جمیع انبیاء اور سارے صحابہ کی سنت۔۔۔۔۔سلیم جاوید

عورت کے برعکس، مرد بڑا کٹھور دل، ہرجائ اور بے وفا ہوتا ہے- میں ایک ایسے موضوع پہ بات کرنا چاہتا ہوں جسے انگریزی میں “ہوم سکنس ” کہا جاتا ہے-

خاکسار کی عمر تیرہ سال تھی جب پہلی باراماں ابا سے دوری کا رنج جھیلا- والد صاحب مجھے کوہاٹ کیڈٹ کالج چھوڑ کر، کوئی  سوگز دور گئے ہونگے جب آنکھوں کی نمی نے انکی گاڑی دھندلا دی تھی-ایک ہفتہ تک ہمارے ڈورم کا عالم یہ تھا کہ ” آ عندلیب مل کے کریں آہ وزاریاں”- یہاں پہلی بار انگریزی لفظ”ہوم سکنس “سنا تھا-

جب انجینئرنگ یونیورسٹی پشاور میں آئے توعمر اٹھارہ برس ہوچکی تھی اورغریب الدیاری کا چسکہ پڑچکا تھا- یونیورسٹی میں مگروہ نوجوان جو ڈائریکٹ گھروں سے پہلی بار ہاسٹل آئے تھے، انکی سرخ آنکھیں بہت کچھ بتادیتی تھیں- خدا نے آخر یونہی تو گھر کو سکون کی جگہ نہیں قراردیا؟-

بہشتی زیور کا نیا ورژن درکار ہے۔۔۔سلیم جاوید

پھر 2003ء میں یہ خاکسار پہلی بارسعودی عرب آیا تومسافرت میں کندن ہوچکا تھا-یہاں پردیس میں، پختون نوجوان روتے نہیں تھے، مگرانکو دیکھ کررونا آتا تھا- بہن بھائی ، ماں باپ – یہ رشتے خون میں دوڑا کرتے ہیں-

احساس کی وادی میں ایک خیال اٹھتا ہے کہ جب ایک بیٹی کو گھر کی دہلیز سے ہمیشہ کیلئے الوداع کہا جارہا ہو، تو اس معصوم کے دل میں غم کا کیا عالم ہوگا؟- عورت تو ویسے ہی محبت کا دوسرا نام ہے- وہ کس دل سے بابا کا گھر چھوڑتی ہوگی اور وہ بھی بلاقصور؟- بس یہی اس کا قصور کہ وہ لڑکی پیدا ہوئی  ہے-( میری بات کو وہی سمجھ سکیں گے جو سینے میں پتھر کا دل نہیں رکھتے)-

فرق ایک اور بھی ہوتا ہے- کیڈٹ کالج میں مجھے ابو خود چھوڑ کرگئے تھے مگربیٹی کو تو گھر کی دہلیز سے تنہا روانہ کیا جاتا ہے-

یونیورسٹی ہاسٹل میں میرے ساتھ سینکڑوں دیگر بھی میری طرح مسافر ساتھ تھے- بیٹی مگروہاں جاتی ہے جہاں اسکی کوئی  اور سکھی سہیلی ساتھ نہیں ہوتی-

پردیسیوں کوگھر کی یاد ستائے تو اپنی مرضی سے گھر واپس جاسکیں مگر یہ بیٹی ، بھائی  بہن کا   چہرہ دیکھنے کو  آزاد نہیں ہوتی- دلہن، جو نہی ماں باپ کے گھر سے نکلی تواگلی صبح اسکے سر پرساس، سسر، نند، دیور سارے سپروائزر مقررہوجاتے ہیں- اسکی ایک غلطی اسکے ماں باپ کو طعنے  کا سبب بن سکتی ہے- کیا ٹینشن بھری مسافرت ہے اور کیا بے گناہی قیدہے-

ڈهلتی دهوپ۔۔۔۔نیلم ملک

بھلے لوگو!

عقل ومنطق کے ہرپیمانے پر تولیے ، انصاف یہی معلوم ہوگا کہ شادی کے وقت، کمزوردل لڑکی کی بجائے شیردل لڑکے کو گھرچھوڑ کرسسرال میں آنا چاہیے  تھا- ( جیسا کہ سری لنکا میں رواج ہے)-

تاہم، لڑکے کی ہجرت بھی کئی ایشو کھڑے کرسکتی ہے- پس میں نے عربوں کو دیکھا، انگریزوں کا پتہ کیا- افریقہ بارے معلوم کیا- ہرجگہ یہی دیکھا کہ لڑکا اور لڑکی ، شادی کے وقت دونوں اپنے گھر چھوڑ کر، ایک الگ گھر میں شفٹ ہوجاتے-

میں نے سیرت کی کتب کو کھنگالا مگر مجھے رسول اکرم سمیت کوئی  ایک صحابی ایسا معلوم نہیں پڑا جس نےاپنی بیوی کو ساس کے ساتھ رکھا ہو- میں نے پچھلے انبیاء کی سیرت پڑھی تو”گھرداماد” نبی تلاش کرلیا مگر ایسا کوئی  نظر نہیں آیا جس نے اپنی بیوی، اپنے ماں باپ کے ہمراہ رکھی ہو-( حضرت موسی ، دس سال سسر کے گھر رہے- معلوم ہوا کہ سسرال کا بیٹا نہ ہو تو داماد کو سنت موسوی ادا کرنا چاہیے)-

یادش بخیر!

ایک بار رائے ونڈ سے ایک جماعت کے ساتھ تشکیل ہوئی  جس میں ایک بزرگ مفتی صاحب ساتھ تھے- فرما رہے تھے کہ داڑھی رکھنا، جمیع انبیاء اور سارے صحابہ کی سنت ہے- داڑھی کے فضائل کے ضمن میں یہ بھی بتایا کہ ایک صحابی کے چہرہ پرصرف ایک بال تھا-لمبی کہانی سنائی  مگر یہ کہ اس صحابی نے وہ بال کاٹ لیا تو حضور ناراض ہوگئے- خاکسار چونکہ کلچرل عادات کو سنت نہیں سمجھتا اس لئے سوال کیا کہ جناب، کم ازکم ایک صحابی سے داڑھی شیو کرنا ثابت ہوگیا نا؟-( اس پرانہوں نے طول طویل تاویلات فرمائیں اور میں بھی خوفِ فساد خلق کی وجہ سے خاموش ہوگیا)-

آج مگرمولوی صاحبان سے پوچھتا ہوں کہ اگرکلچرکوسنت مان لیں تو پھر بیوی کو ساس سے الگ گھر میں رکھنا، جمیع انبیاء اور سارے صحابہ کی سنت ہے- اس سنت کو بیان کرتے آپکی زبان پہ آبلے کیوں پڑجاتے ہیں؟-

یہ ڈولی میں لڑکی کوہمیشہ کیلئے گھرنکالا دینا، فقط ہندو کلچرکی نقل ہے- اسی وجہ سے خاندان برباد ہورہے ہیں- یقین مانیے  کہ میں نے سعودی لڑکوں سے زیادہ ماں کی خدمت کرنے والا کوئی  نہیں پایا- مگر بیوہ ماں بھی ہے تو اسکو الگ فلیٹ( شقہ) دیا ہوا ہے، خدامہ دی ہوئی  ہے، الگ ڈرائیور اور گاڑی دی ہوئی  ہے، روزانہ سارے بھائی  ماں کا ماتھا چوم کرڈیوٹی پہ جاتے ہیں مگراسکو گھر میں بہو کے ساتھ نہیں رکھا ہوا-

Advertisements
julia rana solicitors london

یاد رکھیے  کہ اپنے ماں باپ کی خدمت کرنا، خود لڑکے کے ذمہ ہے نا کہ پرائی لڑکی کے ذمہ- مگرجب آپ بیوی کو الگ گھر دوگے تو وہ آپکے سارے رشتوں کو، آپ سے بھی زیادہ عزت کے ساتھ سنبھالے گی- تجربہ شرط ہے-مگر اس معقول ماحول کو پیدا کرنا بھی مولوی صاحبان کا ہی وظیفہ ہے (اگر وہ اسلام آباد پہ قبضے سے فرصت پائیں تو)-والسلام

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply