عورت ….”چکی چلتی جائے.”۔۔۔ قدسیہ جبیں

کسی زمانے میں چکی ہر گھر کی ضرورت ہوا کرتی تھی نور کے تڑکے اس کے سامنے رانگلے پیڑھوں پر گھر کی رانیاں سر کو بکل میں لپیٹ آ بیٹھتیں اور دن انگڑائی لے کر ابھی پوری طرح نمودار بھی نہ ہو پاتا کہ گھرر گھرر کی آواز دم توڑ جاتی اور سرخ ناچتے انگاروں پر سےگرما گرم اترتے پراٹھوں کی خوشبو آنگن کی دیواریں پار کرتی گلیوں میں سرسرانے لگتی.

پھر یہاں سے وہاں تک پھیلے آنگنوں میں جھاڑو پوچا ہو چکتا. دستی نل کے ساتھ بنے کھرے سے لے کر رسوئی تک میں کوئی سنا ہوا برتن باقی نہ رہتا اور نکھرتی دھوپ میں ایک سہمی چڑیا کھرے کے چکنے فرش پر چمکتے پانی میں اپنی چونچ رکھ دیتی تو چرخے اور چکی پھر سے چلنے لگتے. ایک ہاتھ سے دانے ڈالو اور دوسرے سے گھرر گھرر گھماتے جاو. دوپہر اور شام کا تنور اسی آٹے سے آباد ہونا ہے . گلیوں میں صدا لگاتے اندھے فقیر کو یہی چکی روٹی فراہم کرے گی دور کھیت میں ہل چلاتا کسان دوپہر ہوتے ہی اس کا انتظار شروع کر دے گا. دارے اور چوپال میں اونچے شملے والوں کا پیٹ بھی نرا باتوں سے تو نہیں بھرتا … ریں ریں کرتے بچے بھی اسی روٹی کے ٹکڑوں سے بہلیں گے. اور خود چکی چلانے والیوں کے منہ میں بھی یہ گیہوں اترے گا تو کل کی چکی چلے گی.

پھر تمدن نے پلٹا کھایا . سماج کی رگوں میں دوڑتی عورت سے چکی چھن گئی جس کی گھرر گھرر سے دن بیدار ہوتا تھا . دور دیہات میں بھی چکی اب خال خال ہی نظر آتی ہے . روٹی مگرمل رہی ہے زیادہ تیزی اور برق رفتاری سے.

عورت کی دامن سے جڑی ایک نادیدہ چکی البتہ سماج کے ہر شہر، قصبے اور دیہات میں آج بھی باقی ہے جس کے دو پاٹوں کے درمیان وہ خود پس رہی ہے پستی جا رہی ہے. گھرر گھرر کی آواز پر سب سر اٹھاتے ہیں چکی کو گھمانے والا ہاتھ مزید تیز ہو جاتا ہے گھرر گھرر اک شور میں بدل جاتی ہے جس میں آوازیں ایک دوسرے میں گتھم گتھا ہو رہی ہیں . بس اتنا سنائی دیتا ہے عورت .عورت اور عورت. چکی چلتی جاتی ہے. دونوں پاٹوں کے بیچ سے آواز نکل کر فضا میں پھیل رہی ہے :عورت ، عورت ” . اور آنگن کی دیواروں سے پار تک کی ساری فضا میں ایک سڑاند سی پھیل رہی ہے

ہر چکی کی طرح اس چکی کے بھی دو پاٹ ہیں جن کے بیچ عورت کی ذات دب گئی ہے .ایک طرف جاہل اور تنگ نظر ملا خدا بنے بیٹھے ہیں اور دوسری جانب فاشسٹ لبرل. اور جس لطیف فطرت پر خدا نے اپنی اس تخلیق کو دنیائے عمل میں اتارا تھا اس کا خون چکی سے نکل نکل کر پورے ماحول کو مکدر کر رہا ہے .

دونوں نے عورت کو انسان سے زیادہ جنس سمجھا. سو پہلا گروہ اپنی عورتوں کے ساتھ چلنے سے گبھراتا ہے. گھر سے باہر ان کا نام لینا بھی اس طبقے کے لیے باعث عار ہے. وہاں عورت کی مجبورا کوئی پہچان بنانا ضروری بھی ہو تو مرد کے ساتھ نتھی کیے بغیر نہیں بن پاتی. یہی تو ہیں جن کے پیروکار نماز پڑھیں یا نہ پڑھیں . کسی خط ، کتاب یا دستاویز پر اپنی بہن ، ماں ، بیٹی یا بیوی کا نام شرعا حرام سمجھتے ہیں. ساری رات ننگی فلمیں دیکھنے کے بعد ان کی حیا عروج پر پہنچ جاتی ہے اور صبح میں وہ عورت کو فتنہ و فساد قرار دینے کے لیے بیتاب ہوئے جاتے ہیں . خدا کی عطا کردہ بے شمار حلال چیزیں یہ گھر کی عورتوں کے لیے حرام قرار دینا باعث ثواب سمجھتے ہیں اور اس نیکی کے ذریعے خدا کا قرب تلاش کرنے میں لگے رہتے ہیں.

چکی کے اوپر کا پاٹ ننگی تلواریں سونتے عورت کو آزادی دلانے نکلا ہے . مگر یہ بھی عقل و خرد سے اتنا ہی پیدل ہے جتنا نچلا پاٹ. یہ ایک دوسری قسم کا خدائی کردار ادا کرنے میں پیش پیش ہے . وہ عورت کو ہر رشتہ سے آزاد کر دیتا ہے . خدا نے جن پاکیزہ جذبوں کی سانچ سے عورت کو تخلیق کیا تھا یہ اس کی ذات سے وہ سارے جذبے کھردرے چمچے سے کھرچتا جا رہا ہے . وہ سارے لطیف جذبات جو صنف نازک کا استعارہ ہیں اس طبقے کے نزدیک عورت کو کمتر گردانتے کے لیے تخلیق کیے گئے. سو یہ اسے لباس، شادی اور رشتوں سے ہی آزاد نہیں کرتا. بلکہ ایک مربوط معاشرے کے سارے پرزوں کو باہم جوڑتی اس عورت کو سماج میں اس کے سب سے اہم کردار یعنی گھر سے بے دخل کرنے پر سارا زور صرف کرتا ہے.

ایک نے اسے سب سے چھپا کر رکھنا چاہا. دوسرے نے بالکل ننگا کر دینا چاہا. دونوں ہاتھ نچا نچا کر ایک دوسرے پر ان غلیظ گالیوں کی بوچھاڑ کرنے میں لگے ہوئے ہیں جن کی تان عورت سے شروع ہوتی اور اسی پر ٹوٹتی ہے.

یہ عورت کے حقوق کی جنگ نہیں ہے یہ معاشرے کے دو پست ذہن اور انتہا پسند طبقوں کے ذہنی انتشار کی جنگ ہے اپنے مفادات اور اپنی خواہشات پر عورت کی مقدس ذات کو نچانے کی جنگ.

اور ان سب کے بیچ ایک خاموش طبقہ بھی ہے چکی کی گھرر گھرر سنتا اور بدبو کے بھبھکوں سے مکدر فضا میں ناک پر رومال رکھے اپنے آپ کو غلاظت سے بچا کر شاہراہ زیست سے گزرتا یہ قافلہ چھوٹا ہی سہی مگر وجود تو رکھتا ہے. وہی جو عورت کو ہر رشتے میں مقدس خیال کرتا ہے اور ایک نارمل انسان بھی. وہی جو راہ چلتے اپنی خواتین کے شانہ بشانہ چلنے میں نہ کوئی عار محسوس کرتا ہے نہ جھجک . جسے اپنے حلقہ احباب میں اپنےسے وابستہ خواتین کا تعارف کرانے میں ہر گز کوئی شرمندگی نہیں ہوتی. جو خواتین کو بھی اپنی صلاحیتوں کے استعمال و اظہار کا اتنا ہی موقع فراہم کرنے کا روادار ہے جیسا کہ مردوں کو.

جو عورت کو نسوانی وقار اور حیا کے ساتھ جینے ، آگے بڑھنے اور دنیا کو مزید خوبصورت بنانے میں اپنا کردار ادا کرنے کو عین حکم خداوندی سمجھتا ہے.

جو دنیا کی سب سے قابل احترام ہستی عورت کو سمجھتا ہے کہ وہ اس کے نبی کی پسندیدہ ترین چیزوں میں سے تھی. جو اپنی بیٹی کو معاشرے کا دبو اور جاہل کردار بنانے کی بجائے باشعور اور جراتمند بنانے کے لیے کوشاں رہتا ہے.

Advertisements
julia rana solicitors

تو کیا ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ یہی خاموش طبقہ چکی کی اس گھرر گھرر کے درمیاں پستی معاشرے کی اس مظلوم عورت کو آگے بڑھ کر مہارت سے نکال باہر کرے. سوئے منزل بڑھتے اس خاموش قافلے کو سماج میں عورت کے حوالے سے اپنا کردار موثر بنانے کا وقت کب آئے گا؟!!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply