مارکس، مذہب اور مغالطے۔۔۔یوسف حسن

یوسف حسن خطہ پوٹھوہار سے معروف مارکسی دانشور ہیں۔ سن دو ہزار چودہ میں “ایکسپریس” نے انکا انٹرویو شائع کیا جو کئی فکری مغالطے دور کرتا ہے۔ بشکریہ ایکسپریس یہ انٹرویو شائع کیا جا رھا ہے۔ ایڈیٹر

ایکسپریس: ترقی پسندی کا بنیادی مسئلہ آخرکیا ہے؟

یوسف حسن: ترقی پسندی کابنیادی مسئلہ سماجی زندگی کے سارے شعبوں میں ایسی تبدیلی اور ارتقا ہے، جس سے ہر فرد کی جسمانی،روحانی اورذہنی صلاحیتوںکی آزادانہ اور مسلسل نشوونما ہوتی رہے، اس نصب العین کے حصول کے طریقۂ کار میں سماجی پیداواری عمل اور سماجی طبقاتی جدوجہدکو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ لینن کے مطابق اس کا میتھڈ اور موٹو چار لفظوں میں Enlightenment through class struggle بنتاہے۔

ایکسپریس: ہمارے ہاں اس پر ہوا کام تسلی بخش ہے؟

یوسف حسن: پاکستان میں دانش ورانہ یا علمی ترقی پسندی کچھ کم زور ہی ہے۔ علمی ترقی پسندی کاکام زیادہ تر درمیانے طبقے کے تعلیم یافتہ افراد کو کرناہوتا ہے، اس میں بہت سخت مقام آتے ہیں لہٰذا یہ تبھی کیاجاسکتاہے جب محنت کش عوام سے محبت گہری ہو۔ یہ محبت قیام پاکستان سے پہلے کے ترقی پسنددانش وروں میںزیادہ تھی اوراُسی نسل نے علمی ترقی پسندی کے مختلف شعبوںمیںکچھ کام بھی کیے لیکن یہ کام نئی نسلوںکی نظریاتی تعلیم و تربیت کے لیے کافی نہیں، ایک تو اس کی مقدارکم ہے، دوسرے اس کا معیار بھی تسلی بخش نہیں۔

ایکسپریس: ذرا معیار والی بات کی وضاحت کردیجے!

یوسف حسن: ہمارے بزرگ ترقی پسنددانش وروں نے ’سماجی تنقیدی عمل‘ کو بنیادبناکر لکھنے کے بجائے زیادہ تر ’’تحریک روشن خیالی‘‘ کی ’’عقلیت پسندی‘‘ اور اس کے دوسرے تصورات کے زیرِ اثر رہ کرعلمی کام کیااور وہ بھی عوماً عالمی سائنسی سماجی ترقی پسندی کے بنیادی ماخذوں کا براہ راست مطالعہ کیے بغیر؛ یہ کام سیاسی معیشت تک محدود ہے۔ سماجی زندگی کئی پہلو رکھنے والاکمپلیکس ہے، ہمیںنفسیات، بشریات، عمرانیات، تاریخیات، آثاریات وغیرہ جیسے شعبوںمیںبھی ترقی پسندانہ علم کی ضرورت ہے کیوںکہ ترقی پسندی پورے انسان کی آزادانہ نشو و نما کے لیے جدوجہدہے۔

ایکسپریس: مذہب کے ساتھ ترقی پسندی کاکوئی قضیہ بنتا ہے؟

یوسف حسن: بالکل بھی نہیں! مذہب اور خاص طور پر اسلام ہمارے لیے نہایت حساس معاملہ ہے۔ مارکس اور اینگلزاسلام کے ظہور کے اسباب اور کردار کو سمجھنے میں بڑے سنجیدہ تھے ، وہ اسے محمدیﷺ انقلاب Muhammadan Religious Revolution تسلیم کرتے تھے اور اسلام کے مختلف پہلوئوں پر آپس میں خط و کتابت بھی کرتے رہے مگر حیرت ہے کہ ہمارے اکثرترقی پسند اسلامی عقائد، شخصیات اور مسلمان اقوام کی تواریخ کے مطالعے ہی سے بے نیازہیں۔یہ ایک علمی المیہ ہے کہ ہمارے پاس پاکستان کے قدیم وجدیدسماج کی تاریخ کے سائنسی مطالعے پر مبنی مواد موجود ہی نہیںاور خاص طور پر ابتدائی صدیوں کی اسلامی تاریخ کابھی کوئی حقیقت پسندانہ معروضی تجزیہ نہیں کیاگیا۔

جب ہمارا دعویٰ ہی سماجی تاریخ کواپنے عوام کے حق میں تبدیل کرنے کا ہے توپھر پاکستان اور مسلمانوں کی سماجی تاریخ سے یہ لاتعلقی کیوں؟ سماجی نصب العین کوسامنے رکھا جائے تواشتراکی تحریک کااسلام سمیت کسی بھی مذہب سے براہِ راست کوئی تصادم نہیں۔ اس سلسلے میںمارکس اور اینگلز کا لکھا ہواکیمیونسٹ مینی فیسٹو بنیادی دستاویزہے، جس میںکسی بھی مذہب کے خلاف ایک سطربھی نہیں، کرسچیئن سوشلزم کی مخالفت اس کے کرسچیئن ہونے کی وجہ سے نہیں کی گئی بل کہ اس کے غیرمجاہدانہ ہونے کی وجہ سے کی گئی۔ روس کا معروف انارکسٹ باکونن پہلی کمیونسٹ انٹرنیشنل میں ’’ملحد سوشلسٹوں کے سیکشن‘‘ کی حیثیت سے رکنیت چاہتاتھالیکن مارکس نے یہ کہہ کر انکار کردیاکہ ورکروں کو مومنوں اور ملحدوںمیںمت تقسیم کرو۔

ایکسپریس: اور وہ افیون؟

یوسف حسن: افیون والا فقرہ مارکس کے 1844 کے مسودات میںآیا ہے، جب ابھی پختہ مارکس ازم کی تشکیل نہیںہوئی تھی، اس نے بعدکی تحریروںمیںاس بات کوکبھی نہیںدہرایا اور جو لوگ خصوصاً ہمارے روشن خیال عقلیت پسند، جومذہب پرتنقیدکو، طبقاتی جدوجہدپرترجیح دیتے ہیں، ان کے بارے میں مارکس نے ’’سرمایہ‘‘ کی پہلی جلدکے ایک فٹ نوٹ میں لکھاہے، کہ تجزیہ کرکے یہ دکھانا بڑا آسان ہے کہ کون سے آسمانی مظاہرکی بنیادکون سے زمینی مظاہرمیں ہے لیکن واحد سائنسی طریقہ یہ ہے کہ یہ دکھایا جائے کہ سماجی رشتے کن Processes سے گزرکرآسمانی مظاہرمیں تبدیل ہوجاتے ہیں، میرے خیال میں جو شخص یہ سائنسی طریقہ استعمال کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا، اسے پہلے طریقے سے بھی دورہی رہناچاہیے۔

ترقی پسندوں کے لیے بنیادی تقسیم روشن خیالوںاورقدامت پسندوں کے درمیان نہیں، ظالموںاورمظلوموںکے درمیان ہے۔ مظلوم قدامت پسندہے یا روشن خیال؛ اس سے زیادہ اہم، اسے ظالموںکے خلاف متحدہ طبقاتی جدوجہد میں لاناہے اور لینن نے تو واضح ہدایت کی تھی کہ خطبوںاورپمفلٹوںکے ذریعے روشن خیالی مت پھیلائو، لوگوںکو طبقاتی جدوجہد میں لاکرروشن خیال بننے دو۔

ایکسپریس: سوشلسٹ، کمیونسٹ سماج میں فرد کی انفرادیت کے سوال پراکثرترقی پسند بدک جاتے ہیں؟

یوسف حسن: یہ حقیقت تلخ اور الم ناک ہے کہ اردو اور ہماری دوسری پاکستانی زبانوںمیںفرد، اس کی ذات، انفرادیت، یک تائی، شناخت اور آزادانہ نشوونماکی اہمیت اور ضرورت کے موضوع پر فلسفیانہ، عمرانیاتی اور نفسیاتی، کسی بھی علمی حوالے سے کوئی سائنسی مواد موجود نہیںاورالمیے پر المیہ یہ کہ خودترقی پسندوں کو بھی اس کمی کااحساس نہیں، سو نتیجہ یہ کہ فردکے مسئلے پر باہمی مکالمہ ہی دشوار ہو جاتاہے، ایک دوسرے سے بات کرنے میںبھی دقت اور سمجھنے میں بھی۔

سید علی عباس جلال پوری ہمارے ایک بڑے ترقی پسند روشن فکر مفکرہیں، بارہ کتابیں ہیںان کی، کسی میںبھی فردکی نظریہ سازی کے بارے میںبات نہیں، ہمارے عزیزحامدمدنی ایک بلند پایہ شاعر تو ہیںہی اس کے ساتھ واقعی ایک عالم ادبی نقادبھی ہیںلیکن فیض احمد فیض کے دفاع میں لکھی اپنی کتاب میں فرد کے مسئلے پر لکھتے ہیں کہ اُس وقت فرد کامسئلہ اتنا اہم تھا ہی نہیں ۔۔۔ ان کے اس جواز پر حیرت ہوتی ہے کیوںکہ اقبال اپنے خطبات اور شاعری میں، خاص طور پر ’’اسرار و رموزخودی‘‘ میں خودی یا ذات کی نظریہ سازی کرچکے تھے، جس کا بنیادی موضوع فردہی تھا پھر یہ کہ خود مارکس، فرد کے حوالے سے بنیادی نظریہ سازی 1845 میں کرچکا تھا، جس کے مختلف پہلو وہ باربار اپنی مختلف تصانیف میں سامنے لاتا رہا مگرہمارے ترقی پسنددانش وروں، ادبی نقادوں اور ادیبوں نے بھی فرد کی نظریہ سازی پر سائنسی تحقیق جاننے کی کوشش ہی نہیںکی۔ سوویت یونین میں جتنا اعلیٰ کام نفسیات اور فلسفے پرہوا، اس سے بھی ہمارے ترقی پسند اب تک بے خبر ہیں۔

سوویت ماہرین نفسیات اور فلسفیوں نے فرد کے بارے میں مارکس کے فلسفیانہ تعقلات کو علمی تحقیقات اورتجربات کی روشنی میںزیادہ نکھارکر پیش کیااوربتایاکہ سماجی پیداواری عمل میں کس طرح حیوانی فرد، انسانی فرد میں تبدیل ہوتا ہے اورجوںجوںجدید ذرائع پیداوارکی ترقی ہوتی ہے، انسان فطرت کے غلبے کے علاوہ محدود خاندانی اور قبائلی رشتوں سے بھی آزادہوتاجاتاہے اور اس کی انفرادیت نکھرنے اور نشو ونما پانے کے امکانات بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ سرمایہ داری میںافراد کے نشوونما کے یہ رشتے، زر کے واسطے کے محتاج ہوتے ہیں لیکن یہ ہی زر کے رشتے فرد کو آفاقیت بھی عطا کرتے ہیں۔

مارکس کا ایک دل چسپ فقرہ ہے کہ جس کی جیب میں زر ہے، گویا سارے سماجی رشتے اس کی جیب میں ہیں جب کہ زیادہ سے زیادہ سماجی رشتوںکوذات میںجذب کرنے ہی سے فردکی ذات ثروت مند اور یک تا ہوتی ہے۔ ترقی پسندوں کا حقیقی نصب العین زرکی غلامی ختم کرکے فردکی ہمہ جہت نشوونماہے۔ میں نے 2007 میں جناب احمدندیم قاسمی کی برسی پر لاہورمیںمنعقدہ جلسے میں اپنی گفت گو میں کہا تھا کہ ساٹھ کی دہائی کے جدیدیت پسندوں نے فردکی ذات کے انکشاف و اثبات وغیرہ کاسوال بجا اٹھایاتھا لیکن ترقی پسندوں نے کبھی اس کامعقول جواب نہیںدیا، خودجدیدیت پسندوں نے فردکی ذات کو Given یاپہلے سے عطاشدہ لے لیا، یہ کبھی سوچاہی نہیں کہ اثبات ذات سے تشکیل ذات کیوں کرہوتی ہے۔

سوویت یونین اور فرانس میںمارکسی ماہرین نفسیات نے فرد کی شخصیت اور ذات کی تشکیل کے موضوع پر جتنااعلیٰ کام کیاہے، ہمارے پاکستانی ترقی پسندوں کو نہ تب اس کی خبر تھی نہ اب ہے اور اب تو پہلے سے کہیںبہترعلمی اضافے ہوچکے ہیں۔ بہ ہرحال زیادہ فلسفیانہ بحث میں پڑے بغیر ہمارے لیے فی الحال قابل فہم نکتہ یہ ہے کہ سماجی عمل انسان کے انسان میں ڈھلنے کی اصل بنیادہے، سوشلائزیشن جتنی بڑھتی ہے، انفرادیت بھی اتنی ہی بڑھتی ہے۔ حقیقی ترقی پسندانہ تعلیمات کی رو سے فردکی انفرادیت کا اثبات اورنشوونما ہمارے بنیادی نصب العین کا مرکزی نقطہ ہے، جہاں تک ادب کا تعلق ہے تو انفرادیت کے بغیر کوئی سچا ادب پارہ ہو ہی نہیںسکتا۔

ایکسپریس: اسٹالن کواپنے ساتھیوںکے مقابلے میں کم تر، تھوڑا احمق اور خاصا سفاک دکھایا جاتاہے؟

یوسف حسن: ایک گروہ نے اسٹالن کو غیر مشروط طور پر مسترد کرنے کا رویہ اپنا رکھاہے۔ یہ مسئلہ اتناسیدھاسادہ نہیں، میںاس سلسلے میں امریکی مارکسی مفکر جے سن ڈبلیوا اسمتھ کے اس تجزیے سے متفق ہوں کہ پس ماندہ سماجوں کو ترقی یافتہ سوشلزم کی طرف جانے کیلیے سٹالنسٹ سوشلزم ’لازمی مرحلہ‘ ہے۔ صنعتی بنیاد کی تعمیر و توسیع کے بغیر محض نیک جذبات و خیالات سے سوشلسٹ سماج نہیںبنایاجاسکتا۔ لینن اور اسٹالن اس ضرورت کو سمجھتے تھے لیکن ٹراٹسکی اس کی اہمیت سے بے خبرتھا، وہ پس ماندہ سماج میں ترقی یافتہ سوشلزم کا نفاذ فی الفورچاہتا تھا۔

بالشویک ورکرتو ویسے بھی ٹراٹسکی کو قبول کرنے پر آمادہ نہ تھے، لینن اور اس کے مابین بنیادی اختلافات 1921 میں پیدا ہو چکے تھے۔ عبوری دور میں ’بیورو کریسی‘ سے کام لینا بھی ضروری ہوتا ہے اور اس کے خطرات سے آگاہ رہنا بھی۔ اسٹالن کی موت کے بعد سوویت بیوروکریسی خاص طور پر غالب آ گئی اور سرکاری سوشلسٹ معیشت کے متوازی زیرزمیںسرمایہ دارانہ معیشت بھی پھلنے لگی، جس نے آخر سوشلسٹ نظام کوبربادکر دیا۔ اس معاملے میں چین اور کچھ دوسرے سوشلسٹ ملکوں کی یہ پالیسی درست ہے کہ انہوں نے محدود سرمایہ داری بحال کرکے سرمایہ دارانہ ذہنیت رکھنے والوں کو ننگاکردیا اورصنعتی بنیاد کی توسیع کا عمل شروع کیاکیوںکہ اس کے بغیر سوشلسٹ سماجی نفسیات پیدا ہی نہیں ہوسکتی۔ سماجی شعورکاتعین سماجی وجودسے ہوتاہے تو سماجی وجود میں مرکزی حیثیت طرزپیداوارکوحاصل ہے۔

ایکسپریس: تو سوویت یونین کے انہدام میں اس کی بیوروکریسی کا ہاتھ رہا؟

یوسف حسن: امریکی مارکسی مفکر برٹیل اولمان کا تجزیہ ہے کہ ’سوویت بیوروکریسی‘ کی حیثیت محنت کش عوام کی Regency کی تھی، جب یہ محنت کش عوام پیداواری قوتوں کو نشو و نما دے کر خود بھی بلوغت کو پہنچ رہے تھے تو سوویت بیوروکریسی نے اقتدار کی امانت واپس ان کے حوالے کرنے کے بجائے نظام ہی توڑدیا۔ پاکستان میںبھی عوام دوست سماج کی تعمیر کے لیے اسٹالنسٹ سوشل ازم کے مرحلے سے گزرنا ضروری ہوگا مگر اس سے بھی پہلے ترقی پسندسیاسی قوتوںکی تنظیم نوضروری ہے۔

ایکسپریس: ایک حلقے کے مطابق ٹراٹسکی بہت ذہین لیڈر تھا، آپ اس کی ترقی پسندانہ آگہی کو مشکوک قرار دیتے ہیں؟

یوسف حسن: ٹراٹسکی کو لینن انقلاب سے چند ماہ پہلے جولائی 1917 میں بالشویکوں میں لے کر آیاتھا، وجہ یہ کہ ٹراٹسکی انگریزی محاورے کے مطابق Big Mouth یعنی بڑبولا تھا اور لینن کو پیٹرزبرگ میں اپنے حریفوںسے مقابلے کے لیے ایسے ہی آدمی کی ضرورت تھی۔ خانہ جنگی کے دوران ٹراٹسکی کو سرخ فوج کاسربراہ بنایاگیا لیکن اسٹالن نے نہایت دانش مندی سے کام لیتے ہوئے دو ایسے جنرل بھی لگادیے جو اس پرنظر رکھتے تھے۔ اسٹالن کے بارے میں جو حقائق گوربا چوف کے دور میںچند آرکائیوز کھلنے پر سامنے آئے، ان کی روشنی میں اسٹالن ایک بالکل مختلف شخص نظرآتاہے۔

وہ دوسری عالمی جنگ شروع ہونے سے پہلے نان پارٹی امیدواروں کے الیکشن لڑنے، ایک سے زیادہ امیدواروں اور خفیہ رائے شماری کے حق میں اپنی بیورو کریسی سے لڑ رہا تھا اس کے علاوہ ٹراٹسکی سمیت دوسرے اکثر روسی مارکسی دانش ور، جو بیرون ملک رہ رہے تھے، اشرافیہ سے تعلق رکھتے تھے اور ان کے اپنے محنت کش عوام کی جدوجہد سے براہ راست کوئی رابطے نہیں تھے جب کہ اسٹالن، لینن کے خاص شاگردکی حیثیت سے مزدور یونینوںکی ہتھیاربند ہڑتالیں منظم کررہاتھا اور سرکاری خزانے لوٹ لوٹ کر لینن کو فنڈز بھی بھجوارہا تھا، یہ ہی نہیں، لینن کا اخبار Iskra (چنگاری) بھی غیر قانونی طور پرجاری رکھے ہوئے تھا، اسٹالن ہی کی وساطت سے لینن کے محنت کشوںسے رابطے تھے۔

اسٹالن دوسروں کی بات نہایت غور سے سنتا تھا، اس کے بارے میںکہاجاتاہے ’’وہ گھاس کے اگنے کی آواز بھی سنتاہے‘‘، عوام کی طرف سے شکایات پر مبنی ساری ڈاک وہ خودپڑھتاتھا۔ ’’ایک ملک‘‘ یعنی روس میں سوشل ازم کی تعمیر کے لیے اس نے کوئی باقاعدہ نظریہ سازی نہیںکی۔ ٹراٹسکی نے پولینڈ میں جرمنوں کے ساتھ جبروتشدد کا جو سلوک کیا، اس سے روس، جرمن ورکروں کی حمایت کھوبیٹھاتھا، اسی باعث جرمنی اور باقی یورپ میں انقلابات نہیں آئے، سرمایہ داروں نے روس کو امداد دینے سے ہاتھ کھینچ لیاتھا، ایسے حالات میںروسی عوام میںیہ احساس پنپ رہاتھاکہ انہیں خود ہی ملک میں سوشل ازم کو تعمیر کرنا چاہیے۔

اسٹالن نے محض عوامی جذبات واحساسات کو محسوس کرکے ’ایک ملک‘ میں سوشل ازم کی تعمیر کااعلان کر دیا حال آںکہ دو ماہ پہلے تک وہ خود ’ایک ملک‘ میں سوشل ازم کی تعمیر کامخالف تھا۔ اسٹالن ٹراٹسکی تنازعے پر جے سن ڈبلیو اسمتھ نے اپنی کتاب ABC’s of Communism, Bolshevism 2013 میں بڑے کام کی بات کی ہے کہ ہمیں اصل دستاویز کا مطالعہ کرناچاہیے۔ اس مطالعے کے نتیجے میں پتاچلتاہے کہ ٹراٹسکی اور اس کے ساتھیوں نے اسٹالن کے بارے میں کتنا جھوٹ پھیلا رکھاہے اور ان کے پھیلائے ہوئے اس جھوٹ کو امریکا کے خفیہ ادارے مزید بڑھاچڑھاکر پھیلاتے رہے۔

ایکسپریس: ٹراٹسکی پر کوئی واضح الزام بھی ہے؟

یوسف حسن: اصل اور سب سے بڑا الزام یہ ہے کہ اس نے جاپانی سام راج اور جرمن سام راج سے سوویت یونین پرحملے اور اسٹالن کا تختہ الٹنے کی سازباز کی اور جس ہوٹل میں ٹراٹسکی کے آدمی کے ساتھ جاپانیوں کا مالی لین دین ہوا، اس کی ساری تحقیق، تصاویر کے ساتھ، مارکسی الیکٹرانک جرنل کلچرل لاجک میں چھپ چکی ہے، گویا ٹراٹسکی پر اصل مقدمہ غداری کاتھا۔

ایکسپریس: دنیا پر این جی اوز نے یلغارکررکھی ہے، پاکستان بھی لپیٹ میںہے، وہ، جنہیںترقی پسندہونے کادعویٰ تھا، اکثر ان اداروںکی بھول بھلیاں میںگم ہوگئے؟

یوسف حسن: پس منظر کے طور پر ایک تو یہ بات ہے کہ پاکستان کے زیادہ تر چھوٹے بڑے دانش ور، جو مارکسی یا مارکسیت نواز سمجھے جاتے ہیں، وہ اپنے مطالعے اور تجزیے کے طریقِ کار کے لحاظ سے مارکسی تھے ہی نہیں بل کہ ’روشن خیالی‘ کی ’عقلیت پسندی‘ سے زیادہ متاثر تھے۔ اِس لیے ان کے رویوں میں سماجی عمل اور طبقاتی جدوجہد کی حیثیت ثانوی تھی۔ دوسرے یہ کہ بیسویں صدی عیسوی کے آٹھویں عشرے میں عالمی سرمایہ داری ایک نئے دور میں داخل ہوئی، جس میں مائیکرو الیکٹرانک ٹیکنالوجی، کنٹینریزائزیشن (Containarization) اور الیکٹرانک ابلاغ عامہ نے غیر معمولی کردار ادا کیاہے، جس کے نتیجے میں جسمانی محنت کا اخراج بڑھ گیا اور ذہنی محنت کے کردار میں اضافہ ہوا، اس کے علاوہ سماجی خدمات اور بہت سے تہذیبی مظاہر بھی جنسِ بازار بن گئے۔

اس ماحول میں ذہنی محنت کرنے والوں کی مراعات اور ملازمتوں کے مواقع زیادہ ہوگئے، پھر سوویت یونین اور مشرقی یورپ میں اشتراکیت کی ٹوٹ پھوٹ نے بھی درمیانے طبقے سے تعلق رکھنے والے بہ ظاہر مارکسی لیکن درحقیقت ’روشن خیال عوام دوست دانش وروں‘ میں مایوسی پھیلا دی۔ اس صورتِ حال میں انہوں نے نظریاتی تعلیم و تربیت کے اصل ماخذوں کا نئے سرے سے مطالعہ کرنے کے بجائے یا تو مختلف طرح کے نشوں، جسمانی لذتوں یا خانقاہوں میں پناہ لے لی یا پھر سام راجی فنڈز سے چلنے والی این جی اوز میں اعلیٰ مراعات کے جو دروازے کھلے، ان کی طرف دوڑ پڑے۔

محض ملازمتوں کی مجبوری کے تحت نہیں بل کہ نظریاتی تبدیلی کے ساتھ؛ وہ اپنی سماجی تاریخ میں عوام کے لیے قربانیاں دینے والوں کی بھی تحقیر و تردید کرنے لگ گئے۔ اس صورت حال میں سچے عوام دوست، ترقی پسندوں پر بڑا کڑا وقت ہے سو ضروری ہو گیاہے کہ حقیقی ترقی پسند دانش ور، سماجی اور تہذیبی شعبوں میں بھی ریاست اور سام راجی این جی اوز اور سماجی و تہذیبی دائروں کے متوازی تیسری قسم کے سماجی تہذیبی ادارے بنائیں اور اپنی عوام دوست جمہوری روایات اور مظاہرکومحفوظ رکھتے ہوئے نئی نسلوں تک پہنچائیں، اس بدلی ہوئی صورتِ حال میں نئے وسائل کے ساتھ اپنی اور اپنے عوام کی نظریاتی اور تخلیقی صلاحیتوں کو نکھارنے کا کام کریں۔ یہ کام ریاضت اور ایثار کاہے مگرہمیں کبھی نہ کبھی، کہیں نہ کہیں سے تو ایک بار پھر اپنے کام کا آغاز کرنا ہی ہے۔

ایکسپریس: ادب کی زوال پذیری میںکیا مابعدجدیدیت کا بھی کوئی ہاتھ ہے؟

یوسف حسن: بیسویںصدی کی آٹھویںدہائی میں عالمی سرمایہ داری ایک نئے دورمیںداخل ہوئی، جس میںمابعدجدیدیت کی صورتِ حال بھی پیداہوئی اورعالمی سرمایہ دارانہ مارکیٹ کا جزو ہونے کی حیثیت سے یہ صورتِ حال کسی نہ کسی درجے پر ہمارے سماج میں بھی نمودار ہوئی، اس میں محنت کشوں کی تحریکوں میں ٹوٹ پھوٹ ہوئی اور ذہنی محنت کرنے والوں کے کردار میں اضافہ ہوا، اس کے ساتھ ہی مابعدجدیدیت پسندی کے نظریے کی بھی تشکیل ہوئی، جس کی گونج ہمارے علمی اور ادبی حلقوں میں بھی سنی گئی، اسی مابعد جدیدیت پسندی کے نظریے کے زیر اثر ہی مارکسی نظریے کو زیادہ زور شور سے اتھارٹی ٹیٹو قرار دیا گیا۔

مابعد جدیدیت پسندی کا رویہ تو یہاں تک غیر علمی ہے کہ کسی بھی نظریے، حتیٰ کہ نیچرل سائنس کے کسی نظریے کو بھی اتھاری ٹیٹو قرار دے دیتاہے۔ مابعد جدیدیت پسندی اصل میں علمیاتی طور پر اضافیت سے کہیں آگے بڑھ کر اضافیت پرستی میں تبدیل ہو جاتی ہے، جو ہر عالم گیرصداقت یا خاص طور پر انسانی نجات کے عالم گیر نظریے کو مسترد کرتی ہے اور چھوٹے چھوٹے تہذیبی یونٹوںکواپنی اپنی اضافی صداقت کا معیار بنانے اور ان ہی سے کام چلانے کی ترغیب دیتی ہے۔

گویا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ سرمایہ داری جتنی وسعت اور گہرائی کے ساتھ عالم گیر ہوتی جا رہی ہے اور اسے انسانیت کے حق میں رد کرکے متبادل انسانیت نواز سماج قائم کرنے کے امکانات جتنے بڑھتے جارہے ہیں، ان امکانات کو حقیقت میں ڈھلنے سے روکنے کے لیے مابعد جدیدیت پسندی کی حاشیہ پسندی، سماجی ریزہ کاری (Fragmentation) اور انفعالیت پسندی کواتناہی پھیلایاجارہاہے اور اس کوگوپی چندنارنگ جیسے نقاد ’’تخیل کا جشنِ زرّیں‘‘ کا خوب صورت نام دے کر ادیبوں میں قابل قبول بنانا چاہتے ہیں۔

بات یہ ہے کہ انسان کو کچھ اضافی آزادیاں حاصل ہیں، جسمانی بھی اور ذہنی؛ انسان اہم کارنامے بل کہ کوئی بھی کام اپنی بعض اضافی آزادیوں کی تحدید (حد بندی) کرکے ہی کرسکتاہے، مثال کے طور پر ہم ایک مقام سے کسی بھی سمت روانہ ہوسکتے ہیں مگر اپنے دفتریا گھر پہنچنے کوکوئی ایک خاص راستہ ہی اختیار کرتے ہیں، باقی چھوڑ دیتے ہیں، اسی طرح ادب میںتخیل اور خاص طورپر جذبہ آمیز تخیل بنیادی حیثیت رکھتا ہے لیکن اگر اس جذبہ آمیز تخیل کو کاری گری یا فنی تیکنیکوں سے کام لیتے ہوئے قابو میں نہ رکھا جائے تو ہم کوئی ادبی ہیئت تخلیق نہیں کرسکتے۔ ادبی ہیئت کی تخلیق کے لیے ہمیں تخیل کا جشن زریں منانے سے خود کو روکنا پڑے گا۔

اردو میں مارکسی جہاں بینی اور علمیات پر مواد نہ ہونے کے برابر ہے۔ مارکسی جہاں بینی سارے سماج کو Totality یا کلیت میں دیکھتی ہے۔ یہ کلیت نہ تو بند وحدت الوجودی کلیت ہے اور نہ ہیگل کی بند کلیت ہے بل کہ مارکسی سماجی کلیت اپنے ماضی اور مستقبل دونوں سروں پر کھلاپن رکھنے والی کلیت ہے اور اس کلیت کے ارکان مسلسل حرکت اور نشوونما میں رہتے ہیں، محض کلیت کی اصطلاح کی وجہ سے اسےTotalianism (بند کلیت پسندی) سمجھ لینا بدترین مغالطہ ہے۔ مارکسی کلیت فرد کی نفی نہیں کرتی بل کہ اسے زیادہ سے زیادہ آفاقیت کو جذب کرکے ثروت مند اور یک تا ہستی میں تبدیل کرنے کا نصب العین رکھتی ہے۔ یہ بات بھی یاد آ گئی کہ عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ اجتماعی سماجی عمل میں شرکت سے فرد کی ذات کی نفی ہوجاتی ہے۔

اس مغالطے کے برعکس حقیقت یہ ہے کہ فرد کی سوشلائزیشن میں جتنا اضافہ ہوتا ہے، اس کی آفاقیت اور یک تائی میں بھی اتنا ہی اضافہ ہوتا چلاجاتا ہے۔ خود سرمایہ داری نے اپنے تمام تر استحصال اور تشدد کے باوجود بنیادی سماجی تبدیلیوں کے جو امکانات پیدا کیے ہیں، ان کی تعلیم، تعبیر اور عملی تعمیر و تشکیل صرف مارکسی نظریے اور طریقۂ کارہی سے ہوسکتی ہے۔ ادبی اور غیر ادبی ترقی پسندوں نے نہایت مشکل حالات میں جو عملی فکری اور تخلیقی کام کیے، وہ پاکستان کی موجودہ اور آئندہ نسلوں کے لیے بھی ایک شان دار ’تحرک بخش ورثے‘ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ترقی پسندوںکے علمی اور ادبی کام پرخود ترقی پسندوں نے بھی تنقید کی ہے، جن میں، میںبھی شامل ہوں، ہماری یہ تنقید ترقی پسندی کو مزید پُرمایہ اور توانا بنانے کی خاطر ہے۔

ایکسپریس: انجمن ترقی پسند مصنفین بہ حال کی گئی ہے، کیاخیال ہے؟

یوسف حسن: افسوس ناک صورت حال یہ ہے کہ سات برس ہوتے ہیں انجمن ترقی پسند مصنفین کی ملکی سطح پر بہ حالی کو لیکن یہ اب تک ادیبوں کو تنقیدی او ر تخلیقی شعبوں میں نئی فکری، فنی اور جمالیاتی توانائیاں بخشنے سے قاصر ہے۔ اس کی بہت سی وجوہات ہوں گی، ایک دو وجوہات شاید یہ ہیں کہ ہمارے اکثر موجودہ ترقی پسند اپنے محنت کش عوام سے اُتنی گہری محبت نہیں رکھتے جو انہیں علمی لحاظ سے نئی نظریہ سازی کے علمی ماخذوں تک لے جائے اور اجتماعی جدوجہد میں شرکت سے ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو تابندہ تر کرسکے۔ ہمارے مقابلے میں لاطینی امریکاکے چھوٹے چھوٹے ممالک کے ادبی اور سماجی دانش ور علمی اور فکری لحاظ سے کہیں زیادہ ریاضت والے لوگ ہیں۔

انہوں نے مختلف علمی شعبوں میں قابلِ قدر اضافے کیے ہیں، مثال کے طور پر کیوباکے ایک ماہر نفسیات نے سوویت نفسیاتی تحقیقات کی کوتاہیوں پر گرفت کرتے ہوئے اس کی زیادہ بہتر نظریہ سازی کی ہے، ہمیں بھی اپنے قومی اور عالمی دونوں طرح کے ماحول اور تقاضوں کو پیش نظر رکھ کر نئے علمی وسائل سے کام لیتے ہوئے زیادہ بہتر ادبی اور فنی نظریہ سازی کی ضرورت ہے، اس کے ساتھ ساتھ اپنے عوام کی طبقاتی جدوجہد میں اپنی توفیق کے مطابق رفاقت ہی ہمارے ادب کو فکری، فنی اورجمالیاتی صورت دے سکتی ہے، نئے جہانوں سے آشنا کر سکتی ہے۔

انجمن ترقی پسند مصنفین کی مختلف شاخوں کو ریاستی اداروں کی نوازشات اور سام راجی تہذیبی اداروں کی مراعات سے بھی بچا کر خودمختار، عوام دوست تہذیبی و تخلیقی ادارے بنانے کی ضرورت ہے۔ عوامی ورکرز پارٹی کے مرکزی سیاسی رہ نما اور ادبی نقاد عابد حسن منٹو نے پارٹی کی ایک میٹنگ میں بڑی دل چسپ بات کہی تھی کہ پہلے جب کوئی سماجی مسئلہ پیداہوتاتھا توہم جلسۂ عام کرتے تھے مگر آج کل لوگ فائیو سٹار ہوٹلوں میں سیمینار کرتے ہیں۔ عابد حسن منٹو کی اسی بات سے مجھے فیض احمد فیض کی ایک بات یاد آتی ہے، انہوںنے کہا تھاکہ جب لاہور کی 42 مسجدوں سے ترقی پسندوں پر کفر کے فتوے لگائے گئے توہم نے مرزا ابراہیم کی صدارت میں موچی گیٹ میں مزدوروں کاجلسۂ عام کیا جس میں 25 ہزار افراد نے شرکت کی۔

یہ باتیں اس لیے اہم ہیں کہ ہمارے ہاں ادب سے لے کر اعلیٰ سے اعلیٰ علمی اور تہذیبی مظاہرکو عوام سے دور سے دورتر لے جانے کا رجحان بڑھتاجارہاہے اور اس رجحان کو بڑھانے میں بیرونی اور مقامی دونوں سرمائے کارفرما ہیں۔ میں نے پہلے بھی یہ بات کی کہ پچھلی صدی کی آٹھویں دہائی میں تہذیبی مظاہرکو جنس بازار بنانے کا رواج عام ہوا، عالمی سطح پر بھی اورمقامی سطح پر بھی۔ یاد آیا کہ 47 سے پہلے کرشن چند اور دوسرے ادبا مزدوروں کے جلسوںمیںجاکراپنے افسانے اور کلام سنایا کرتے تھے، ایسی روایات پاکستان میں بھی قائم رہیں لیکن بالائی درمیانے طبقے کے پاس دولت آئی اور ساتھ ہی سام راجی فنڈز پانے والی این جی اوز نے جو نیا کلچر بنایا اور ایک نئی غیر سرکاری بیورو کریسی بھی پیدا کی، اس نے بھی عوام اور تہذیبی اور تخلیقی شخصیات اور کارناموں کے مابین فاصلوںکوبڑھادیا ہے۔

یہ جوکسی نہ کسی نام سے ادبی میلے بڑے ہوٹلوںمیںمنعقد ہورہے ہیں، ان میںبھی عام آدمی دکھائی نہیںدیتا، بالائی طبقات اور بالائی درمیانے طبقے کی مخلوقات ہی ان میںنظر آتی ہیں۔ ایسے ادبی میلے شغل میلہ تو ہیں، کوئی بڑا تخلیقی تحرک پیدا نہیں کرتے، ان میں فنی وجمالیاتی لحاظ سے شخصیت کی بلندترتشکیل کے لیے نہ کوئی گہرائی ہوتی ہے نہ گیرائی۔ ان میلوںکو دیکھ کر پھر وہی سوال سامنے آتا ہے کہ ہم اپنی ذات کو، اپنے فن کو اور اپنی اعلیٰ سماجی اور جمالیاتی اقدارکوشو کلچر کا حصہ بنانے سے بچانے کی خاطر تیسری قسم سے عوام دوست ادبی و تہذیبی ادارے بنائیں۔ ترقی پسند کی حیثیت سے اپنے عوام کی بلند سے بلند تر سطح پرجمالیاتی تعلیم بھی ہمارے فرائض میں شامل ہے اور اس کے لیے ہمارا اپنے عوام، خصوصاً محنت کشوں سے رابطہ مضبوط تر ہونا چاہیے۔

۱۔سید علی عباس جلال پوری ہمارے ایک بڑے ترقی پسند روشن فکر مفکرہیں، بارہ کتابیں ہیںان کی، کسی میںبھی فردکی نظریہ سازی کے بارے میںبات نہیں، ہمارے عزیزحامدمدنی ایک بلند پایہ شاعر تو ہیںہی اس کے ساتھ واقعی ایک عالم ادبی نقادبھی ہیںلیکن فیض احمد فیض کے دفاع میںلکھی اپنی کتاب میں فرد کے مسئلے پر لکھتے ہیںکہ اُس وقت فرد کامسئلہ اتنا اہم تھا ہی نہیں ۔۔۔ ان کے اس جواز پر حیرت ہوتی ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

۲۔ اسٹالن، لینن کے خاص شاگردکی حیثیت سے مزدور یونینوںکی ہتھیاربند ہڑتالیں منظم کررہاتھا اور سرکاری خزانے لوٹ لوٹ کر لینن کو فنڈز بھی بھجوارہا تھا، یہ ہی نہیں، لینن کا اخبار Iskra (چنگاری) بھی غیر قانونی طور پرجاری رکھے ہوئے تھا، اسٹالن ہی کی وساطت سے لینن کے محنت کشوںسے رابطے تھے۔ ٹراٹسکی نے جاپانی اور جرمن سام راج سے سوویت یونین پرحملے اور حکومت کا تختہ الٹنے کی سازباز کی تھی، جس ہوٹل میں اس کا جاپانیوں کے ساتھ مالی لین دین ہوا، اس کی ساری تحقیق اور تصاویر سمیت چھپ چکی ہیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”مارکس، مذہب اور مغالطے۔۔۔یوسف حسن

  1. ترقی پسندی ہے کیا ؟ کیا اپنے ارد گرد دائرہ کھینچ لینا یا دوسرے طبقہ فکر کو بغیر مطالعہ مسترد کردینا اور خود کو عقل کل سمجھنا ، دوسرے مزاہب کو بغیر مطالعہ تنقید کا نشانہ بنانا ، چند نفوس پر مشتمل افراد کی فکر کو حرف آخر سمجھنا جو بلا شبہ پوری دنیا میں ناکام نظام تسلیم شدہ ہے ۔ کیا صرف غریب اور مزدوروں کی آواز اٹھانا یا ہاتھ میں منرل واٹر کی بوتلیں پکڑ کر نچلے طبقے کوپینے کے صاف پانی کی فراہمی کے نعرے لگانا ترقی پسندی ہے، ضرور روشنی ڈالیئے۔ خیر اندیش ۔۔۔ مغلجی اوکاڑہ

Leave a Reply