انگریزوں سے پہلے پنجاب جاہل تھا؟۔۔۔عامر بٹ

مہاتما بدھ نے کہا تھا ’بندہ جیسا سوچتا ہے ویسا ہی بن جاتا ہے‘۔

دنیا اور تاریخ کا معاملہ بھی کچھ اسی طرح کا ہے، جس طرح ہم اس کو دیکھتے ہیں یا ہمیں دکھایا جاتا ہے ہم اس کو ویسا ہی مان کر چلتے ہیں۔تاریخی واقعات کے بارے میں جوں جوں ہمارے علم میں اضافہ ہوتا ہے، ہمارا تاریخ اور تاریخی واقعات کے بارے میں نقطہ نظر تبدیل ہوتا ہے۔

تاریخ کا شعور نہ صرف ہمیں ماضی میں ہونے والے واقعات کی بہتر آگہی فراہم کرتا ہے بلکہ ہمیں آج جن مسائل کا سامنا ہے اس کو سمجھنے کا فہم بھی دیتا ہے۔

اس کی ایک مثال 19 ویں صدی کے شروع میں جیمز مل کی لکھی گئی کتاب ’دی ہسٹری آف برٹش انڈیا‘ ہے جس میں اس نے پہلی دفعہ ہندوستانی تاریخ کو ہندو، مسلم اور برٹش ادوار میں تقسیم کیا۔یہاں غور طلب بات یہ ہے وہ انگریزوں سے پہلے ادوار کو مذہب کی بنیاد پر ہندو اور مسلمان ادوار میں تقسیم کرتا ہے لیکن جب اپنی باری آتی ہے تو اسے کرسچن یا  مسیحی دور نہیں لکھتا بلکہ برٹش دور کہتا ہے۔

یہ کالونی گیروں کا طریقہ واردات تھا جس کے ذریعے وہ یہاں کے لوگوں میں مذہبی منافرت پیدا کرنا چاہتے تھے۔

بدقسمتی سے ہمارے ہاں بعد میں آنے والے تاریخ دان بھی جمیز مل جیسے کالونی گیر لکھاریوں کے نقش قدم  پر ہی چلتے رہے یہاں تک کہ 1960ء کی دہائی میں مشہور تاریخ دان رومیلا تھاپر نے کالونی گیروں کے اس دُہرے معیار کی طرف نشاندہی کرائی۔

1849ء میں پنجاب پر بڑش کالونی گیروں کے قبضے کے بعد یہاں جو تبدیلیاں آئیں ان کو ہم اس وقت تک نہیں سمجھ سکتے جب تک کہ ہمیں یہ علم نہ ہو کہ ان کے یہاں آنے سے پہلے اس خطے میں لوگ کس طرح رہتے تھے، یہاں کی معیشت کیسی تھی اور یہاں تعلیم کے حوالے سے کیا نظام تھا؟

ہمارے ہاں اکثر یہ فکری مغالطہ پایا جاتا ہے کہ انگریزوں کے آنے سے پہلے یہاں تعلیم کا کوئی نظام موجود نہیں تھا اور انہوں نے یہاں آکر تعلیمی ادارے بنائے۔کیا صورحال واقعی ایسی ہی تھی؟اس حوالے سے 1882ء میں جی ڈبلیو لیٹنر کی لکھی گئی رپورٹ ’History of Indigenous Education in the Punjab Since Annexation and in 1882‘ ایک اہم دستاویز ہے۔پنجاب انسٹیٹیوٹ آف لینگوئج آرٹ اینڈ کلچر نے پچھلے سال اس کتاب کو اردو اور پنجابی ترجمہ کروا کے ’پنجاب میں دیسی تعلیم‘ کے نام سے شائع کیا ہے۔

جی ڈبلیو لیٹنر 1864ء میں گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور کے پہلے پرنسپل اور پنجاب یونیورسٹی کے قیام میں ان کا کلیدی کردار تھا۔انہوں نے ’انجمن پنجاب‘ کے نام سے ایک تنظیم بھی بنائی جس میں مقامی افراد کے ساتھ مل کر پنجاب میں فروغ تعلیم اور نظام تعلیم کے حوالے سے اہم تجاویز مرتب کیں گئیں۔ان میں جدید سائنسی علوم کو مقامی زبانوں میں پڑھانے کی تجویز بھی شامل تھی۔

جی ڈبلیو لیٹنر 1882ء میں لکھی گئی اپنی رپورٹ کی ابتدا ان الفاظ سے کرتا ہے۔

” بہترین ارادوں، نہایت عوام پسند افسروں اور دیگر صوبوں کی روایات سے مستفید ہونے والی فیاض حکومت کے باوجود پنجاب کی حقیقی تعلیم، اپاہج، محدود اور برباد ہو گئی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ ہمارا نظام محض سرکاری ناکامی کی نسبت بد ترین جرم کا مرتکب ہوا ہے۔”

ان کے بقول پنجاب میں ’ایک بھی مسجد، مندر یا دھرم شالا ایسی نہ تھی جس کے ساتھ مدرسہ منسلک نہ ہو، جہاں بچے مذہبی تعلیم حاصل کرتے تھے ۔۔۔ ہزاروں سیکولر سکول ان کے علاوہ تھے جہاں مسلمان، ہندو اور سکھوں کے بچے پڑھتے تھے‘۔

کم سے کم اندازے کے مطابق پنجاب میں مختلف مذاہب کے مدرسوں میں تین لاکھ، 30 ہزار طلبا لکھنے، پڑھنے اور حساب کرنے کے طریقوں سے واقف تھے۔ ان میں ہزاروں کا تعلق عربی اور سنسکرت کالجوں سے تھا جن میں مشرقی ادب اور قانون، منطق، فلسفہ اور طب کے مضامین اعلیٰ ترین درجوں تک پڑھائے جاتے تھے 1880ء-81ء میں ایسے طلبا کی تعداد کم ہو کر ایک لاکھ 58 ہزار کے قریب رہ گئی تھی۔

اپنی رپورٹ کے دوسرے باب ’پنجاب میں دیسی تعلیم‘ میں وہ لکھتا ہے کہ الحاق سے پہلے پنجاب میں کہیں ہندی بولی یا لکھی نہیں جاتی تھی اور اب بھی ایسا ہی ہے لیکن جسے ہندی کہتے ہیں وہ درحقیقت بھاشا یا پنجاب کی مقامی زبان یعنی پنجابی ہے۔ہندوؤں نے اسے ناگری یا لنڈے رسم الخط میں لکھا اور مسلمانوں نے فارسی جبکہ سکھوں نے گور مُکھی رسم الخط میں۔

اس وقت کے دیسی سکولوں کو پانچ طرح کی اقسام میں تقسیم کیا جا سکتا تھا جن میں مکتب، مدرسہ، پاٹ شالا، گورمکھی اور مہاجنی سکول شامل تھے۔

مہاجنی کمرشل یا تجارتی کمیونٹی کے سکول تھے جن میں تین طرح کے رسم الخط استعمال کیے جاتے تھے: مہاجنی تاجروں کا مخصوص رسم الخط، لنڈے دکان داروں اور صرافی بینکاروں کا مخصوص رسم الخط۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس وقت کی معیشت کا پھیلاؤ کس قدر زیادہ تھا۔

1852ء کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے وہ بتاتا ہے کہ ہوشیار پور جیسے پسماندہ اضلاع میں ہر 1965 مردوں (بالغ اور نابالغ) کے لیے ایک سکول تھا۔

1882ء میں ہر نو ہزار 28 باشندوں کے لیے ایک سرکاری یا امداد یافتہ سکول تھا جبکہ 1849ء میں پنجاب پر قبضے کے وقت علاقے کے پسماندہ ترین ڈویژن میں بھی ہر ایک ہزار441 باشندوں کے لیے ایک سکول تھا جبکہ بہتر علاقوں میں 783 افراد کے لیے ایک سکول موجود تھا۔

لیٹنر اس وقت کے محکمہ تعلیم کے بارے میں لکھتا ہے ’محکمہ تعلیم نے فساد کے بیج بوئے جو عاقبت نا اندیشی کی فصل کی شکل میں سامنے آ رہے ہیں‘۔

برطانوی نظام تعلیم آنے کی وجہ سے کئی کلاسیکی کالج اور نجی سکول ختم ہوگئے اور پرائمری سکولوں نے مہاجنی سکولوں کو نقصان پہنچایا۔ لائیٹنر نے بتایا ’انگریز سرکار نے دیسی سکولوں کو نقصان پہنچانے یا برباد کرنے کے سوا کچھ نہیں کیا‘۔

چھ جولائی 1857ء کی ایجوکیشنل رپورٹ کے پیراگراف چھ کا حوالہ دیتے ہوئے لائیٹیز نے لکھا ’پنجابیوں کے لیے تعلیم کا تصور قطعاً نیا نہیں۔تمام محاورے بنے بنائے اور ان میں سے بیشتر مسلمانوں کے ہاں سے آئے ہیں۔معلموں کی حیثیت سے سے ان ( مسلمانوں) کا اس شعبے میں غلبہ ہے‘۔

اردو زبان کو ذریعہ تعلیم بنانے کے پنجاب پر کیا سماجی اثرات مرتب ہوئے اس نے لکھا: ’اردو سبق لے کر گھر آنے والا بچہ اپنے مسلمان والدین کو بھی سبق نہیں سناتا کیونکہ یہ صوبے کی (فارسی، پنجابی) زبان نہیں بلکہ دلی کی بولی ہے جس میں محکمہ تعلیم نے اپنے تئیں ’خالص زبان‘ کو فروغ دینے کے لیے عجیب و غریب اور فرسودہ محاورے متعارف کروائے ہیں‘۔

غیر زبان میں تعلیم دینے کا یہ نقصان ہوا کہ والدین کا بچوں کی تعلیم کے ساتھ کوئی تدریسی تعلق نہ رہا اور وہ مقامی زبانوں میں تعلیم دینے کی صلاحیت سے محروم ہوگئے۔ اس کے علاوہ لڑکیوں کی تعلیم کو بھی نقصآن پہنچا اور ان کے اپنے خاندانوں میں تربیت یافتہ استانیوں کی کھیپ ختم ہوتی گئی۔

پنجاب کے دیسی تعلیمی اداروں میں معیار تعلیم کے حوالے سے ایک جگہ بات کرتے ہوئے وہ کہتا ہے کہ “دہلی میں صرف یا بہترین دیسی سکول ہی ہیں۔ اس کے برعکس میری انکوائریوں نے مجھے اس نتیجے پر پہنچایا کہ وہ پنجاب میں بہتر قسم کی سکولوں کی اوسط سطح سے کمتر ہیں۔”

عورتوں میں تعلیم کے حوالے سے وہ کہتا ہے کہ پنجاب کی عورت نہ صرف خود کچھ نہ کچھ پڑھی لکھی ہوتی ہے بلکہ یہ دوسرں کو بھی پڑھاتی ہیں۔

’ پست اور بالائی طبقات کی عورتیں (یہاں تک کہ کشمیریوں اور کابلیوں جیسے غیر ملکیوں سمیت) تبادلہ خیالات کے لیے پنجابی زبان ہی استعمال کرتی ہیں‘۔

جی ڈبلیو لیٹنر نے اپنی رپورٹ میں اس بات کا اقرار کیا کہ بہت سے دیسی سکول سرکاری ریکارڈ کا حصہ بننے سے رہ گئے۔1849ء میں پنجاب پر قبضے سے لے کر 1882ء میں اس رپورٹ کی تیاری تک نہ جانے کتنے دیسی سکول ختم ہو گئے ہوں گے جن کا کوئی ریکارڈ مرتب نہیں کیا جا سکا۔

لیٹنر نے اپنی اس رپورٹ میں مختلف رپورٹس کا حوالہ دیا ہے جن میں پنجاب ایڈ منسٹریشن رپورٹ 51ء-1849ء، 57ء-1856ء اور 58ء-1857ء،  ڈیپارٹمنٹ آف پبلک انسڑکشن کی رپورٹ برائے 57ء-1856ء اور کئی دیگر دستاویزات شامل ہیں۔

ان دستاویزات کو منطرعام پر لانے کی ضرورت ہے تاکہ تاریخ اور تعلیم کے شعبوں میں کام کرنے والے افراد اس سے استفادہ کر سکیں۔ جس سے ہمیں اپنے خطے کی تاریخ کو اور بہتر انداز میں سمجھنے میں مدد ملے گی۔

زمینوں، ملکوں اور خطوں پر طاقت کے زور پر قبضے تو کیے جا سکتے ہیں لیکن وہاں کے لوگوں کو تب تک غلام نہیں بنایا جا سکتا جب تک وہ اپنی تاریخ، اپنی زبان اور ثقافت کے بارے میں احساس کمتری کا شکار نہیں ہو جاتے اور دل سے اپنے حاکموں کی ہر میدان میں برتری کو تسلیم نہیں کر لیتے۔

آج بھی آپ کو ایسے بے شمار لوگ مل جائیں گے جنہیں لگتا ہے کہ ہم انگریز کالونی گیروں کے آنے سے پہلے جاہل اور اُجڈ تھے۔

تعلیم کے علاوہ بھی دیگر کئی شعبوں میں ایسے کئی فکری مغالطے پائے جاتے ہیں۔ اس ذہنی غلامی سے تبھی نکلا جا سکتا ہے جب ہم اپنی تاریخ کو دوسروں کی نظر سے دیکھنے کی بجائے تاریخی حقائق کو اپنے نقطہ نظر سے دیکھیں۔

’پنجاب میں دیسی تعلیم‘ کا اردو ترجمہ یاسر جواد نے کیا ہے جو واقعی مبارکباد کے مستحق ہیں کہ اس طرح کے مشکل کام بغیر جذبے کے نہیں ہوتے۔تاریخ اور تعلیم کے شعبوں سے دلچسپی رکھنے والے افراد کو یہ کتاب ضرور پڑھنی چاہیے

Advertisements
julia rana solicitors

بشکریہ سجاگ!

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply