تعلیمی نظام اور اساتذہ کا بچوں کے ساتھ رویہ۔۔ بلال حسن بھٹی

تعلیم کسی بھی معاشرے کی ذہنی جسمانی اور اخلاقی قوتوں کی نشوونما کا نام یے۔ مختلف فلاسفرز اور ماہرین تعلیم نے اس کی تعریف کچھ یوں بیان کی یے۔  

سقراط: “تعلیم سچائ کی تلاش کا نام ہے.” ارسطو: “تعلیم جسمانی اور اخلاقی نشوونما کا عمل ہے.” جان ڈیوی: “تعلیم تجربے کی مسلسل تعمیر نو اور تنظیم نو کا عمل ہے”. کانٹ: “تعلیم اس عمل کا نام یے جو آدمی کو صحیح انسان بناتی ہے.” اِبن خلدون: “تعلیم افراد میں معاشرتی اہلیت پیدا کرتی ہےتاکہ وہ نہ صرف اپنی زندگی کو بہتر طور پر گزار سکیں بلکہ معاشرے کی فلاح و بہبود کے بھی ضامن ہوں.” سر سید احمد خاں: “تعلیم انسان کی اندرونی صلاحیتوں کو اجاگر کرتی ہے اور انسان کو دین کے تحت رکھتے ہوۓ جدید و قدیم علوم سکھاتی ہے تاکہ وہ اچھا مسلمان بننے کے ساتھ ساتھ معاشرے میں اچھا اعلی مقام حاصل کر سکے.”

ان تمام تعریفوں کے مطابق تعلیم کا مقصد فرد کی ذہنی، جسمانی اور اخلاقی نشوونما، زندگی کے صحیح اصولوں سے واقفیت اور اس میں معاشرتی اہلیت پیدا کرنا ہے تاکہ وہ معاشرے میں بہتر طور پر اپنا کردار ادا کر سکے۔ 

ان تعریفوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اگر ہم اپنے نظام تعلیم اور اس سے فارغ التحصیل طلبہ پر نظر ڈالیں تو ہم بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ہمارے سکولوں سے پڑھ کر فارغ ہونے والے طلبہ کی نہ صرف ذہنی اور جسمانی صلاحیتیں بہتر طریقے سے اجاگر نہیں ہو پاتیں بلکہ ان کی اخلاقی تربیت تو نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ زیادہ تر طلبہ تعلیم حاصل کرنے کے باوجود اپنی صلاحیتوں کو بہتر طور پر بروۓ کار نہیں لا سکتے۔ 

اکثر لوگوں کو حکومت اور نظام تعلیم پر تنقید کرتے سنا ہے، اور بض اوقات یہ برحق بھی ہوتی ہے. لیکن ہم تمام کوتاہیوں اور غلطیوں کو حکومت پر تھوپ کر اور نظام تعلیم پر تبرا کرکے خود کو بری الزمہ نہیں کر سکتے۔ حکومت اور نظام تعلیم پر تنقید کرنے میں سب سے زیادہ پیش پیش ہمارے ٹیچر حضرات ہوتے ہیں جن کا کام ہی ماہرین تعلیم کی طرف سے بنائی گئی پالیسیوں کو سکولوں میں لاگو کرنا یے جب کہ پالیسی بنانے والی ہر کمیٹی میں ٹیچرز کی نمائندگی ہوتی ہے۔ استاد کو کسی بھی تعلیمی نظام میں بہت اہم حثیت حاصل رہی ہے اور تعلیم خاص طور پر رسمی تعلیم استاد کے بغیر ممکن ہی نہیں. لیکن بچوں کا پرائمری یا ایلمنٹری سطح پر تعلیم کا چھوڑ جانا ہو یا بچوں کی اخلاقی اور ذہنی نشوونما کا فقدان ہو، اس میں حکومت اور نظام تعلیم کے ساتھ ساتھ اساتذہ کا کردار ہمیشہ بہت اہم رہا ہے۔

ہمارے سکولوں میں چھوٹی چھوٹی باتوں پر اساتذہ کی طرف سے دی جانے والی سزائیں اور بے عزتی بچوں کی ذہنی نشوونما میں کمی کے ساتھ ساتھ ان کی اخلاقی پستی کا بھی سبب بنتی ہے. اساتذہ کا یہ رویہ آٹھ سے پندرہ سال کے بچوں کے ساتھ زیادہ ہوتا ہے جو کسی بھی بچے کی ذہنی اور جسمانی نشوونما کے ساتھ ساتھ اس کی اخلاقی تربیت کا بہت اہم وقت ہوتا ہے۔ مجھے آج بھی 2004 کی سردیوں کی وہ صبح یاد ہے.جب ہم چوتھی کلاس میں تھے. سکول میں اس دن ہمارے استاد غلطی سے جلدی آ گئے کیونکہ اس سے پہلے وہ شاذ ہی دس بجے سے پہلے آۓ ہوں. اور پھر غلطی سے ہمارا سبق بھی سن لیا جو پہلے ہمیشہ کلاس کا مانیٹر ہی سنتا تھا۔ ایک بدقسمت بے چارے کو سبق نہ آنے کی وجہ سے انھوں نے اس ٹھنڈ میں ساٹھ ڈنڈوں سے تواضع کی جس سے اس دس سالہ بچے کے نہ صرف ہاتھ سوج گئے بلکہ اس کی حالت ایسی ہوئی کہ ہم سب کی بھی بخشش ہو گئی لیکن وہ پہلا دن تھا جب اس بچے نے استاد کے جانے کے بعد نہ صرف انھیں گالی دی بلکہ ایسے لقب سے بھی نوازا جو آئندہ کے لیے ان کی وجہ شہرت بن گیا۔ یہ ہے وہ اخلاقی تربیت اور ذہنی نشونما جو ہمارے تعلیمی اداروں میں کی جاتی ہے۔

ستمبر 2005 میں حکومت نے بچوں کی جسمانی سزا کے خلاف “مار نہیں پیار” کی پالیسی بنائی جس کی اس وقت کی حکومت کی جانب سے خوب تشہیر کی گئی لیکن ابتدا میں ہی اس پالیسی پر عمل نہ ہونے کے برابر تھا۔ 2007 میں ہمارے ایک ریاضی کے ماہر استاد جو سوال نہ آنے پر گولی ٹیکہ دینا کبھی نہ بھولتے تھے (گولی سے مراد تھپڑ اور ٹیکے سے مراد ان کا وہ مکا تھا جو لگنے کے دس منٹ بعد تک بچے کے لیے سیدھا کھڑا ہونا مشکل ہوتا تھا)۔ ایک بچے کو مار ریے تھے کہ غلطی سے اس کا ناخن استاد کو لگ گیا۔ پھر ڈندے سے اس کی تواضع کرنے کے بعد دونوں کانوں سے پکڑ کر اسے ہوا میں بلند کرکے پھینک دیا۔ اس واقعے کی رپورٹ جبب ضلعی انتظامیہ تک پہنچی تو باقی اساتذہ کی بروقت مداخلت کی وجہ سے وہ معاملہ ختم ہوگیا۔

اس کے بعد مار کا وہ سلسلہ ختم تو نہ ہوا لیکن کافی حد تک کم ہوگیا۔ اس کے بعد مارنے کے بجائے گالی کلچر عام ہوا۔ اب بچے کی غلطی پر اساتذہ کی جانب سے نہ صرف بچے بلکہ اس کے سارے نسب کو گالیاں دینا عام ہو گیا جس سے طلبہ کی اخلاقی تربیت ایسی پستی کا شکار ہوئی کہ کلاس میں سموکنگ اور عربی کے پیریڈ میں فحش فلموں کے کلپ مولوی کی تقریر کہہ کر استاد کو دکھانا عام ہوگیا۔ یہ تو وہ چند واقعات تھے جو میری دس سال تعلیم کے دوران صرف ایک کلاس میں پیش آئے تھے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ڈی ایس ڈی کی 2009 کی رپورٹ کے مطابق شہروں میں 89٪ جب کہ دیہاتوں میں 91٪ بچوں کو سکول میں جسمانی سزا دی جاتی ہے۔ اور یہ سزا آٹھ سے تیرہ سال تک کے بچوں کو دی جاتی ہے۔

جدید تعلیمی فلسفے کے مطابق کلاس میں استاد کا کردار صرف مددگار اور معاون کی حد تک ہے۔ ابن خلدون نے بچوں کو جسمانی سزا دینے سے منع کیا ہے جب کہ امام غزالی نے بھی ناگزیر حالات میں بس دو چھڑیاں مارنے تک کی سزا متعین کی ہے۔ میں اساتذہ کے خلاف نہیں کیونکہ میں بھی ایک استاد کی شفقت کی وجہ سے ہی اس مقام پر پہنچا ہوں لیکن میں اس سزا کے خلاف ضرور ہوں جس میں بچوں کو حیوانوں کی طرح مارا جاتا ہے جس سے نہ صرف بچے کی جسمانی بلکہ ذہنی حالت بالکل تباہ ہو جاتی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

اگر اساتذہ اپنا فرض سمجھ کر پڑھائیں تو تمام چیلنجز کے باوجود پرائمری اور ایلمنٹری سطح پر بچوں کے سکول چھوڑنے کی اوسط کو کم کیا جا سکتا ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply