• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • اہل بیت سے محبت اور ملوکیت کے مظالم سے لاتعلقی کا اعلان۔۔۔ ظفر ندیم داؤد

اہل بیت سے محبت اور ملوکیت کے مظالم سے لاتعلقی کا اعلان۔۔۔ ظفر ندیم داؤد

مجھے حیرت ہوتی ہے جب کچھ دوست ملوکیت کے دفاع کو اہل سنت کا دفاع قرار دے کر اس کام میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ پہلی بات یہ سمجھنے کی ہے کہ اہل سنت کے نزدیک خلافت کا ادارہ ایک سیاسی انتظام تھا۔ یہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی سیاسی بصیرت اور حکمت تھی کہ انھوں نے اپنی فراست سے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ سے مل کر مسلمانوں کو متحد کیا اور ایک سیاسی نطام تشکیل دیا۔ تاہم حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس سیاسی نظام کی بنیاد سادگی، بیت المال کا صحیح مصرف، رشتہ داروں اور اعزاء کو اہلیت کے باوجود حکومتی نظم و نسق سے دور رکھنا، قابلیت اور میرٹ کو فروغ دینا، کسی عصبیت کو نمایاں نہ ہونے دینا۔ تمام مذاہب کے اور تمام مفتوحہ علاقے کے لوگوں سے یکسان انصاف کرنا، مشاورت کا ایک موثر انتظام، موروثیت سے دور رہنا اور عام افراد کو موثر جواب دہی کا حق دینا جیسے اصولوں پر رکھی۔

اگرچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بعد یہ سب اصول اتنی شدت سے نہیں نافذ رہے تاہم اس کے باوجود ان کی روح کو قائم رکھا گیا۔ یہی اصول اسلامی اقدار اور اصول قرار دیئے گئے۔ بعد میں خلافت راشدہ کی جگہ ملوکیت نے لی تو ان اصولوں کو پامال کیا گیا۔ ان اصولوں کے ساتھ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک اصول کی بہت پابندی کی۔ وہ اہل بیت سے غیرمشروط اور مکمل محبت اور عقیدت کا اظہار تھا، سیدنا حسن اور حسین رضی اللہ عنہ  کا ہر معاملے اور ہر موقع میں خیال رکھا جاتا۔ ہر اہم معاملے میں حضرت علی کرم اللہ وجہ سے نہ صرف بامقصد مشاورت کی جاتی بلکہ اکثر اوقات ان کے مشورے کو ہی اختیار کیا جاتا۔

خلافت سے ملوکیت میں تبدیلی کے ساتھ ہی باقی اصولوں کی طرح اہل بیت سے محبت کے اصول کی بھی نفی کی گئی۔ اس دور میں کسی بادشاہ نما خلیفہ کے سامنے پرامن اجتجاج کا تصور نہیں تھا۔ میں نے اپنے بزرگوں سے یہی طریقہ سنا اور دیکھا ہے کہ اہل بیت سے عقیدت اور محبت ایمان کا ایک اہم جز ہے۔ ملوکیت کا دفاع ایمان کا حصہ نہیں بلکہ وہ عام بادشاہوں اور سلاطین کی طرح تھے جنہوں نے کچھ اچھے کام اور برے کام بھی کئے۔ سوائے جناب عمر بن عبداٰلعزیز کے دور ملوکیت کی کسی بھی شخصیت کو مسلمانوں کا نمائندہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ ایسے میں اسلام کی نمائندگی اہل حکومت کے پاس نہیں اہل علم کے پاس تھی اور ان میں آئمہ اہل بیت کی حیثیث نمایاں تھی۔

چنانچہ اہل سنت، اہل تشیع کی طرح امام کے تصور کو تسلیم نہیں کرتے مگر ان آئمہ کو ان کے علم اور ان کی سیرت کی وجہ سے اسلام کا صحیح نمائندہ خیال کرتے ہیں۔ یہ سب آئمہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے علم اور حکمت کے وارث تھے۔ ان کے گھر فلاحی اور رفاعی سرگرمیوں کے مرکز تھے۔ ہر وقت دسترخوان، غریبوں، قرضداروں، مسافروں، یتیموں، بیوائوں اور مسکینوں کی مالی امداد، پرورش، اور بغیر کسی پروٹوکول کے سادہ زندگی گزارنا ان کی اہم خصوصیات تھیں۔

حضرت علی کرم اللہ وجہ کے بعد کسی بھی امام کی شناخت، جنگ جوئی، مہم جوئی یا حکومت سازی کے حوالے سے نہیں۔ بلکہ ان کا علم اور ان کی خدمت خلق ہی ان کا حوالہ ہے۔ جناب امام باقر کو تو تمام فقہی سکولوں کا استاد تسلیم کیا جاتا ہے۔ جناب امام ابوحنفیہ، امام مالک،اور امام جعفر صادق ان کے شاگرد تھے۔ امام موسی کاظم نے اتنی طویل قید و بند کے باوجود حکومت سازی کا کوئی دعوی نہیں کیا۔ اہل سنت و الجماعت ان آئمہ اہل بیت کے مقام اور فضلیت کی ہمیشہ قائل رہی ہے۔

مگر اب ایک خاص گروہ اہل سنت کے حوالے سے اپنی شناخت کروا رہا ہے جس کا اصرار ہے کہ ملوکیت کو خلافت ہی سمجھا جائے اور آئمہ اہل بیت کو تمام امت مسلمہ کا ورثہ قرار دینے کی بجائے صرف شیعہ امام ہی تصور کیا جائے۔ حالانکہ اہل سنت کے امام امام ابوحنیفہ اور امام مالک اپنے جید استاد امام باقر کے علاوہ اپنے ہم سبق اور ہم عصر امام صادق جعفر کا بھی غیر معمولی احترام کرتے تھے۔ اس کے علاوہ انھوں نے امام باقر کے بھائی اور بھتیجے زید بن علی اور یحیی بن زید کے خروج کو بھی غلط نہیں قرار دیا بلکہ نفس ذکیہ کے خروج کے حق میں تو فتوی بھی دیا۔

صوفیا کرام ان اماموں کو اپنا مرشد اور راہنما تسلیم کرتے اور ان سے فیض لیتے۔ حسن بصری نے حضرت علی اور امام حسن سے روحانی تعلیم حاصل کی۔ بعد میں بھی تمام صوفیوں نے اپنے ادوار میں آئمہ اہل بیت سے عقیدت اور محبت کا رشتہ رکھا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اہل سنت کی طرف سے اسلام کے ان نمائندوں سے دست برداری اور ان کو اہل تشیع کے مکمل حوالے کرنا اور ملوکیت کا دفاع کرنا، ان کے اپنے عقیدے اور ان کی اپنی ساکھ پر سوالیہ نشان لگاتا ہے۔ یہ لوگ امت مسلمہ کا مشترکہ سرمایہ ہیں اور بحثیث مسلمان ہم ان پر فخر کرتے ہیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply