کیہانڑی اے کیہانڑ دی ۔ فہد احمد

بچپن میں دادی اماں سرائیکی لوک   کہانی سنایا کرتی تھیں کہ،

کہانڑی اے کیہانڑ دی ، بھیڈ موئی درکھانڑ دی ،

سارا ں گدی چوڑی چوڑی  کاکے کو ملی پوچھول کوڑی

چوڑی  چوڑی گھتی کنی اچ

کنی کرے بُس بُس ، کاکا ونے رُ س رُس

مفہوم کچھ اس طرح  ہے ، ( ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک ترکھان یا بڑھئی کی بھیڑ مر گئی ( یا ذبح کی گئی ) ،  اور اسکا  گوشت بانٹا گیا، سب کو اچھی اچھی بوٹیاں ملی، اور چھوٹے بچے کو کڑوا  دُم والا حصہ  ملا ، اچھی بوٹیاں ہانڈی میں  ڈالی گئی تو   ہنڈیا  پکنے  پہ جوش کی آواز آئے تو چھوٹا بچہ روٹھ جاتا ہے ۔ )

یہ تحریر  بذات خودکہانی  ، قصہ،داستاں ، کوئی خاکہ  ،  یا افسانہ ،   یا  ان میں سے کسی کا  احاطہ کرتی تحریر ہے ۔  ،  یہ شاید فیصلہ کرنا میرے لیئے بھی مشکل ہے ، مگر اصل مقصد آپ کو کہانی سنانا ہے ،   یا  ایک کہانی کی صورت میں  کئی کہانیاں سنانا مقصود ہے ،   چلیں چھوڑیں    یہ قصہ  تین کرداروں اور انکے ساتھ تین  سرداروں کا ہے ۔

                                             قصہ اول ،  رکھو اور ملک صاحب

رکھو کا اصل نام اللہ رکھا ہے ،  ( حالانکہ یہ نام بھی اصلی نہیں ہے  ، سچی ! )Image result for saraiki villager

رکھوکو ڈھونڈنے کے لیئے آپکو  “روہی  “کے ریگستان کا تصور کرنا پڑے گا  ،  رکھو کی بستی میں ایک ہی سرکاری  پرائمری سکول ہے جو بھلے وقتوں  میں انگریزوں نے بنوایا تھا،   اور اسکے بعد سے یہاں وڈیروں  (سردار) کی بھینسیں رہتی ہیں اور  وڈیروں کے  نوکروں کے بچے پڑھتے ہیں ، حالانکہ  پوری بستی وڈیروں کی نوکر نہیں ، مگر  وڈیرہ  صاحب کے لیے ساری بستی انکے والد محترم کے کی نوکر ہی ہے ،   خیر سرائیکی میں یہ بھی کہتے ہیں  ،اوئے وڈے آ میں تیڈے پیو دا نوکر آں ؟ ، کیا میں تمہارے والد محترم کا خادم ، زر خرید غلام ہوں ، خیر  دفع کریں، تو بات ایسی تھی کہ  ایک بارکچھ پڑھے لکھے بستی والے ، جن کو نہ پڑھنےدینے کی وڈیرے نے ہر  ممکن کوشش کی تھی ، کے پاس گئے اور کہا کہ  بستی میں ایک پرائمری سکول ہے ، اسکو  مڈل سکول اپ گریڈ کرا دیں ، شہر دور ہے ،بچے باہر نہیں جا سکتے اور یہاں رہ کہ بھی تعلیم مکمل نہیں کر سکتے ،   سکول مڈل ہو جاے گا تو چلو کچھ پڑھ لیں گے ،  وڈیرہ سائیں نے رکھو کے پرائمری پاس بیٹے  سے کہا کہ ، بھاگ کر جاو اور سکول سے دودھ لاو اور مہمانوں کے لیئے چائے بناو،   ساتھ گویا ہوئے ،  ارے سرکار ، سکول مڈل ہو گیا  توبھینسیں کون  نہلائے گا، دودھ کون نکالے گا، اور چائے کون بنائے گا  ؟ اتنے میں چائے آگئی ، رکھو نے چائے پیش  کی ،  رکھو کا بیٹا بھینسوں کو چارا ڈالنے سکول دوبارہ چلا گیا  !

منظر ۔۔۔  پنجاب ہمارے وسائل ہمیں نہیں دے رہا ،  ہمیں نوکری ، تعلیم نہیں دے رہا ، پنجابی ہمارے بجٹ پہ قابض ہیں ،  پچھلے ہی ماہ ترقیاتی بجٹ کی خرد برد  سے ستر لاکھ کی کار خریدنے کے بعد ، سائیں کا ایک جلسے سے اجتماع میں نعرہ – !  ساڈی جند ساڈی جان ۔۔۔ستان ، ۔۔ستان

رکھو گنگنا رہا ہے  ! ساراں گدی چوڑی چوڑی ، ساکوں ملی پوچھل کوڑی

           قصہ دوئم ، ڈتو اور وڈا سائیں  !

“ڈتو   “کا تلفظ سمجھنے کے لیئے آپ کسی سندھی یا سرائیکی دوست سے رابطہ کیجئے ،

خیر ڈتو کا معنی ہےدیا گیا ، اسکا اصل نام اللہ ڈتہ تھا،  

یہ نام بھی شاید اسکے والدین نے سوچ سمجھ کر رکھا تھا،مگر یہ ڈتو کسے دیا گیا تھا، اسکے والدین کو ،یا ایک اور” مقروض مزارع کسان یا  ہاری ” کے مالکوں کا ایک اور غلام پیدا ہوا تھا ،  ہمیں کیا پتہ  ؟

ڈتو کی ماں کا انتقال چند سال قبل ٹی بی کی بیماری سے ہوا،سچل سرمست سرکار کی نگری کے ایک گوٹھ میں اس بیچاری کی موت  کی وجہ طبی سہولتوں کا فقدان تھا کہ قریب ترین اسپتال  گوٹھ سےتین سو کلو میٹر دور تھا، اور کھانے کو لالےتھے ، علاج کے لیئے رقم کہاں سے آتی ،  کچھ قرضہ لینےکے لیئے گاؤں کے نامداروں سے درخواست کی مگر ملنے والی  ادھار رقم کا مصرف کفن دفن کے سوا کچھ نہ  رہا تھا،

اب یہ رقم کی واپسی کی ناکامی کی  قیمت کیا چکائی جاتی ؟ جان تو ویسے ہی گروی تھی ۔

اللہ ڈتا کو سائیں کی غلامی میں دے دیا گیا ، شاید ڈتو کی پیدائش کا مقصد کیا تھا ؟

منظر ۔۔۔۔۔  یہ ہماری ماں دھرتی کے دشمن ہیں ، یہ ہمارے وسائل کھا رہے ہیں ،یہ ہمارا حق مار رہے ہیں ،  ہم انکو مار بھگائیں گے ،  مرسوں مرسوں   گوٹھ نہ ڈیسوں !

Image result for ‫تھر کے ہسپتال‬‎

ڈتو  سوچ رہا ہے کہ میری ماں تو مر گئی ،  یہ کس ماں کی بات ہو رہی ہے ؟ وڈیرہ کی ماں  بیمار ہوئی تھی تو اسکو  ولایت  کے اسپتال لے گئے تھے علاج کے لیئے ، گوٹھ میں دعائیں کرائیں ، وہ تو ٹھیک ہو گئی تھی۔۔تو کس کی ماں کو بچانے کی بات ہو رہی ہے ؟ خیر اس نے نعرہ لگایا۔۔ کل بھی  سائیں زندہ  تھا آج بھی سائیں زندہ ہے ۔۔۔۔ مرسوں مرسوں  گوٹھ نہ ڈیسوں۔۔۔ !

پس منظر میں کوئی گنگنا رہا ہے ۔۔۔۔ ساراں گدی چوڑی چوڑی ،  ساکوں ملی پوچھل کوڑی ۔۔۔

                         قصہ سوئم واسو او ر سردار ۔۔

واسو کا اصل نام تو ہمیں بھی نہیں معلوم ہاں کچھ حلیہ  موہوم سا یاد پڑتا ہے کہ ،چھوٹا قد ، الجھی داڑھی ، بل دار مکرانی شلوار اور ہاتھ میں بندوق لیے ،مسکین سی صورت بناے تھا کہ گویا  بندوقکی گولیاں کھانے کو نہیں استعمال ہوتیں پیٹ کو تو روٹی درکار ہوتی ہے  ،سامنے ایک  صحت مند سا ادھیڑ عمر شخص تھا جو دکھنے میں واسو جیسا ہی تھا۔۔

مگر صحت مند و شکم سیری اسکے چہرے سے عیاں ہے ،سردار ، اس بار بارشیں بھی نہیں ہوئی ،  فصل بھی نہیں ہے ، پانی تک پینے کو نہیں ، گھر میں فاقے ہیں ،  کچھ رقم کا بندوبست کر دو ،  واسو گویا ہوا۔

سردار نے پانی کی بوتل اسکی طرف اچھالی اور کہا پی لو، ہزار کے چند نوٹ اسکی  طرف بڑھائے اور واسو کے ہاتھ آگے بڑھانے سے پہلے سے پیچھے کھینچ لیئے ،  اور کچھ سوچتے ہوے بولا، واسو

تمہارا بیٹا کیا کر رہا ہے  آجکل ، واسو نے ایک انجانے سے خوف سے پسینہ صاف کرتے ہوئے کہا۔۔

سرکار کچھ بھی نہیں کر رہا  آپکو پتہ ہے ، ہم لوگ ویسے مشکوک ہیں کہیں نوکری نہیں ملتی ،  لوگ اسے کہتے ہیں تمہارا باپ فراری ہے ۔  سردار کی آنکھوں میں چمک آئی ، بولا اسے یہاں لاو کل ،

ہم ان غاصب لوگوں کا منہ بند کریں گے اور تمہیں بھی خوش کریں گے ۔۔۔

منظر۔۔۔۔

کوہستان کے ایک وسیع و عریض میدان میں ایک جلسہ ہو رہا ہے ، ایک سیاست دان کہ رہا ہے کہ ہم آپکو تعلیم دیں گے ، پانی دیں گے ، روزگار  دیں گے ، بندوق مسلئے کا حل نہیں ، امن حل ہے۔ فراری ہتھیار ڈال دیں آو مل کر اپنے مسلئے حل کریں او ایک روشن مستقبل کی جانب قدمبڑھائیں ،  اپنے بچوں کو پڑھائیں نوکری دلایں ، اور دہشت سے باہر نکلیں ۔

ایک زور دار دھماکہ ۔۔۔۔ ایک نوجوان پھٹ چکا تھا۔۔۔ ایک گھر میں راشن پانی پہنچ چکا تھا، چند ماہ سکھ کے گزرنے والے تھے ۔۔۔۔

منظر ۔۔   بڑے سردار نے ولایت سے تمہارے لیئے رقم بھیجی ہے ،  ہم ان لوگوں کو چین سے نہیں جینے دیں گے جب تک یہ ہمیں حق نہ دیں  گے ، چھوٹے سردار نے بھی تمہارے لیئے تحفہ بھیجا ہے واسو،

چھوٹے سرکار ولایت میں کیا کرتے ہیں، کبھی انہیں  ہم نے ہمارے ساتھ بندوق اٹھائے ان غاصبوں کے خلاف لڑتے نہیں دیکھا ،   واسو نے سوال کیا ؟  یہ واسو کے بیٹے کی ہی عمر کا تھا ،

چھوٹے سرکار ولایت  میں پڑھ رہے ہیں ،  ہمارے حق کے لیئے دنیا والوں کو بتا رہے ہیں ،

واسو کے دماغ میں چند ہی الفاظ تھے ، پڑھ رہے ہیں ،  بندوق نہیں اٹھائی ،  ہمارا حق،اور ایک دھماکے کی گونج جو اسکے کانوں کی سماعت کو زائل کر رہی تھی ،

کوئی گنگنا رہا ہے ۔۔۔۔۔  ساراں گدی چوڑی چوڑی ، ساکوں ملی  پوچھل کوڑی ۔۔۔۔

۔۔اس  بات سے عوام کو فرق نہیں پڑتا کہ کس کی ہنڈیا میں کتنی بوٹیاں پک رہی ہیں ، کس کےدسترخوان پہ کتنے پکوان چنے گئے ہیں ، کس کے بچے کہاں پڑھ رہے ہیں ، حکومت  کرنے والاسردار ہے یا غریب ،  کوئی سپہ سالار ہے یا پھر کوئی جمہوریت کا علمبردار ، انکا چولہا جلنا چاہیئے،مصیبت میں انکی مدد و انکو روٹی کپڑ ا مکان ,تعلیم،صحت ،امن ،انصاف چاہیئے  ۔اور یہ دینے والا سردار ہو، یا مزدور ، کوئی آمر ہو یاجمہوری لیڈر  عوام کو اس سے فرق نہیں پڑے گا۔

میں  باوجود کسی حد تک سوشلزم  کوRelated imageپسند کرنے کے ، سرداری ، چوہدری ،وڈیرہ شاہی  نظام کا مخالف نہیں ،  میرے نزدیک چند سرداروں کی حکومت   اس سےبہتر ہےکہ ہر شخص سردار بن کر ظلم کا بازار گرم کر دے ، اور کوئی روک تھام کرنے والا نہ ہو۔ یہ نظام  کئی سنگین تر مسائل کے آگےایک مضبوط بند  باندھے ہوئے ہیں ، مگر نا انصافی اس بند کو کمزور کررہی ہے ،انسانوں کی فرعونیت عوام میں رد عمل پیدا کر رہی ہے ۔

Govt, opposition discuss PAC chairmanship

 

یہ اہل اقتدار  حکومتی ارکان و سربراہا ن   مزاحمتی اپوزیشن تحاریک پہ خدا کی عطا کردہ ذمہ واری ہے کہ اپنی عوام نکے ساتھ خوف خدا کا سلوک کریں۔عوام   کے حقوق و انکے ٹیکسوں کا پیسہ انکی فلاح پہ لگایں، انصاف دیں۔

وہیں قوم پرست لیڈران عوام کو اپنے مفاد کی خاطر مادر وطن کے

خلاف استعمال نہ کریں بھوک سےبلکتی عوام کو خون و بارود میں مت نہلایں ،حقوق کے نام پہ آگ میں مت جھونکیں۔

وہیں نوجوان بھی آنکھیں کھولیں انکے مسائل کا حل   تعلیم ، شعور ، آگاہی  اور ریاست کا ہاتھ تھام کر ظالموں سے اپنا حق لینا ہے ، ریاست یا ریاستی اداروں یا عوام کے خلاف نفرت سے کچھ حاصل نہیں اوربیرونی مددگار آپ پہ پیسہ پھینک کر تماشہ دیکھیں گے ۔

ہم میں سے ہر ایک کو لگتا ہے کہ ہمیں ہی کڑوی دم ملی ہے باقی سب تو بوٹیاں کھا رہے ہیں ۔  لیکن در اصل صرف مخصوص حکمران طبقہ ہی بوٹیاں کھا رہا ہے ، عوام کو ہر صوبے ، ہر شہر، ہر قصبے ، ہر  گاؤں ہر گلی میں ،

پوچھل کوڑی ، ہی مل رہے ہے ، بطور عام عوام کوئی آپ سے بہتر حالت میں نہیں ، آپکے مسائل کا   موجب و حل دونوں آپکے حکمران ہیں۔

اہل سیاست سمجھ لیں ۔ اب بھی وقت ہے نوشتہ دیوار پڑھا جائے ۔

ہمارے مسائل کا حل ہم نے کرنا ہے ۔ اس مقصد کے لیے عوام  میں  یکجہتی و  مملکت خداداد  پاکستان سے محبت  اور ہمارے مسائل کے حل کے لیئے مل بیٹھنے اور اہل اقتدار کو اس پہ مجبور کرنے کی ضرورت ہے ۔ یہ ملک آپکا ہے ، ریاست آپکی ہے ، اسکے مکین آپکے اپنے ہیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors

اللہ پاکستان کا حامی و ناصر ہو۔ آمین۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply