سالگرہ گزر گئی۔۔سلیم مرزا

“قلفی پچاس روپے کی ہوگئی ہے “میں نے رابی کو قلفی پکڑاتے ہوئے بتایا۔ اس نے کوئی ردِ عمل نہیں دیا ۔ چپ چاپ قلفی پکڑی، چل دی ۔محبت اور مہنگائی عورتوں کی سمجھ میں کب آتی ہے ۔
ہم دونوں غیر معمولی طور پہ معمول کی واک پہ تھے ۔جس کے آخر میں صرف موسمّی کے جوس کا ایک گلاس پینا طے تھا ۔لیکن خاتون ہر روز کہیں نہ کہیں بکھیڑا ڈال کر اکڑ جاتی ۔کل بھی اس نے مکئی کا بھٹہ کھایا اور کوک پی تھی ۔اور آج قلفی ۔۔۔وزن گھٹانے کی بجائے کچھ کھانے کے فارمولے پہ چل رہی تھی ۔
میری خواہش تھی کہ رابی زیادہ نہ سہی کترینہ جتنی اسمارٹ ہی ہوجائے ۔اسمارٹ سے مجھے ناہید اختر یاد آگئی ۔
“کل ناہید اختر نے میری کلاس لی تھی کہ آپ دونوں حلقے کے اجلاس میں افسانے پہ رائے نہیں دیتے “میں نے بتایا تو ربیعہ نے کوئی رسپانس نہیں  دیا ،بس اتنا کہا
“پھر “؟
“پھر کیا، میں نے بتادیا کہ ہم واک پہ جاتے ہوئے موبائل گھر چھوڑ جاتے ہیں، دیکھ نہیں سکے “؟
رابی نے بچی ہوئی قلفی کا گاڑیوں کی روشنی میں بغور جائزہ لیا ۔
“سیدھی طرح بتاتے کہ تم موبائل چھن جانے سے ڈرتے ہو،تمہیں پتہ ہے آج ناہید کی سالگرہ ہے ،اور میں نے اس پہ کچھ نہیں لکھا ”
میں چپ ہوگیا ۔واقعی مجھے نہیں پتہ چلا، لیکن اس کی دوست تھی اسے وش کرنا چاہیے تھا ۔ہم چپ چاپ چلتے رہے ۔
“کتنے دن ہوگئے، ہم چپ چاپ چل رہے ہیں ” ایک ریڑھی والا رانگ سائیڈ سے آرہا تھا ۔رابی رُک گئی، اسے بھی روک لیا
“یہ چکوترہ کتنے کا ہے “؟
“تیس کا ایک، ایک سو بیس کے چھ ”
وہ ریٹ پوچھ کر چل دی، میں نہیں گیا ،اور ایک چکوترہ اٹھالیا ۔”بیس روپے میں یہ دے دو یار ”
“نہیں، ایک تیس کا ”
“ہیں ہی بیس ”
میں نے کمال مہارت سے جیب سے بیس کا نوٹ ہی نکالا،
اندھیرا تھا، ریڑھی والے کی سمت غلط تھی شاید اسے گھر جانے کی بھی جلدی تھی ۔وہ مان گیا
رابی دو فرلانگ دور جاچکی تھی میں اس کے پیچھے بھاگا ،اس نے مجھے اور چکوترے کو ایک نظر سے دیکھا ۔چکوترہ لے لیا،
“چکوترہ گھر جاکر کھاؤں گی ،پہلے دو کباب کھاؤں گی “اس نے دور اٹھتے ہوئے دھوئیں کی طرف اشارہ کیا ۔کبابوں میں کروڑوں کلوریز ہوتی ہیں، چکوترہ اچھا ہوتا ہے ۔
“پلیز۔۔یہ کھا لو”
“نہیں ،کباب “اس نے میری طرف دیکھے بغیر چکوترہ میری طرف بڑھا، دیا ۔میں ہنس دیا ۔
“ناہید اختر کی سالگرہ کا کیک سمجھ کر کھالو “میں نے چکوترہ نظر انداز کرکے کہا ،
“ایک شرط پہ کھاؤں گی، ناہید کی سالگرہ پہ اسے آپ وش کروگے، ایک اچھی سی تحریر ۔جس میں اس کی شاعری ۔حلقے کیلئے اس  کی محنت، اس کا اخلاق اور ہم لوگوں کے ساتھ اس کی محبت سبھی کچھ ہو ”
گاڑی کی سفید لائٹ میں اس کے چہرے پہ”ڈیٹ ود این اینجل “والی فوبی کیٹس کی سی معصومیت تھی ۔
میں نے ایک لمحے کو ناہید اختر کے بارے میں سوچا ۔کن  اکھیوں سے چکوترے کو دیکھا ،
چکوترے کا پلڑا بھاری تھا
میں نے ہامی بھرلی ،حالانکہ میں کہہ سکتا تھا کہ تمہاری دوست ہے، تمہیں لکھنا چاہیے۔پتہ نہیں کیوں اب میں اسے کچھ نہیں کہتا۔
رابی نے چکوترے کو چھیلا اور قدم قدم کھانا شروع کردیا۔
رابی کتنی معصوم ہے، اسے سمجھ نہیں آتی کی جن حالات میں اس کا دماغ کام کرنا چھوڑ چکا ہے ۔میں بھی تو انہی کا شکار ہوں ۔میری بھی تخلیقی صلاحتیں کام نہیں کررہی ہیں ۔لیکن عورتوں کو محبت اور مہنگائی کب سمجھ  آتی ہے ۔؟
چلتے چلتے چکوترہ ختم گیا !

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply