پارلیمانی پارٹی کا اجلاس کسی بھی سیاسی جماعت کیلئے بہت اہمیت کا حامل ہوا کرتا ہے جس میں اسمبلی کے منتخب نمائندے اور قیادت مل بیٹھ کر رواں اجلاس کے ایجنڈے یا کسی بھی اہم ایشو پر اتفاق رائے کا حصول یقینی بناتے ہیں جماعتی پالیسیوں پر بحث ہوتی ہے اور ممبران اپنے مسائل سے قیادت کو آگاہ کرتے ہیں۔
مڈل کلاس سے ابھرنے والا مجھ جیسا ایک ایسا ایم پی اے جو کبھی کونسلر بھی نہ بنا ہو زندگی میں پہلی بار پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں بیٹھا ہونقوں کی مانند ادھر ادھر دیکھے جا رہا تھا۔
اس وقت چودھری پرویز الہی وزیر اعلی پنجاب تھے کرسی صدارت پر جلوہ افروز ہوئے تو کاروائی کا آغاز ہوا، وزیر اعلی نے اراکین اسمبلی کو خوش آمدید کہا ،جماعت کی پالیسی واضح کی اور اسمبلی اجلاس میں متوقع قانون سازی پر روشنی ڈالنے کے بعد ہاوس کو اوپن کر دیا گیا اب تمام ممبران صوبائی اسمبلی اپنی اپنی باری پر سوال کرنے کو آزاد تھے۔
قصور سے ایک لمبے تڑنگے ایم پی اے گویا ہوئے
جناب وزیر اعلی آپ نے پہلے اجلاس میں فرمایا تھا کہ اب ہر ایم پی اے خود کو وزیر اعلی پنجاب ہی سمجھے کچھ دن قبل پولیس میرے حلقے کے میٹرک کے طالب علم کو تھانے اٹھا کر لے گئی اور تشدد کا نشانہ بنایا میں آپ کے کہنے پر خود کو وزیر اعلی پنجاب سمجھ کر تھانے چلا گیا وہاں جاکر ایس ایچ او سے شکوہ کیا کہ آپ نے اس طالب علم پر چھترول کیوں کی تو تھانیدار بولا
کی ہویا چودھری صاحب جے دو لتریاں پے گیاں۔۔۔
جناب میری سخت توہین ہوئی ہے ایس ایچ کے خلاف فوری ایکشن لیا جائے۔
وزیر اعلی کی یقین دہانی پر موصوف بیٹھ گئے،
اب بہاولپور سے ایک ایم پی اے صاحب اٹھے اور فرمایا۔۔۔
جناب وزیر اعلی میں کسی کام کے سلسلہ میں ممبر ریونیو بورڈ سے ملنے چلا گیا ان کے دفتر گیا تو صاحب بہادر میز پر ٹانگیں رکھے سگار سلگائے نیم دراز تھے مجھے دیکھ کر بھی وہ ٹس سے مس نہیں ہوئے اور الٹا بدتمیزی سے پیش آئے۔۔۔
جناب کیا ہم دفاتر میں ذلیل ہونے جاتے ہیں؟
وزیر اعلی پنجاب نے ان صاحب کو بھی یقین دہانی کرائی کہ آپ کی شکایت کا ازالہ کیا جائے گا۔
اب راولپنڈی سے ایک ممبر صوبائی اسمبلی اٹھے اور شکوے کے سے انداز میں کہنے لگے جناب وزیر اعلی مجھے فلاں ناکے پر پولیس نے روک لیا تعارف کرانے کے باوجود بد سلوکی سے پیش آئے
جناب میرے ساتھ سخت زیادتی ہوئی ہے۔
بس پھر کیا تھا ایم پی ایز کو تو زبان مل گئئ سب ہی پولیس انتظامیہ اور افسران کے خلاف بھرے بیٹھے تھے وزیر اعلی کو پھر مداخلت کرنا پڑی کہ سب ٹھیک ہو جائے گا
میں ایک کونے میں بیٹھا سب کچھ دیکھ اور سن کر ساری صورتحال کو سمجھنے کی کوشش میں تھا
میرا گمان یہی تھا کہ پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں ایم پی ایز وزیر اعلی کی موجودگی میں عوامی مسائل کا رونا روئیں گے اپنے حلقوں کی محرومی کا ذکر کریں گے اور عام آدمی کو انصاف کی فراہمی کیلئے آواز بلند کریں گے لیکن یہاں تو گنگا ہی الٹی بہنے لگی تھی۔
کسی ناکے پر روکا جانا کسی دفتر میں سرکاری افسر کی جانب سے پروٹوکول نہ ملنا یا پولیس افسران کا جی حضوری نہ کرنا یہ سب عوامی نمائندوں کی توہین کا باعث بنتا ہے۔
لیکن یہ استحقاق اس وقت مجروح کیوں نہیں ہوتا جب ان کے حلقے کے کسی بے گناہ انسان کو پولیس بری طرح ذلیل کرتی ہے توہین کا احساس اس وقت کیوں نہیں ہوتا جب ایک عام آدمی اپنے جائز کاموں کے لئے سارا دن دفتروں کی خاک چھانتا ہے؟
ثابت یہ ہوا کہ ووٹ کی پرچی سے انہیں استحقاق کے لائق بنانے والے ووٹر کی نہ کوئی عزت ہے نہ ناموس!
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں