کتکشا —- ظفرجی/فلم ریویو

اریٹیریم مال صدر کراچی کی رونقیں آج اپنے عروج پہ تھیں- خوبصورت حسین و جمیل دھلے دھلائے چہرے ، زلفِ دراز والے اصلی دانشور ، اخباری فوٹوگرافرز اور صحافی- فضاء نقرئی  قہقہوں ، جپھیوں ، پپیوں اور سیلفیوں سے مُنوّر تھی-

آج ” کتکشا” کا پریمئر تھا-

کسی شناسا چہرے کو ڈھونڈتے ہوئے میں ایک طویل قامت دیوہیکل بندے سے ٹکرا گیا- نقوش کچھ جانے پہچانے سے لگے- اپنی حسِ مشابہت کو ٹٹولا پھر معذرت خواہانہ لہجے میں پوچھا یہ علی سجاد شاہ صاحب کہاں ملیں گے ؟؟

وہ شہتیر قدرے آگے جھکتا ہوا بولا میں ہی علی سجاد شاہ ہوں- کیسے ہیں ظفرجی- ویلکم ٹو دی شو- پھر اس بزرگ نے جیب سے دو ٹکٹ نکال کر ہماری مٹھی میں دیے  اور کہا ریفریشمنٹ سامنے سے ملے گی-

ابھی ” کتاکشا” کے معنی پوچھنے ہی لگا تھا کہ حسینوں کا ایک جھُرمٹ اسے اڑاتا ہوا کہیں  سے کہیں لے گیا- میں ہاتھ ملتے ہوئے سوچنے لگا کل کا ابوعلیحہ کتنا تنہا تھا ، آج کا علی سجاد شاہ کتنا پاپولر ہے-

سینما کھلتے ہی لوگ بُھنّی ہوئی  مکئ اور پیپسی کے جام تھامے ہال کو لپکے- میں ریفرشمنٹ کی تلاش میں ادھر ادھر دیکھنے لگا- نگاہ ٹکٹ پہ نظر پڑی- معلوم پڑا کہ ایک ٹکٹ فلم کا ہے اور دوسرا ریفریشمنٹ کا- شکریہ علی سجاد شاہ-

” باجی” ، انابیلی ، سپائیڈر مین ، راکٹ مین اور بھاشا ڈیم کے اشتہارات ختم ہوئے تو قومی ترانہ بجا- خدشہ ہوا کہ کہیں کپتان کی تقریر کا پروگرام تو نہیں- سانس میں سانس تب آئی  جب کتاکشا پردہء سیمیں پہ جلوہ گر ہوئی – ہال میں ایک سکوت سا چھا گیا-

فلم جاندار ہے- کہانی سپنس، تھرلر ، انفارمیٹو ، اور ہارر- زیادہ ڈرنے کی ضرورت نہیں- ہیل ریزر ، اے نائٹ آن ایلم اسٹریٹ ، ہالوین ، یا ایگزارسسٹ والا گردن توڑ ہارر نہیں ہے- مبین گبول کا مزاح بھی ساتھ ساتھ چلتا ہے- مطلب گردن موڑنے کی پوری گنجائش ہے-

فلم میں سلیم معراج، مبین گبول، قاسم خان اور کرن تعبیر مرکزی کردار نبھا رہے ہیں- کم بجٹ میں بنائی گئی اس ہارر فلم کی کہانی چکوال میں واقع کٹاس راج مندر کے گرد گھومتی ہے-

ابوعلیحہ اس فلم کے ذریعے بتانا چاہتے ہیں کہ خوف ایک ایسی چیز ہے جو انسان اپنے آپ پہ خود طاری کرتا ہے- خوفزدہ شخص امید کے دروازے اپنے ہاتھوں سے بند کرتا جاتا ہے- پھر ہر سو یاس رقص کرتی ہے اور آس ڈھونڈنے سے نہیں ملتی-

طویل ڈائیلاگز مجھے ہمیشہ بور کرتے ہیں لیکن ابوعلیحہ کے قلم میں وہ جان ہے کہ ہال کئی  مکالموں پہ تالیوں سے گونج اٹھا- یقیناً  اس فلم کے بہت سے مکالمے فلمی تاریخ کا حصّہ بننے جا رہے ہیں-

سینماٹو گرافی کمال کی ہے- کلرکہار کے حُسن کو ایریل کیمروں سے شوٹ کر کے فلم بینوں کے دل لوٹ لیے  گئے ہیں- فلم رواں برس اگست میں لندن فرائٹ فیسٹ فلم فیسٹیول میں اسکریننگ کے لیے پیش کی جائے گی-

تنقید کےلئے بھی فلم میں بہت کچھ ہے- مثلاً وادی میں چلتی جیپ پہ اچانک خون کا لوتھڑا گرنا اور ہیرو کا گاڑی سے نکل کر اس لوتھڑے کی وجہ تلاش کرنا- ارے یار یہاں سڑک پہ لاش پڑی ہو تو لوگ گاڑی بھگا کے لے جاتے ہیں لوتھڑے کی کیا اوقات ہے-

جنگل میں بھاگتی ہیروئین کا تعاقب کرتی ان دیکھی روحیں- یار اس موقع پر سینے کو کلوز کر کے اگر سانس کی دھوکنی چلاتا تو عارف خٹک بہت خوش ہوتا- کسی دور میں نشو بیگم ایسے ہی ہارر سین دکھایا کرتی تھیں-

اسپیکر شاید میرے پیچھے ہی لگا تھا- ہارر میوزک کے ساتھ کبھی زور کی ” ٹھاہ ” کبھی زور کی ” ہاؤ”- میں ویسے ریح بادی کا مریض ہوں- یقین کریں پھکّی وہ کام نہیں کرتی جو اس فلم نے کر دکھایا-

کٹاس مندر کا نام عبدہ بھائی  سے سنا تھا- آج دیکھ بھی لیا- آپ دیکھنا چاہتے ہیں تو کتاکشا دیکھیے – یقیناً آپ اس فلم کے کرداروں کی طرح وہاں قید ہو کر رہ جائیں گے- رات کا اندھیرا ، اندھیرے میں بڑھتا ہوا خوف ، خوف سے قدم قدم بڑھتی موت-اور پیچھے سے زور کی ٹھاہ —  کانوں میں پاپ کارن ٹھونس کے دیکھنے والی فلم ہے-

تھینک یو علی سجاد شاہ- آپ کی کاوش کو سلام پیش کرتا ہوں- بقول عارف خٹک فخر اس بات کا ہے کہ ہمارا سوشل میڈیائی  فیملی ممبر فلم ساز کے درجے تک پہنچ گیا- کیوں نہ ہم بھی ایک پشتو فلم بنا ڈالیں- بدر منیر وِد سم نیو لُک-

Advertisements
julia rana solicitors

ہاں تو دوستو آج سے میں جناب علی سجاد شاہ صاحب کو باعزّت ان بلاک کرتا ہوں- یوتھ کے سر پھوڑنے والا یہ پتھّر یقیناً اب یاقوت بن چکا ہے- اگلی پروڈکشن کا انتظار رہے گا شاہ جی-

Facebook Comments

ظفر جی
ظفر جی فیس بک کے معروف بلاگر ہیں ،آپ سلسلے لکھنے میں شہرت رکھتے ہیں ۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply