• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • نون لیگ انٹرا پارٹی رسمی انتخابی کارروائی،جمہوری آمریت کی علامت۔۔۔۔۔ اداریہ

نون لیگ انٹرا پارٹی رسمی انتخابی کارروائی،جمہوری آمریت کی علامت۔۔۔۔۔ اداریہ

طاہر یاسین طاہر کے قلم سے
وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف نے مسلم لیگ نون کا  ایک بار پھرصدر منتخب ہونے کے بعد مرکزی کونسل کے چھٹے اجلاس سے خطاب میں منتخب ہونے والے پارٹی کے دیگر عہدے داروں کو مبارکباد پیش کی۔انہوں نے کارکنوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کی محبت سے بار بار پارٹی کا صدر منتخب ہوا، میرے نزدیک پارٹی کارکنوں کا بہت اہم مقام ہے۔یاد رہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے پارٹی انتخابات میں اکثر امیدوار بلا مقابلہ منتخب ہو گئے۔اسلام آباد میں مسلم لیگ (ن) کے جنرل کونسل کا اجلاس اسلام آباد میں ہوا، جس میں پارٹی کے مرکزی عہدوں پر انتخاب ہونے تھے، تاہم چیئرمین، صدر، 6 نائب صدور، سیکریٹری فنانس اور سیکریٹری اطلاعات کے عہدوں پر مطلوبہ افراد نے ہی فارم جمع کروائے، جس کی وجہ سے کسی بھی عہدے پر الیکشن نہیں ہوا۔مسلم لیگ (ن) کے پارٹی الیکشن کمیشن کے سربراہ چوہدری جعفر اقبال نے انتخاب کا اعلان کرتے ہوئے بتایا کہ نواز شریف کو بلا مقابلہ پارٹی کا صدر منتخب کر لیا گیا۔پارٹی کا چیئرمین سینیٹر راجہ ظفر الحق کو منتخب کیا گیا اور ان کا تقرر بھی بلا مقابلہ ہوا۔
مسلم لیگ (ن) کے 6 نائب سینیئر نائب صدر بھی بلا مقابلہ عہدوں پر مقرر ہوئے، جن میں سرتاج عزیز، سرنجام خان، چنگیز مری، امداد حسین چانڈیو، یعقوب ناصر اور سکندر حیات شامل ہیں۔پارٹی مالی معاملات چلانے کے لیے سیکریٹری فنانس پرویز رشید کا بلا مقابلہ انتخاب ہوا۔مسلم لیگ (ن) کے ترجمان مشاہد اللہ خان مقرر ہوئے، وہ بلامقابلہ سیکریٹری اطلاعات منتخب ہوئے۔پارٹی کے جنرل کونسل میں متعدد قرار دادیں پیش کی گئی، جس میں مختلف نواز شریف اور دیگر افراد کو تحسین کی گئی۔
خیال رہے کہ رواں ماہ کے شروع میں الیکشن کمیشن نے مسلم لیگ (ن) کو انتخابات کے حوالے سے انتخابی نشان الاٹ کرنے سے انکار کر دیا تھا جبکہ مسلم لیگ (ن) کو پارٹی الیکشن کروانے کی ہدایت کی تھی، پاکستان میں الیکشن کمیشن کے قوانین کے مطابق ہر 4 سال بعد ملک کی ہر سیاسی جماعت پارٹی انتخابات کروانے کی پابند ہے۔لیکن اس حوالے سے ایک رسمی کارروئی ہی ’’ڈالی‘‘ جاتی ہے۔اور پہلے سے نامزد عہدیدار ہی پھر سے’’بلا مقابلہ منتخب‘‘ ہو جاتے ہیں۔پاکستان پیپلز پارٹی،ایم کیو ایم،مسلم لیگ نون،درجن بھر سال قبل جنم لینی والی مسلم لیگ قاف،مسلم لیگ نون،جمیعت علمائے اسلام (ف) جمعیت علمائے اسلام (س) اور اے این پی ایسی سیاسی جماعتیں ہیں،جن کے صدور،صوبائی صدور،اور دیگر اہم عہدیدارن ’’بلا مقابلہ‘‘ ہی منتخب ہوتے ہیں اور کمال ’’مہارت‘‘ سے یہی منتخب صدور پھر نہ صرف پارٹی کارکنان کا شکریہ ادا کرتے ہیں بلکہ ملک میں جمہوریت کی مضبوطی اور پارلیمان کی بقا کا درس بھی دیتے ہیں۔ البتہ جماعت اسلمی ملک کی واحد جماعت ہے جس کا امیر جمہوریت طریقے سے منتخب ہوتا ہے اور اس کے دیگر عہدیدار بھی باقاعدہ انٹرا پارٹی انتخابات میں حصہ لے کر منتخب ہوتے ہیں۔ پی ٹی آئی  بھی اپنی پیشرو سیاسی جماعتوں کی روش پہ ہے اور اس کے ہاں بھی سربراہ عمران خان،اہم عہدوں پہ دیگر بڑے سیاسی’’کاریگر‘‘ براجمان ہیں۔یہ امر ناقابل تردید ہے کہ اگر الیکشن کمیشن نون لیگ کو تاکید نہ کرتا تو یہ رسمی کارروئی بھی نہ ہوتی۔ہماری سیاسی جماعتیں دراصل وراثتی سیاست کی  امین ہیں اور کسی بھی طرح اس روایت کو کمزور نہیں ہونے دے پا رہی ہیں۔ مسلم نون پہ شریف خاندان کا قبضہ ہے تو پیپلز پارٹی پہ بھٹو کے نام پہ زرداری خاندان قابض ہو چکا ہے۔جمعیت والی جماعت مولانا فضل الرحمٰن کی ملکیت ہے تو دوسری جمعیت مولانا سمیع الحق کی سیاسی جاگیر،اے این پی ولی خان کے خاندان میں آئی توقاف لیگ پہ چوہدری برادران کا ٹیگ ہے۔ القصہ پاکستانی عوام کو جب یہی ’’نامزد‘‘ صدور جمہوریت کا درس دیتے ہیں تو بڑا عجیب لگتا ہے۔لیکن اس میں ہماری سیاسی روایات اور معاشرے میں پائی جانے والی شخصیت پرستانہ رحجانات کا بھی قصور ہے۔اگر پیپلز پارٹی اور نون لیگ کے انٹرا پارٹی الیکشن میں کوئی بلاول بھٹو یا میاں نواز شریف کے مدمقابل پارٹی صدارت کے لیے کاغذات جمع کرائے تو کیا اس پر  عرصہ حیات تنگ نہ کر دیا جائے گا؟ کیا ایسے بندے کو فوجی اسٹیبلشمنٹ کا ’’کارندہ‘‘ نہ کہا جائے گا؟جمہوریت کو مضبوط کرنا ہے تو’’ جمہوری بادشاہوں ‘‘ کو  سب سے پہلے اپنی جماعتوں کے اندر جمہوریت کو مضبوط کرنا ہو گا۔ یہاں تو حال یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں کی کور کمیٹیوں کے اجلاس میں بھی کوئی اختلافی بات نہیں کرتا مبادا کہ جمہوری بادشاہ کے مزاج نازک پہ گراں نہ گذرے۔اصلاح کا آغاز اپنی ذات سے ہوتا ہے۔ بالخصوص پیپلز پارٹی،نون لیگ اور پی ٹی آئی ،جو بہر حال اس وقت ملک کی بڑی سیاسی جماعتیں ہیں ،یہ اگر ملک میں جمہوریت اور انتخابی عمل کی مضبوطی کی دعوہ دار ہٰن تو انھیں سب سے پہلے جمہوری عمل کا آغاز اپنے انٹرا پارٹی الیکشن سے کرنا چاہیے ،جس کی نگرانی آزاد میڈیا اور سول سوسائٹی سمیت بین الاقوامی میڈیا بھی کرے،بصورت دیگر یہ سیاسی دھوکہ جو پاکستانی عوام مدتوں سے کھا رہےہیں آئندہ بھی کھاتے رہیں گے اور جمہوری آمر ہمیں جمہوریت کا درس دیتے رہیں گے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply