• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • سیدنا حسین رضی اللہ عنہ مشاہیر عالم کی نظر میں۔۔۔ظفر ندیم داؤد

سیدنا حسین رضی اللہ عنہ مشاہیر عالم کی نظر میں۔۔۔ظفر ندیم داؤد

مسلمان جن شخصیتوں کو فخر کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں اور جو انسانی تاریخ کے لئے ایک مشترکہ ورثے کا درجہ رکھتی ہیں ان میں جناب حسین رضی اللہ عنہ کی شخصیت اپنے کردار، اپنے طرز فکر اور اپنی جدوجہد کے حوالے سے سب سے الگ ہے.  

سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی عظمت اور مقام کو صرف مسلمان ہی تسلیم نہیں کرتے بلکہ غیر مسلم مشاہیر بھی ان کو عزت اور منزلت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں جوش ملیح آبادی نے کہا تھا۔

کیا صرف مسلمان کے پیارے ہیں حسینؓ

چرخ نوع بشر کے تارے ہیں حسینؓ

انسان کو بیدار تو ہو لینے دو

ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسینؓ

اس سے پہلے سیدنا حسین کے بارے مرشد نے لکھا تھا

خواجہ معین الدین چشتیؒ:

شاہ است حسینؓ بادشاہ است حسینؓ

دین است حسینؓ دین پناہ است حسینؓ

سرداد نہ داد دست در دست یزید

حقا کہ بنائے لا الہ است حسینؓ

جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ سیدنا حسین کسی جنگ کے سلسلے میں کوفے جا رہے تھے یا وہ اقتدار کے لئے کوئی جوڑ توڑ کر رہے تھے ان کی عقل کو داد ہی دی جا سکتی ہے۔ اگر سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی سیرت کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ جناب حسین کا تعارف کسی جنگجو شخصیت کے طور پر نہیں ہے آپ نے اپنی نوجوانی یا اڈھیر عمری میں کسی جنگ میں راہنما کردار ادا نہیں کیا، اپنے والد کے ساتھ آپ جنگ جمل، جنگ صفین اور جنگ نہرواں میں شامل ضرور تھے مگر میدان جنگ یا سیاسی جوڑ توڑ میں آپ نے اپنے بھائی جناب محمد بن حنیفہ اور اپنے قریبی عزیز جناب عبداللہ بن عباس جیسا کوئی خصوصی کردار نہیں ادا کیا۔ آپ کا زیادہ شغف علم و حکمت کی ترویج اور درس و تدریس سے رہا۔ آپ کی زندگی کا زیادہ عرصہ علمی سرگرمیوں میں گزرا۔ علم کی ترویج کے بعد آپ کی سب سے زیادہ دلچسپی فلاحی اور رفاعی سرگرمیوں سے تھی مدینے میں آپ کا گھر ان رفاعی اور فلاحی سرگرمیوں کا مرکز تھا اس سلسلے میں آپ نے اپنے عظیم نانا صلی اللہ علیہ و سلم کی اتباع کی۔ چنانچہ مورخین نے ایسے ان گنت واقعات بتلائے ہیں کہ آپ کیسے مفلوک، مجبور اور بے بس لوگوں کا خیال رکھتے تھے بھوکوں کو کھانا، قرضداروں کا قرض ادا کرنا، ضرورت مندوں کی ضروریات پوری کرنا آپ کے خاندان کی وہ اعلی روایات تھین جس کو آپ نے اپنی زندگی میں جاری رکھا۔

اپنے بڑے بھائی جناب حسن رضی اللہ عنہ کی جناب معاویہ سے صلح کے بعد آپ نے اپنا زیادہ وقت عبادت اور علمی مصروفیت میں صرف کرنا شروع کیا۔ مدینے میں مروان جیسے بدترین دشمن کی موجودگی کے باوجود آپ نے کمال حکمت اور کمال صبر سے کام لیا۔ کبھی بھی ایسی کشیدگی پیدا نہیں ہونے دی کہ مسلح تصادم کی نوبت آئے۔ حتی کہ جناب حسن کو دفنانے کے مسئلے پر کشیدگی کو بھی کمال تدبر سے حل کیا اور اس بات کا خاص خیال رکھا کہ شہر نبوت کی ان کی وجہ سے کوئی بے حرمتی نہ ہو۔

بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ جناب حسین خلافت میں دلچسپی رکھتے تھے مگر عملا یہ بات غلط ثابت ہوتی ہے۔ مدینے میں اپنے حامیوں اور ساتھیوں کی بجائے صرف اپنے اہل خانہ اور چند قریبی ساتھیوں کے ساتھ سفر یہ ثابت کرتا ہے کہ آپ کوفے میں کسی جنگ کے ارادے سے نہیں جا رہے تھے یہی وجہ ہے کہ آپ نے راستہ روکنے والے حر تمییمی سے الجھنے کی کوشش نہیں کی اور نہ عمرو سعد سے کسی جنگ کی پہل کی کوشش کی۔ آپ نے آخر وقت تک کوشش کی کہ صلح کے کسی باعزت معاہدے کے ذریعے آپ کسی دور دراز مقام پر تشریف لے جائیں۔ مگر دشمن نے آپ کو کسی طرح ایسا کرنے کی مہلت نہیں دی

خلافت راشدہ، ساتھیوں سے مشاورت کے نظام، بیت المال کے صحیح استعمال، اعزا کو نوازنے کی بجائے میرٹ پر فیصلے کرنے اور کسی پروٹوکول اور شان و شوکت کے بغیر حکمران وقت کی طرز زندگی کی وجہ سے خلافت راشدہ کہلاتی ہے۔ مگر ملوکیت کے آغاز کے ساتھ ان تمام اقدار کو ایک ایک کرکے چھوڑ دیا گیا۔ اب ایک مطلق العنان حکومت تھی جس نے موروثی طور پر قائم رہنے کا فیصلہ کیا، یہ واضح طور پر اس معاہدے کی خلاف ورزی تھی جو جناب حسن اور دوسرے متحارب فریق میں طے پایا تھا اور جس کی وجہ سے جناب حسن نے حکومت سے دستبرداری اختیار کی تھی۔ مگر اس خلاف ورزی نے جناب حسین کو مجبور کیا کہ وہ حکمران وقت کی بیعت سے انکار کریں۔ اس انکار میں وہ اکیلے نہیں تھے بلکہ اس وقت کی چار ممتاز علمی شخصیتیں بھی شامل تھیں۔ جناب عبداللہ بن عمر، جناب عبداللہ بن زبیر، جناب عبداللہ بن عباس اور جناب محمد بن حنیفہ نے اس بیعت کا انکار کیا تھا۔ مگر حکمران جناب حسین کی بیعت میں خصوصی دلچسپی لے رہے تھے۔ ان کے نزدیک اپنی حکومت کو جواز دینے کے لئے اور اپنی موروثیت کو جائز ثابت کرنے کے لئے یہ بیعت بہت ضروری تھی۔

جناب حسین نے پہلے یہ ٹالنے کی کوشش کی مگر جب مدینے اور مکے کے حکمرانوں نے مجبور کیا تو آپ کے لئے اس سے سوا کوئی چارہ نہ رہا کہ آپ یہ دونوں شہر چھوڑ دیں۔ اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ آپ ان شہروں میں محفوظ نہیں تھے بلکہ مدینہ شہر آپ کے حمایتیوں سے بھرا ہوا تھا۔ مگر آپ نہیں چاہتے تھے کہ ان مقدس شہروں کی آپ کی وجہ سے بے حرمتی ہو اور یہاں جنگ و جدل ہو۔ یہ وہی وجہ تھی جس کے لئے جناب عثمان نے شہادت قبول کی تھی مگر اپنے ساتھیوں کو مفسدین سے لڑنے کی اجازت نہیں دی تھی اور جس وجہ سے جناب علی نے اپنا دارالحکومت مدینے سے کوفے منتقل کیا تھا کہ اس شہر کی حرمت مجروح نہ ہو۔

جناب حسین رضی اللہ عنہ صرف مسلمانوں کے لئے ایک قابل فخر ہسی نہہیں بلکہ غیر مسلم مشاہیر بھی ان کی عظمت کا اعتراف کرتے ہیں

مشہور انگریز ناول نویس چارلیس ڈکسن نے لکھا ہے

“میں نہیں سمجھتا کہ حسین کو کوئی دنیاوی لالچ تھا اگر ایسا ہوتا تو حسین اپنا سارا خاندان بچے و خواتین کیوں دشت کربلا میں لاتے۔ کربلا میں بچوں و خواتین سمیت آنا یہ ثابت کرتا ہے کہ حسین نے فقط اسلام اور رضائے الہی کے لئے قربانی دی۔”

 ایک دوسرے سکال ع ۔ ل ۔ پویڈ نے لکھا ہے 

“حسین نے یہ درس دیا ہے کہ دنیا میں بعض دائمی اصول جیسے عدالت، رحم، محبت وغیرہ پائے جاتے ہیں کہ جو قابل تغییر نہیں ہیں۔ اور اسی طریقے سے جب بھی کوئی برائی رواج پھیل جائے اور انسان اس کے مقابلے میں قیام کرے تو وہ دنیامیں ایک ثابت اصول کی حیثیت اختیار کر لے گا۔ گذشتہ صدیوں میں کچھ افراد ہمیشہ جرأت ،غیرت اور عظمت انسانی کو دوست رکھتے رہے ہیں ۔اور یہی وجہ ہے کہ آزادی اور عدالت، ظلم و فساد کے سامنے نہیں جھکی ہے ۔حسین بھی ان افراد میں سے ایک تھے جنہوں نے عدالت اور آزادی کو زندہ رکھا۔ ۔” 

ایک امریکی مورخ واشنگٹن ارونگ نے لکھا ہے 

“حسین کے لیے ممکن تھا کہ یزید کے آگے جھک کر اپنی زندگی کو بچا لیتے۔ لیکن مسلمانوں کے ایک راہنما کی ذمہ داری اجازت نہیں دی رہی تھی کہ آپ یزید کو ایک خلیفۃ المسلمین کے عنوان سے قبول کریں انہوں نے اسلام کو بنی امیہ کے چنگل سے نجات دلانے کے لیے ہر طرح کی مشکل کو خندہ پیشانی سے قبول کرلیا۔ دھوپ کی شدت طمازت میں جلتی ہوئی ریتی پر حسین نے حیات ابدی کا سودا کر لیا”

جناب مہاتما گاندھی کہتے ہیں، 

“دین اسلام کی طاقت شمشیر نہیں ہے بلکہ دین اسلام کی طاقت قربانی اور ایثار کی تاریخ ہے اور اس میں سر فہرست حسین کی قربانی ہے میں نے حسین سے مظلومیت کے دور میں فتح و کامرانی کا درس سیکھا ہے”

معروف مصنف تھامس کارلائل اپنی کتاب Heroes and Heroes Worship میں اپنا نقطہ نظریوں بیان کرتا ہے:

“کربلا کے المیہ سے ہمیں سب سے بڑا سبق یہ ملتا ہے کہ امام حسینؓ اور آپ کے ساتھیوں کو خدا تعالیٰ پر کامل یقین تھا۔ آپ نے اپنے عمل سے ثابت کر دکھایا کہ حق اور باطل کی کشمکش میں تعداد کی برتری کی کوئی حیثیت نہیں ہوتے ہیں اور بہادری کا جو سبق ہمیں تاریخ کربلا سے ملتا ہے وہ کسی اور تاریخ سے نہیں ملتا۔”

ایک اور عیسائی دانشور ڈاکٹر کرسٹوفر اپنی آرزو ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں ’’کاش دنیا امام حسینؓ کے پیغام‘ ان کی تعلیمات اور مقصد کو سمجھے اور ان کے نقش قدم پر چل کر اپنی اصلاح کرے‘‘۔

حضرت امام حسینؓ کے حوالے سے عیسائی مبلغ ڈاکٹر ایچ ڈبلیو بی مورنیو نے یوں اظہار خیال کیا ہے ’’امام حسین صداقت کے اصول پر سختی کے ساتھ کاربند رہے اور زندگی کی آخری گھڑی تک مستقل مزاج اور اٹل رہے۔ انہوں نے ذلت پر موت کو ترجیح دی۔ ایسی روحیں کبھی فنا نہیں ہوسکتیں اور امام حسینؓ آج بھی انسانیت کے رہنمائوں میں بلند مقام رکھتے ہیں‘‘۔

جے اے سیمسن کہتے ہیں ’’حسینؓ کی قربانی نے قوموں کی بقاء اور جہاد زندگی کے لیے ایک ایسی مشعل روشن کی جو رہتی دنیا تک روشن رہے گی‘‘۔

جی بی ایڈورڈ کا کہنا ہے:

“تاریخ اسلام میں ایک باکمال ہیرو کا نام نظر آتا ہے جس کو حسینؓ کہا جاتا ہے۔ یہ محمدؐ کا نواسہ‘علیؓو فاطمہؓ کا بیٹا‘ لاتعداد صفات و اوصاف کا مالک ہے جس کے عظیم‘ اعلیٰ کردار نے اسلا م کو زندہ کیا اور دین خدا میں نئی روح ڈال دی۔ حق تو یہ ہے کہ اسلام کا یہ بہادر میدانِ کربلا میں شجاعت کے جوہر نہ دکھاتا اور ایک پلید و لعین حکمران کی اطاعت قبول کرلیتا تو آج محمدؐ کے دین کا نقشہ کچھ اور نظر آتا‘ وہ کبھی اس طرح کہ نہ تو قرآن ہوتا اور نہ اسلام ہوتا‘ نہ ایمان‘ نہ رحم و انصاف‘ نہ کرم و وفا بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ انسانیت کا نشان تک دکھائی نہ دیتا۔ ہر جگہ وحشت و بربریت اور درندگی نظر آتی۔”

مہاراج یوربندسرنٹور سنگھ کہتے ہیں:

“قربانیوں ہی کے ذریعے تہذیبوں کا ارتقا ہوتا ہے۔ حضرت امام حسینؓ کی قربانی نہ صرف مسلمانوں کے لیے بلکہ پوری انسانیت کے لیے ایک قابلِ فخر کارنامے کی حیثیت رکھتی ہے۔ انہوں نے جان دے دی لیکن انسانیت کے رہنما اصولوں پر آنچ نہیں آنے دی۔ دنیا کی تاریخ میں اس کی دوسری مثال نہیں ملتی۔ حضرت امام حسینؓ کی قربانی کے زیر قدم امن اور مسرت دوبارہ بنی نوع انسان کو حاصل ہوسکتی ہیں بشرطیکہ انسان ان کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کرے۔”

انڈین نیشنل کانگریس کے سابق صدر بابو راجندر پرشاد کا قول ہے:

“کربلا کے شہیدوں کی کہانی انسانی تاریخ کی ان سچی کہانیوں میں سے ایک ہے جنہیں کبھی نہیں بھلایا جائے گا‘ نہ ان کی اثر آفرینی میں کوئی کمی آئے گی۔ دنیا میں لاکھوں کروڑوں مرد اور عورتیں اس سے متاثر ہیں اور رہیں گے۔شہیدوں کی زندگیاں وہ مشعلیں ہیں جو صداقت اور حریت کی راہ میں آگے بڑھنے والوں کو راستہ دکھاتی ہیں‘ ان میں استقامت کا حوصلہ پیدا کرتی ہیں۔”

سوامی شنکر اچاریہ کہتے ہیں:’’اگر حسینؓ نہ ہوتے تو دنیا سے اسلام ختم ہوجاتا اور دنیا ہمیشہ کے لیے نیک بندوں سے خالی ہوجاتی۔ حسین سے بڑھ کر کوئی شہید نہیں‘‘۔

مشہورافسانہ نگار منشی پریم چند لکھتے ہیں:’’معرکہ کربلا دنیا کی تاریخ میں پہلی آواز ہے اور شاید آخری بھی ہو جو مظلوموں کی حمایت میں بلند ہوئی اور اس کی صدائے بازگشت آج تک فضائے عالم میں گونج رہی ہے‘‘۔

ڈاکٹر سہنا کا کہنا ہے ’’اس میں اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں کہ دنیا کے شہیدوں میں امام حسینؓ کو ایک ممتاز اور بلند حیثیت حاصل ہے‘‘۔

ایک سکھ لیڈر سردار کرتار سنگھ اپنے احساسات یوں بیان کرتے ہیں ’’محمدؐ نے جو انسانیت کے بہترین اصول پیش کیے تھے حسینؓ نے اپنی قربانی اور شہادت سے انہیں زندہ کردیا۔ ان پر ہدایت کی مہر لگادی۔ حسینؓ کا اصول اٹل ہے‘‘۔

مشہور جرمن فلاسفر نطشے بلاامتیاز مذہب و ملت ہر قوم کی نجات کو فلسفۂ حسینیت میں یوں تلاش کرتے ہیں:

“زہد و تقویٰ اور شجاعت کے سنگم میں خاکی انسان کے عروج کی انتہا ہے جن کو زوال کبھی نہیں آئے گا۔ اس کسوٹی کے اصول پر امام عالی مقام نے اپنی زندگی کی بامقصد اور عظیم الشان قربانی دے کر ایسی مثال پیش کی جو دنیا کی قوموں کی ہمیشہ رہنمائی کرتی رہے گی۔”

اردو ادب کے شہرہ آفاق نقاد اور دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر گوپی چند نارنگ اپنی کتاب ’’سانحۂ کربلا بطور شعری استعارہ‘‘ میں لکھتے ہیں :

“راہِ حق پر چلنے والے جانتے ہیں کہ صلوٰۃ عشق کا وضو خون سے ہوتا ہے اور سب سے سچی گواہی خون کی گواہی ہے۔ تاریخ کے حافظے سے بڑے سے بڑے شہنشاہوں کا جاہ و جلال‘ شکوہ و جبروت‘ شوکت و حشمت سب کچھ مٹ جاتا ہے لیکن شہید کے خون کی تابندگی کبھی ماند نہیں پڑتی۔ اسلام کی تاریخ میں کوئی قربانی اتنی عظیم‘ اتنی ارفع اور اتنی مکمل نہیں ہے جتنی حسین ابن علیؓ کی شہادت۔ کربلا کی سرزمین ان کے خون سے لہولہان ہوئی تو درحقیقت وہ خون ریت پر نہیں گرا بلکہ سنتِ رسولؐ اور دین ابراہیمی کی بنیادوں کو ہمیشہ کے لیے سینچ گیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ خون ایک ایسے نور میں تبدیل ہوگیا جسے نہ کوئی تلوار کاٹ سکتی ہے نہ نیزہ چھید سکتا ہے اور نہ زمانہ مٹا سکتا ہے۔ اس نے اسلام کو جس کی حیثیت اس وقت ایک نوخیز پودے کی سی تھی‘ استحکام بخشا اور وقت کی آندھیوں سے ہمیشہ کے لیے محفوظ کردیا۔”

یہ تھے امام حسینؓ کے حوالے سے چند غیر مسلم مفکروں اور ادیبوں کے خیالات ایسے ہی دیگر بے شمار غیر مسلم دانشوروں نے واقعہ کربلا میں امام حسینؓ کی حقانیت کو تسلیم کرتے ہوئے اسے انسانی فلاح کا ضامن قرار دیا ہے

یہ چند مشاہیر کی طرف سے کیا جانے والا تبصرہ تھا ایسے بہت سے غیر مسلم مشاہیر نے سینا حسین رضی اللہ عنہ کی بے مثال قربانی کے بارے لکھا ہے

Advertisements
julia rana solicitors

امام حسین رضی اللہ عنہ اور ان کا مقصد ایک خاص زمانہ اور ایک خاص عصر سے مختص نہ تھا۔ امام حسین رضی اللہ عنہ کو انسانی تاریخ میں ایک ابدی اور منفرد مقام حاصل ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply