مرد بھی رونا چاہتا ہے ۔۔۔ عبد اللہ خان چنگیزی

مضمون کا موضوع انگلستان میں جائے پذیر دوست کی تازہ ترین پوسٹ سے لیا گیا ہے۔ 

جب جہاں میں ایک اماں ایک ابا کے گھر اولاد کی پیدائش بیٹے کی صورت میں ہوتی ہے تو سارا گھر خوشیوں سے بھر جاتا ہے۔ مٹھائیاں تقسیم کی جاتی ہیں خوشیوں کے شادیانے بجائے جاتے ہیں آس پڑوس، محلے دار، عزیز و اقارب مبارکبادیں دیتے ہیں دوست احباب کو دعوتیں دی جاتی ہیں۔ اس خوشی میں کہ ابا حضور کے گھر ایک مرد کی پیدائش ہوئی ہے جو کہ اللہ سبحان تعالی کی طرف سے ایک خاص انعام کے طور پر لوگ قبول کرتے ہیں اور اِس کی پیدائش کو ابا حضور کے لئے مستقبل میں ایک مظبوط سہارہ بننے کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

اُسی دن سے مرد کی پرورش میں ایک عجیب سی سختی اور کڑواہٹ شامل ہو جاتی ہے کیونکہ مرد کی شان اور علامت کو سختی اور آہنی مجسمے سے تعبیر ہوتی ہے۔ خواہ وہ دنیا کے کسی بھی حصے میں ہو اُس کی شخصیت پر جبر و برداشت کا ایک عظیم پہاڑ رکھ دیا جاتا ہے جس کے بوجھ تلے دب کر مرد اپنے جذبات کو روند کر اِس جہاںِ بیکراں میں خود کو ایک فولادی اور سپاٹ وجود ثابت کرنے پر تُل جاتا ہے۔ اُس کی یہ کوشش اِس کی زندگی کے ہر اُس لمحے کو راکھ کر ڈالتی ہے جس لمحے میں وہ سمندر کی گہرائیوں جتنا ٹوٹ جاتا ہے مگر اُس کے چہرے کے سنگدل خدوخال میں کوئی تغیر رونما نہیں ہوتا۔ اُس کا دل چاہتا ہے کہ وہ چیخ چیخ کر اپنے اِس چھوٹے سے دل میں قید اُس بے پناہ زہریلے مادے اور آنکھوں میں پوشیدہ قاتل آنسوؤں کو پھوٹ پھوٹ کر رونے کی صورت میں باہر نکال پھینکے مگر وہ ایسا کرنے کا اہل نہیں ہوتا کیونکہ اُس کی حیات پر تو روزِ اول سے برداشت و مردانگی کی مہر لگا دی گئی ہوتی ہے۔

اُس کی زندگی میں خواہ کتنا ہی بڑا واقعہ، حادثہ، رونما کیوں نہ ہو جائے، اِس کی آنکھیں کبھی نمی کی طرف مائل نہیں ہوتیں۔ معاشرے میں اِس کی یہ پہچان اُس کی شخصیت کے ساتھ کسی بوتل پر چپکے ہوئے لیبل کی طرح چسپاں ہوتی ہے کہ اُس کو رونے کی اجازت نہیں ورنہ جہاں میں لوگ اسے کم ہمت اور عدم برداشت کے طعنے دیتے دیر نہیں لگائیں گے۔ ایک مرد ہی تو جانتا ہے اُس کے دل میں موجود اُن بےرحم اور جلاد جذبات کو جو اسے ہر لمحہ ہر گھڑی کسی پھن دار سانپ کی طرح ڈستے رہتے ہیں مگر اُس کے بظاہر طاقتور نظر آنے والی ضبط و برداشت اسے وہ زہر اپنے جسم میں خون کے ساتھ بہاو پر مجبور کرتی ہے۔ دنیا چاہے جو بھی معیار رکھے ایک مرد کی مردانگی کا مگر یہ بات بھی اپنی جگہ ایک مسلم حقیقت ہے کہ مرد کے بھی جذبات ہوتے ہیں، وہ بھی ایک مخلوق ہے جس کے قبضہِ قدرت میں ہر ایک صدمے کو برداشت کرنے کی اہلیت نہیں۔ وہ بھی اپنے وجود پر اِس قدر قادر نہیں کہ خواہ دنیا اِدھر کی اُدھر کیوں نہ ہو جائے وہ رو نہیں سکتا۔ اپنے آنسوؤں کو کوئی راہ مہیا نہیں کرسکتا۔ ایسا نہیں ہے مرد روتا ہے اور اُس کے رونے کی آواز بڑی دلدوز اور کرب و اذیت ناک ہوتی ہے۔ ضرورت صرف اِس بات کی ہے کہ کوئی تو ہو جنہیں وہ بلند و بالا چیخیں سنائی دیں جو ایک قوی ہیکل مرد کے سینے سے بلند ہوتی ہیں۔ زمانے کی اِس بےاعتنائی، اِس بے حسی اور اس کھوکھلے رواج سے ایک بغاوت ہونی چاہئے۔ ایک ایسا نظریہ ایک ایسی سوچ جس میں کبھی کوئی کسی مرد کے آنسوؤں کو اُس کے مردانگی سے متصادم نہ گردانا جائے، اُس کے آنسوؤں میں موجود وہ دکھ و تڑپ محسوس کیا جائے جو دوسرے صنف کے آنسوؤں کو دیکھ کر محسوس کیا جاتا ہے۔

حروفِ آخر میں مرد کی اِس بیچارگی کی وضاحت ہے کہ جتنی تکالیف دوسرے جنس کو پہنچتی ہیں اُس سے کہیں زیادہ مرد کو برداشت کرنے کی عادت بن چکی ہے۔ ایک مرد ساری زندگی کبھی ماں، بہن، بیوی، بیٹی کی خاطر غم میں مسکرا دیتا ہے تاکہ اُن کو حوصلہ ملے کہ کوئی بات نہیں آپ کے ساتھ آپ کا بہادر بیٹا، بھائی، شوہر اور باپ کھڑا ہے۔ لیکن کس کو بتائے کہ سامنے اعتماد اور بھروسہ کی ایسی دیوار کھڑی کردی گئی جسے مرد چاہ کر بھی پھلانگ نہیں سکتا کہ کہیں میں دیوار سے پار گیا تو اُن کا کیا ہوگا جو اِس دیوار کی آڑ میں مجھ سے لاکھوں اُمیدیں باندھے بے خوف کھڑے ہیں۔ 

Advertisements
julia rana solicitors

بس اتنی سی استدعا ہے اہل عالم سے کہ اِس سوچ کو اور وسعت نہ دی جائے کہ تکالیف، زمانے کے بےرحم زخم، حالات کی شدت سے پسے ہوئے جذبات کی تلخیوں سے اگر مرد کا ایک بھی آنسو ٹپکا تو اُس کی مردانگی دُھل گئی سمجھو۔

Facebook Comments

عبداللہ خان چنگیزی
منتظر ہیں ہم صور کے، کہ جہاں کے پجاری عیاں ہوں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply