قصہ ایک ہِٹ مین کا ۔۔۔۔ نسیم جان شنواری

سڑک پر ٹریفک رکی ہوئی تھی اور لوگوں کی بھیڑ جمع تھی۔ چودھری کا نوکر مجمعے کےپاس ایک لحظے کے لیے رکا اورادھر بڑھ گیا جدھر پولیس افسرایک مقتول شخص کی نعش کےپاس کھڑے، معلومات جمع کر رہےتھے۔ نوکر بیچارے کو معلوم نہیں کیا سوجھی کہ  کرائم سین کے بالکل قریب جا کر بڑےغصےسےمونچھوں کوتاؤ دیتے ہوئے لاش کو گھورنےلگا۔ پولیس ایک سپاہی نےاشارہ بھی کیا کہ تفتیش چل رہی ہے، سائیڈ پر ہوجا لیکن وہ پیچھے ہٹنے کی بجائے ایک قدم اور آگے بڑھ گیا اور مونچھوں کو تاؤ میں اکڑ بھی مزید بڑھ گئی۔

لاش پہ غصہ دکھانےاورپولیس والوں کو اپنی طرف متوجہ کرنےکے پس منظر میں بھی ایک دلچسپ اور تاریخی وجہ تھی۔ توکیوں نہ کرائم سین کوچھوڑ کرپہلےآپ کو وہ تاریخی وجہ  بتا دی جائے۔ اس کے بعد واپس اسی کرائم سین پر آجائیں گے۔

اس نوکرکی اپنے بچپن ہی سےحسرت تھی کہ چودھری اُس سےاپنی مالِش کرانے اور ٹانگیں دبوانے کی بجائے کوئی “باعزت” کام دے اور اس کی نظر میں چودھری کے سب سے باعزت ملازم اس کے باڈی گارڈ تھے۔ چودھری کی مالش کرتے اور ٹانگیں دباتے وقت  اس نے کئی بار دبے لفظوں میں اپنی اس خواہش کا اظہار بھی کیا تھا کہ اسے اپ گریڈ کر کےباڈی گارڈ بنادیا جائے۔ چودھری بھی یارباش ٹائپ آدمی تھا سو ایک روز اُس نے اپنے اصلی باڈی گارڈ یعنی گُلو سے کہہ دیا کہ اگلےقتل کےلیے نوکر کو ٹرائل بیسز پر ساتھ لے جائے۔ اس حکم کے ساتھ ہی اس نے گُلو سے کہا کہ اب اس بندےکا سٹیٹس مالشی سے ہِٹ مین پر اپ گریڈ تو ہونےوالا ہے تاہم مالشی کےفائر کا کیا بھروسہ؟ باڈی گارڈ گلو چودھری کی بات سمجھ گیا. چنانچہ اس نے پستول چلانے کی ضروری تربیت دینے کے بعد چودھری سےاس کےسابق مالشیے اور نئے ہٹ مین کےلیےپہلا ٹارگٹ مانگا۔

چودھری جو اپنےنوکرکی بہادری سےخوب واقف تھا، اس نے احتیاط سے کام لیتے ہوئے پہلی بار خاصا سافٹ ٹارگٹ یعنی عظیم نامی نوجوان منتخب کیا.عظیم نے جو چودھری کےمنع کرنے کے باوجود نہ صرف شہرگیا اورپڑھ لکھ کےواپس آیا بلکہ حکومت کو بار بار درخواستیں  دے کر گاؤں کےسرکاری سکول کو دوبارہ فعال بھی کروایا. یہ سرکاری سکول چودھری اپنےمال مویشیوں کےلیےاستعمال کرتاتھا اوراستادوں کی تنخواہیں بھی اپنےنوکروں کےنام پر ڈکارتاتھا لیکن عظیم کی کمٹمنٹ کی وجہ سےاب ایساممکن نہ رہا تھا. اسی لیےعظیم کوٹھکانے لگانا ضروری ہوگیا تھا۔

خیرموقع پہ پہنچ کرگُلو نےبغیرنمبرپلیٹ والی موٹر سائیکل روکی اورمفلرسےمنہ چھپا لیا جبکہ چہیتا نوکرپہلےہی منہ ڈھانپے ہوئےتھا. گُلونےاسےبتایا کہ ٹارگٹ بس گھر سے نکلنے ہی والا ہے. جیاسے ہی وہ گھر سے باہر آئے اس پر کم از کم تین گولیاں داغ دے۔ سفارشی سپورٹس مین ۔۔۔ سوری، سفارشی ہٹ مین بائک سےکسی جیمزبانڈ کی طرح اترا، ٹریگر پر اُ انگلی ٹائٹ کی اور اپنے پہلے قتل کے لیے تیار ہوگیا۔ چند سیکنڈ بعد گھر کا دروازہ کھلا اور اندر سے ایک لمبا تڑنگا غصیلا اباولر ۔۔۔ سوری، نوجوان برآمد ہوا۔ انجن سٹارٹ کرتے ہوئے گُلو نےچہیتےنوکر سےکہا: ”فائر” ۔۔۔۔۔ مگرفائرنہیں ہوا۔ گلو پھر چیخا۔ لیکن نوکر کی انگلیوں نےبیٹ ۔۔۔ سوری، پستول چلانےسےانکارکردیا۔ گُلوکی نظریکدم شوقیہ ہِٹمین صاحب کے جوتوں پہ پڑی جن پرمسلسل پیشاب بہہ رہا تھا۔ یہ منظر دیکھ کرگُلو کو اپنی جان بچانے کے لیےبیک اپ پلان بھی وائنڈ اپ کرنا پڑا اور سپورٹس مین صاحب ۔۔۔۔ مطلب ہِٹ مین صاحب کو اپنے پیچھے بٹھا کر فرار ہونا پڑا۔

واپس جاتے ہوئے ہِٹ مین صاحب کو جوش آیا اور انہوں نے بیٹ ۔۔۔ سوری گن کو اوپر کر کے دو تین ہوائی فائر کر ڈالے۔ عظیم نے بیچارے نے فائر کی آواز سنی تو واپس گھر میں گھس کر اپنی بارہ بور کی بندوق نکال لایا لیکن تب تک گُلو اس تیس مارخان کولےکرڈیرے پہنچ چکا تھا۔ راستےمیں اُسےاندازہ ہواکہ ہِٹمین صاحب نےشلوارنہ صِرف گیلی کررکھی ہے بلکہ رنگین بھی. بس پھرکیا تھا، ڈیرے پر پہنچتے ہی  ہِٹ مین صاحب کوجگتیں مار مار کر واپس اس کے پرانے کام یعنی مالش پر لگا دیا گیا۔ بیچارہ ہٹ مین تو نہ بن سکا لیکن اب وہ مالش کرتا یا ٹانگیں دباتا تو ساتھ ساتھ اپنی مونچھوں کو تاؤ بھی دیتا رہتا۔

اب آئیے واپس سڑک پر پڑی لاش کی طرف جہاں پولیس نے اس سابق ہِٹ مین اور حالیہ مالشیے کو پیچھے ہٹنے کو کہا لیکن وہ بار بار لاش کےقریب جا کر کبھی لاش کو اور کبھی  پولیس افسرکوعجیب غصیلی نظروں سےدیکھ رہا ہےتاکہ پولیس اُسےقتل کےسلسلےمیں گرفتارکرلے اوراُس کی بھی مشہور قاتل بننے کی تمناپوری ہو۔ اس کی ایکٹنگ دیکھ کر پولیس افسرمعاملہ بھانپ گیا اور اُسے اپنی طرف بلا کر کہا۔ بیٹا تو جتنی چاہے ایکٹنگ کرلے، تجھ پہ میں اس قتل کا شک بھی نہیں کرسکتا۔ تیری شکل ہی قتل کرنےوالوں جیسی نہیں، چل اب پرے ہٹ کر کھڑا ہو ورنہ مرغی چوری کے الزام میں یہیں چھترول کر دوں گا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اب آپ پوچھیں گےکہ یہ قصہ گھڑنے ۔۔۔ یعنی سنانےکا کیا مقصد ہےتو وجہ اس کی یہ ہے کہ جوشاہد آفریدی نے کہا ہےکہ ان پرمیچ فکسنگ کا الزام نہیں لگایا جا سکتا، وہ بالکل ٹھیک ہی تو کہا ہے. میچ فکسنگ تووہ کھلاڑی کرتا ہے جو کاکردگی دکھانے والا ہو، نہ کہ ہوائی فائرکرکےشلوار گیلی کرنے والا۔ اوپر جو آپ نےاُس سفارشی ہٹ مین کی بہادری دیکھی توکیا اُس پرکسی قتل کا الزام لگانا ٹھیک ہوگا؟ نہیں نا، بس یہی معیار بیچارے شاہد آفریدی کا ہےکہ فکسنگ کی آفرز تو تگڑے کھلاڑیوں کو کی جاتی ہیں، ہوائی فائرنگ کرکےشلوارگیلی کرنےوالے کھلاڑیوں کو نہیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply