتفا کرتے ہیں۔ کسی بھی خبر کو آگے پہنچانے سے پہلے اس کی تصدیق لازمی ہے۔ ورنہ آپ بھی نہ چاہتے ہوئے اسی مافیہ کا حصہ بن جائیں گے ۔ آپ کسی بھی غلط خبر کو آگے نہ بھیج کر اس کڑی کو توڑ سکتے ہیں۔ معاشرے میں مثبت اور تعمیری باتوں کو پھیلائیں۔ نیز فرمان نبوی ہے “کہ کسی انسان کے جھوٹا ہونے کیلئے اتنا ہی کافی ہے کہ ہر سنی سنائی بات (بغیر تحقیق کے) آگے بیان کر دے۔‘‘

Advertisements
julia rana solicitors london

Save

Facebook Comments

Ali Khan
ہے جذبہ جنون تو ہمت نہ ہار ۔۔ حستجو جو کرے وہ چھوئے آسمان

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply