مغربی تہذیب اور ہمارا معاشرہ ۔۔۔۔ صبا فہیم

ایک دور تھا جب بچوں سے لے کر بڑوں تک سب اخلاق کے پیکر ہوا کرتے تھے. اب دور حاضر میں مسلم معاشرہ کئی خرابیوں میں مبتلا ہو رہا ہے. اخلاقی گراوٹ، بے حیائی جیسی برائیاں معاشرے میں عام ہو گئی ہیں جس کی اہم وجہ مغربی تہذیب ہے. جس برق رفتاری کے ساتھ مغربی تہذیب ہماری تہذیب کو متاثر کر رہی ہے، اس سے معاشرہ کئی طرح کے مسائل کاشکار ہوتا جا رہا ہے. ٹیلیوژن، انٹرنیٹ اور ماڈرن انفارمیشن ٹیکنالو جی کے ذریعے مغربی کلچر پروان چڑھ رہا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ہماری سوچ میں بھی تبدیلیاں پیدا ہو گئیں ہیں۔ جیسے کہ فیشن کے نام پر بےحیائی بےشرمی اور بیہودگی کے مظاہرے دیکھنے کو مل رہے ہیں.

پہلے کے نوجوان بزرگوں کی نصیحتوں کو توجہ کےساتھ سنا کرتے تھے. ان سے بات کرتے وقت نظریں نیچی ہوا کرتی تھیں۔ آج بے دلی سے ان کی بات سنی جاتی ہے اور آنکھ سے آنکھ ملا کر گفتگو کی جاتی ہے ، ہر بات کا جواب دیا جاتا ہے ، بد زبانی عام ہو گئی ہے اور نوجوان بزرگوں کا احترام کرنے کی بجاۓ گستاخی کرنے لگے ہیں. پہلے نوجوان نہ صرف اپنے والدین کا بلکہ ان کے ہر حکم کا احترام کیا کرتے تھے لیکن آج والدین کے ساتھ ہی بحث کی جاتی ہے۔ ان کی نصیحتوں کو زہر سمجھا جاتا ہے اور ان کے حکم کو نظر انداز کردیا جاتا ہے۔

آج کی اولاد والدین کی خدمت کو اپنا فرض نہیں بلکہ انہیں ایک بوجھ سمجھتی ہے۔ میرے خیال میں نوجوانوں میں اخلاقی پستی کی اہم وجہ مغربی تہذیب ہے اور مغرب کی ظاہری شان وشوکت سے آج ہر شخص مرعوب ہے حتیٰ کہ بول چال ، اٹھنا ، بیٹھنا ، کھانا پینا ، رہن سہن ، تعلیم و تہذیب ، اخلاق وآداب ہر طریقہ ،ہر اصول ہر چیز مغربی کی پس خوردہ ہے۔ مشرقی تہذیب پر مغربی تہذیب اس قدر اثر کررہی ہے کہ مغربی علوم فنون کی چھاپ صاف طورپر نظر آرہی ہے۔ اگر لوگ سوچتے ہیں تو مغرب کے دماغ سے، لوگ دیکھتے ہیں تو مغرب کی آنکھوں سے نیز اسی کے بخشے ہوئے افکار و خیالات پر زندگی کے مسائل کو حل کرنے میں مصروف ہیں جو مغربی تہذیب کی عطا کردہ ہے۔

مغربی ، مشرقی تہذیب سے بالکل جدا اور مختلف ہے۔ مغربی تہذیب میں مشترکہ خاندان کا رواج نہیں پایا جاتا ہے۔ صرف ہم دو ہمارے دو کا نعرہ لگایا جاتا ہے ، شادی ہوتے ہی والدین سے علیحدگی اختیار کرلی جاتی ہے ۔ مشرقی تہذیب میں مشترکہ خاندان کا رواج ہمارے آباء واجداد کے زمانے سے چلا آرہا ہے۔ سب ایک د وسرے کے دُکھ سکھ میں شریک ہوتے ہیں۔ لیکن آج کے نوجوان مشرقی تہذیب سے دور ہوتے جارہے.

آج بہت سے لوگ فیشن اور لباس کی تراش خراش کو بلندی کی علامت سمجھ رہے ہیں۔ ان کے نزدیک رنگ و روغن ، سازو سامان کی افراط اور اسباب و لوازمات ، زندگی کی ترقی کے ضامن ہیں مگر یہ بات دنیا کے دوسرے لوگوں کیلئے صحیح ہو تو ہو لیکن مسلم معاشرے کیلئے درست نہیں ہے۔ ہماری تہذیب کی عزت تو اس وقت ہوگی جب اسلامی شریعت ، اسلامی اخلاق ، اسلامی کردار ہوگا، وہ ہر لالچ سے پاک ہوگا۔ حق کو حق اور فرض کو فرض سمجھے گا۔ حرام اورحلال کو جاننے والا ہوگا

آج کل دنیا داری اورمادہ پرستی اس قدر بڑھ گئی ہے۔ دلوں کے اندر دنیا کی محبت بیٹھ گئی ہے نوجوانوں سے لیکر عمر رسیدہ شخص بھی دنیاداری کے چکر میں لگاہوا ہے۔ گھروں کاماحول اس قدر آلودہ ہوچکا ہے کہ حلال و حرام کا فرق ،صحیح اور غلط کا فرق جیسے انہیں کچھ معلوم ہی نہیں۔ والدین کا احترام کرنا آج کل کی نوجوان نسل مانو جیسے بھول ہی گئی ہے۔ نوجوانوں میں اخلاقی پستی کی اہم وجہ ماحول کا اثر ہے۔ جس ماحول میں بچہ آنکھ کھولتا ہے اس ماحول کا اثر ہے۔ اگر گھر کا ماحول ٹھیک نہیں ہے تو بچہ پر اس کا غلط اثر ہوتا ہے۔ بچے کے ا ندر اخلاقی پستی ، بدکرداری جیسی کئی برائیاں جنم لیتی ہیں اور گھریلو ماحول دیندار اور ا چھا ہو تو اس سے بچے پرا چھا ا ثر ہوگا۔ والدین کا اہم فریضہ یہ ہے کہ وہ اپنے بچوں کو بہتر سے بہتر معیاری تعلیم دیں اسکے ساتھ ساتھ دینی تعلیم سے آراستہ کریں، انہیں اچھی نصیحت کریں۔

کہتے ہیں کہ بچے کا پہلا مدرسہ ماں کا گہوارہ ہوتا ہے۔ اگر ماں تعلیم یافتہ ہو، دنیا کے رواجوں سے واقف ہو، دیندار ہو، تو بچہ بھی اپنی ماں سے اچھی پرورش وتربیت حاصل کرتا ہے۔ بچے گیلی مٹی کی طرح ہوتے ہیں جس سانچے میں ڈھالو اس میں ڈھل جاتے ہیں۔ بچوں کو ہر وقت یہ نصیحت کرو کہ تم زندگی دنیا داری کے حساب سے گزارو لیکن ہمیشہ دلوں میں خوفِ خدا رکھو جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کا خوف تمہارے دل میں ہمیشہ باقی رہے گا۔

والدین اپنے بچوں کو اچھی تعلیم ،اچھی تربیت اور اخلاق وکردار سے نوازیں ان کو ایک اچھا انسان بنائیں ، ان کے رگ وریشہ میں دین کی روح پھونکیں۔ ان کو غلط ماحول میں جانے سے بچائیں۔ کسی بھی قوم کاسب سے قیمتی سرمایہ بچے ہواکرتے ہیں۔ اس وقت وہ گود کا کھلونا ہیں مگر آگے چل کر وہی مستقبل کا معمار بنیں گے۔ ان کے کاندھوں پر قوم کی ذمہ د اری ہوگی تو وہ اس بارِ عظیم کو اچھی طرح اٹھاسکیں گے ورنہ انجام ظاہر ہے۔ کسی نے خوب کہا ہے

تیراسرمایہ تیری دولت یہی اک چیز ہے
ایک پل کردارکی تعمیر سے غافل نہ ہو

پہلے مائوں کی یہ خواہش ہوتی تھی کہ ہماری اولادیں ایک اچھا انسان اور مسلمان بنیں، دین کی خدمت کریں، اس لئے ہوش سنبھالتے ہی وہ اپنے بچوں کو دینِ اسلام کی تعلیم دیتی ،حلال و حرام کا فرق بتلاتی تھیں لیکن افسوس کہ آج کل اس طرف ذرا بھی توجہ نہیں دی جارہی ہے۔ آج کی مائیں چاہتی ہیں کہ ہماری اولاد یں پڑھ لکھ کر گریجویٹ ہوں، سوسائٹی کے لحاظ سے اپٹوڈیٹ کہلائیں۔ ان کے دل میں یہ خیال نہیں آتا کہ دینِ اسلام کی تعلیم سے بھی بچوں کو آراستہ کریں۔ والدین اپنے بچوں کو اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم دیں۔ علامہ اقبال نے بہت خوب کہا ہے : ’’اگر مسلم قوم کو دنیامیں سربلند ہوکر جینا ہے تو اسے اسلامی اقد ار کو اپنانا ہوگا۔ ‘‘

Advertisements
julia rana solicitors

جب نوجوان نسل کے اندر نیکی پاکیزگی صلح صفائی ، خدمت واطاعت کیلئے آمادگی ہوگی تو وہ دوسروں سے خندہ پیشانی سے ملے گی، اپنے والدین کی خدمت کرے گی اور حقوق وفرائض کی ادائیگی پر نظر رکھے گی۔ گویا محبت ، شرافت اور انسانیت کے مجموعی پیکر کا نام آدمی ہے۔ بلند کرداری اور اخلاقی برترقی ، سلیقہ مندی اور فراخ دلی کے لحاظ سے انسانیت کا جوہر اور نکھر کر سامنے ا ٓئے گا۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply