میرے ساتھ ہمیشہ عجیب ہوتا ہے ۔ کچھ بتانا ہوتا ہے،مگر کچھ پوچھ بیٹھتی ہوں ،اور مرزا ہے کہ اپنی قسم کا واحد۔ ۔سیدھے سبھاؤ کو الجھانے کا ماہر ۔کنول، پھول اور تتلیوں کے پنکھ پڑھتے ہوئے یونہی پوچھ بیٹھی ۔
“سلیم آپ نے طاہرہ کا ظمی کو پڑھا ہے؟ ”
مرزا جی نے چونک کر مجھے دیکھا۔
“نہیں، میں نے ساحرہ کاظمی کو پڑھا ہے۔”
” وہ تو ٹی وی آرٹسٹ تھیں۔؟ ”
کہنے لگے
“ضروری تو نہیں، پڑھنے کے لیے صرف کتاب ہو۔کسی کی شحصیت بھی تو ہو سکتی ہے ۔۔۔”
اب اس سیانے کو کون سمجھائے کہ لکھنے والے بھی ایک مکمل شحصیت ہوتے ہیں ۔اور بہتر لکھنے کے لیے بہترین پڑھنا ضروری ہے۔اورہمیشہ عورت نےہی عورت پہ بہترین لکھا ہے۔اور ویسے بھی ڈاکٹر صاحبہ کا اور میرا میکہ ایک ہی ہے یعنی گوجرانوالہ ۔ اب اس سے زیادہ بڑھ کے قدر مشترک اور کیا ہو گی کہ انہیں بھی حقہ پسند ہے اور مجھے بھی۔
طاہرہ کاظمی سے میری جان پہچان انکی نستعلیق اردو تھی اور اردو زبان کی چاشنی اور حلاوت ہمیں ایسے ہی کھینچتی ہے جیسےمیٹھے کے شوقین کو مٹھائی کی پلیٹ ۔
دوسرا بڑا تعارف معاشرے میں مرد کے رویوں پہ نشتر زنی تھا جس سے ہماری روح کو نئی فکر، تازگی، جرات اظہار ملی ۔شاید آپ کو لگتا ہو کہ طاہرہ جی بلا کی فیمنسٹ ہیں اور ان کو آپکے گھر کی خواتین پڑھ کے باغی ہو جائیں گی تو ایسا کچھ بھی نہیں ہو گا۔
بے شک مرزا جی سے پوچھ لیں ۔یہ الگ بات کہ وہ اپنے نادیدہ دکھ لے کر بیٹھ جائیں گے ۔
ڈاکٹر صاحبہ کہتی ہیں!
اگر آپ چاہتے ہیں کہ بڑھاپے میں شوہر کی چار پائی ڈیوڑھی میں نہ بچھے تو جوانی میں بیگم کو اپنا بنا لیجیے ۔یعنی تمام رشتوں کو اپنے مقام پہ رکھیں ۔تنے ہوئے رسے پہ بازی گر کی طرح توازن قائم رکھنے میں زندگی ہے۔
پانیوں پر لکھے ہوئے نام والا جان کیٹس۔۔سلمیٰ اعوان
برسوں سے ہم اپنی بچیوں کی آگاہی، انکی تعلیم وتربیت اور شادی سے پہلے شرعی حقوق کی آگاہی دینے کی بات کرتے ہیں لیکن نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات ۔یہ کتاب آپ کی بچیوں کو ہمت، اعتماد، خوصلہ اور رشتوں کے مقام کے بارے میں بتائے گی۔ یہ آگاہی اور ہماری اچھی تربیت مل کر ہماری بیٹیوں کو زندگی کا سامنا کرنے کی ہمت دے گی ۔ بہت عمدہ ڈاکٹر صاحبہ، جیتی رہیے کہ جینے کا راستہ بتاتی ہیں ۔
تیسرا بڑا تعارف عورت ذات پہ ہونے والے روایتی مظالم تھے۔خطہ، ملک، شہر چاہے جو بھی ہو عورت ذات ایک ہی ہے اور ہر جگہ مظالم کا شکار ہے۔ڈاکٹر صاحبہ نے اس کتاب میں عورت کو وہ مقام دیا ہے جسکی کوشش شاید ہمارے ہندوستانی معاشرے کی عورت نے خود بھی نہیں کی۔ میں نے انہیں گائنا کالوجسٹ کےساتھ ساتھ ہارٹ سپیشلسٹ بھی سمجھتی ہوں کہ ہم عورتوں کے دل پہ گزرنے والی قیامتیں یہ دور بیٹھے پڑھ لیتی ہیں،اور تمام رشتوں کو ان کے اصل مقام پہ نگینے کی طرح فٹ کر دیتی ہیں ۔ سارے رشتے اور رویے نتھرے پانی کی طرح شفاف نظر آنے لگتے ہیں ۔مہ ناز رحمٰن ان کو مایا اینجلو کہتی ہیں ۔
عورت پہ آج تک کا لکھا ایک طرف اور ڈاکٹر صاحبہ کا لکھا ایک طرف ،سو سنار کی ایک لوہار کی ۔
یہ کتاب انسانی رویوں کی پہچان کرواتی ہے۔اور مزے کی بات یہ کہ۔۔۔ ڈاکٹر صاحبہ کیوں، کون اور کیسے کی طرح کے سولات اور مسائل کا حل بھی بتاتی ہیں جو کہ عموماً لکھنے والوں کے پاس نہیں ہوتا۔
ہماری عورتوں اور،بیٹیوں کی آگہی کے لیے اس میں اتنا کچھ ہے کہ مہ ناز رحمٰن کہتی ہیں کہ میرا بس چلے تو میں اس کتاب کو یونیورسٹی اور کالجز کی سوشل سائنسز کے نصاب میں جمع کروا دوں۔اور واقعی ایسا ہی ہے۔ڈاکٹر صاحبہ آپ واقعی وقت کی نبض شناس ہیں ۔
طاہرہ کاظمی بہتری کیلئے بہترین سے بھی آگے کا لکھتی ہیں ۔
Facebook Comments