نذر آصف محمود–عمار خاں ناصر

محترم آصف محمود نے محترم عمار ناصر کی مکالمہ پہ شائع ہونے والی تحریر کا جواب دیا۔ محترم عمار خاں ناصر نے اس پہ مختصر تبصرہ کیا ہے جو شائع کیا جا رہا ہے۔ شہادت حسین(ر) پر علمی مباحث اور اختلاف نقطہ نظر ہمیشہ سے موجود رہے ہیں۔ ضرورت ہے کہ علمی تحاریر مکالمہ رہیں، مباحثہ و مجادلہ نہ بن جائیں۔ اس لیے فیس بک وال کے بجائے سائیٹس و علمی جرائد ہی بہترین مقام ہیں۔ قارئیں کی دلچسپی کیلیے یہ علمی مکالمہ حاضر ہے۔ 

برادرم آصف محمود صاحب نے جو سوال اٹھایا، دراصل وہ سوال ہی درست نہیں۔ سوال یہ نہیں کہ امام حسین رض کے اقدام کا جواز یا عدم جواز عمار ناصر نے یا کسی اور نے طے کرنا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا امام حسین رض  کا اقدام فقہ وشریعت کی رو سے توجیہ کا تقاضا کرتا ہے یا نہیں؟

اس ضمن میں اہل تشیع تو کہہ سکتے ہیں کہ وہ کسی توجیہ یا دلیل جواز کا تقاضا نہیں کرتا، کیونکہ ان کے نزدیک امام معصوم ہوتا ہے جس کا قول وفعل فی نفسہ حجت ہے۔ لیکن اہل سنت کا عقیدہ یہ نہیں۔ ان کے نزدیک تو ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما بھی اپنے کسی بھی فیصلے کے جواز کے لیے شریعت سے دلیل پیش کرنے کے پابند تھے اور اگر ان کا کوئی قول یا عمل اس کے منافی محسوس ہو تو اس کی توجیہ ضروری ہے۔ اہل تشیع کی طرف سے ان حضرات کے جتنے بھی فیصلوں یا آرا کو خلاف شریعت قرار دیا جاتا ہے، علمائے اہل سنت نے ہمیشہ شرعی دلائل ہی کی روشنی میں ان کی توجیہ یا جواز ثابت کیا ہے۔ کسی نے آج تک یہ نہیں کہا کہ فلاں اور فلاں کون ہوتا ہے ان کے قول یا عمل پر سوال اٹھانے والا؟ سو ، سو باتوں کی ایک ہی بات ہے کہ ہم کسی بھی امام کو معصوم نہیں مانتے اور ہر ہر امام کا ہر ہر قول یا عمل اپنے جواز یا گنجائش کے لیے شرعی توجیہ واستدلال کا محتاج ہوتا ہے۔

ہاں، اس توجیہ میں نقطہ نظر مختلف ہو سکتا ہے۔ کچھ حضرات امام حسین رض کے اقدام کو شرعی ودینی لحاظ سے مطلوب ترین آئیڈیل سمجھتے ہیں۔ اچھی بات ہے، وہ اس کے حق میں دلائل دیں۔ میرا نقطہ نظر یہ نہیں ہے۔ میں اسے ’’گنجائش‘‘ ہی کے درجے کی چیز سمجھتا ہوں، اس لیے کہ میرے لیے یہ باور کرنا مشکل ہے کہ اس وقت صحابہ کا سواد اعظم تو مداہنت اور رخصت اور عافیت میں گوشہ گیر ہو گیا اور اکیلے امام حسین رض وہ فرد تھے جنھوں نے دین وشریعت کی حفاظت کا علم اٹھایا اور اگر وہ نہ اٹھاتے تو دین، دنیا سے غائب ہو جاتا۔

بہرحال یہ میرا نقطہ نظر ہے۔ اس سے اختلاف کیا جا سکتا ہے، لیکن حضرت امام علیہ الرحمہ کے قول یا عمل کو سوال یا توجیہ سے بالاتر قرار دینے کی جسارت سوچ سمجھ کر ہی کرنی چاہیے۔

محترم آصف محمود کی تحریر:

Advertisements
julia rana solicitors

makalma.com/asif-mahmood-10

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply