ہم سایہ۔۔۔۔مرزا مدثر نواز/قسط1

خالد محمود حیران کن قوتِ حافظہ کے مالک‘ باصلاحیت‘ سماجی‘ ہمدرد اور شفیق استاد ہیں جنہیں ہم پیار سے بابا جی کہتے ہیں۔ بابا جی نے لاہور کے انتہائی مہنگے علاقے جوہر ٹاؤن میں بڑے شوق سے ایک کوٹھی نما گھر تعمیر کرایا لیکن کچھ عرصہ بعد اسے فروخت کر کے بیڈن روڈ پر اپنے بھائی کے ایک چھوٹے سے مکان میں رہنے لگے۔ میں نے بابا جی سے پوچھا کہ آپ نے اتنے اچھے و مہنگے علاقے میں واقع اپنا مکان کیوں بیچ دیا؟ تو انہوں نے فرمایا کہ اس کے پیچھے بھی ایک واقعہ ہے‘ ہوا یوں کہ ہمارا ایک ہمسایہ انتقال فرما گیا‘ لوگ اس کے دروازے پر کھڑے تھے کہ کچھ دیر بعد ساتھ والا ہمسایہ اپنی انتہائی مہنگی گاڑی لے کر باہر نکلا اور لوگوں کو دیکھ کر رک گیا اور پوچھا کہ کیا ہوا ہے؟ انہوں نے بتایا کہ فلاں اب اس دنیا میں نہیں رہا‘ یہ سن کر اس نے کہا کہ اللہ پاک ان کی مغفرت فرمائے‘ ساتھ ہی چشمہ لگایا‘ گاڑی کا شیشہ اوپر کیا اور اپنے دفتر یا منزل کی طرف روانہ ہو گیا۔ بابا جی کہنے لگے کہ یہ بے حسی دیکھ کر میں نے اسی وقت تہیہ کر لیا کہ میں اب اس امیر نما غریب علاقے میں نہیں رہوں گا۔
ہمارا رہن سہن‘ خیالات‘ قدریں اتنی تیزی سے تبدیلی کے راستے پر گامزن ہو جائیں گی‘ کبھی کسی نے سوچا بھی نہ تھا۔ ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا‘ ہمسائیوں کی دیواریں مشترکہ ہوا کرتی تھیں‘ قرب و جوار میں رہنے والوں کے دل باہمی پیار و محبت سے لبریز تھے‘ خواتین ایک دوسرے کے پاس بیٹھ کر روزانہ گھنٹوں اپنے‘ محلے اور گاؤں کے حالات پر دلچسپ گفتگو فرماتی تھیں‘ اسی طرح مرد بھی اپنے کام کاج سے فارغ ہو کر رات کو ایک دوسرے سے مختلف مسائل پر بات چیت کرتے تھے‘ عید اور دوسرے خاص مواقع پر گھروں میں کھانوں کا تبادلہ ہوتا تھا‘ شادی اور دوسرے خوشی و غمی کے موقع پر ہمسائے گھر کا فرد تصور کیے جاتے تھے‘ یہ سب کچھ میرے ہم عمر لوگوں نے بچپن سے لڑکپن تک دیکھا۔ وقت نے پلٹا کھایا اور آج یہ سب کچھ ایک خواب سا بن  کر رہ  گیا ہے‘ میل جول‘ گپ شپ‘ احساس و ہمدردی تو دور کی بات‘ سالوں ساتھ رہنے والے ایک دوسرے سے ناآشنا ہوتے ہیں۔آج کے اس تیز ترین دور میں کسی کے پاس دو گھڑی بیٹھنے اور ہمدردی کے دو جھوٹے بول بولنے کے لیے بھی وقت نہیں ہے‘ کیا ہماری زندگی کا مقصد صرف مال و دولت کا حصول ہی رہ گیا ہے؟

ہر مذہب نے ان دو انسانوں پر جو ایک دوسرے کے قریب آباد ہوں‘ آپس کی محبت اور امداد کی ذمہ داری رکھی ہے کہ وہی وقت پر ایک دوسرے کی مدد کو پہنچ سکتے ہیں۔ ایک اور نکتہ یہ ہے کہ انسان کو اسی سے تکلیف اور دکھ پہنچنے کا اندیشہ بھی زیادہ ہوتا ہے جو ایک دوسرے سے زیادہ قریب ہوتے ہیں‘ اس لیے ان کے باہمی تعلقات خوشگواراور ایک کو دوسرے سے ملائے رکھنا ایک سچے مذہب کا سب سے بڑا فرض ہے‘ تا کہ برائیوں کا سدِ باب ہو کر یہ پڑوس دوزخ کے بجائے بہشت کا نمونہ ہواور ایک دوسرے کی محبت اور مدد پر بھروسہ کر کے باہر نکلے اور گھر میں قدم رکھے۔وحی محمدی نے ہمسایہ کے پہلو بہ پہلو ایک اور قسم کے ہمسایہ کو جگہ دی ہے‘ جس کو عام طور سے پڑوسی اور ہمسایہ نہیں کہتے‘ مگر وہ ہمسایہ ہی کی طرح اکثر ساتھ ہوتا ہے‘ جیسے ایک سفر کے دو رفیق‘ ایک مدرسہ کے دو طالب علم‘ ایک کار خانہ کے دو ملازم‘ ایک استاد کے دو شاگرد‘ ایک دکان کے دو شریک‘ کہ یہ بھی در حقیقت ایک طرح کی ہمسائیگی ہے اور اس کا دوسرا نام رفاقت اور صحبت ہے‘ ان سب قسموں کے ہمسایوں میں تقدم اس کو حاصل ہے جس کو ہمسایہ ہونے کے علاوہ قرابت یا ہم مذہبی کا یا کوئی اور دوہرا تعلق بھی ہو‘ ارشاد باری تعٰالی ہے کہ ”(اور اللہ نے) ہمسایہ قریب اور ہمسایہ بیگانہ اور پہلو کے ساتھی کے ساتھ (نیکی کا حکم دیا ہے)، نساء،۳۶“
اس حکمِ الہی کی تفسیر آپﷺ نے مختلف طریقوں سے فرمائی‘ سب سے بڑھ کر یہ کہ آپ نے اس کو ایمان کا براہ راست اثر اور نتیجہ فرمایا‘ ایک دن صحابہ کے مجمع میں آپ تشریف رکھتے تھے کہ  فرمایا ”اللہ کی قسم وہ مومن نہ ہوگا‘ اللہ کی قسم وہ مومن نہ ہو گا‘ اللہ کی قسم وہ مومن نہ ہو گا‘ جاں نثاروں نے پوچھا کون یا رسول اللہ! فرمایا وہ جس کا پڑوسی اس کی شرارتوں سے محفوظ نہیں“۔ ایک اور موقع پر فرمایا جو اللہ اور روز ِجزا پر ایمان رکھتا ہے اس کو چاہیے کہ اپنے پڑوسی کی عزت کرے۔ ایک اور موقع پر فرمایا کہ جو شخص اللہ اور روز ِ جزا پر اعتقاد رکھتا ہے وہ اپنے پڑوسی کو ایذا نہ دے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے۔۔

Facebook Comments

مرِزا مدثر نواز
پی ٹی سی ایل میں اسسٹنٹ مینجر۔ ایم ایس سی ٹیلی کمیونیکیشن انجنیئرنگ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply