ھر گھر سے گھمن نکلے گا ۔۔۔محمد حنیف ڈار

حضرات گھمن صاحب کی واردات تو آپ نے سن لی ، کچھ نے مان لی کچھ نے نہیں مانی۔ جنہوں نے نہیں مانی وہ مجھے ماننے والوں سے زیادہ پیارے ھیں کیونکہ یہ ان کا علم اور علماء سے حسنِ ظن ھے جس میں وہ خود اپنے آپ سے لڑ کر بھی یہی چاھتے ھیں کہ یہ سب جھوٹ نکلے اور ان کا حسنِ ظن سلامت رھے اور وہ اپنے بچوں کو منہ دکھانے کے قابل رھیں –

میرے لئے یہ کیس نیا نہیں ھے اور نہ کچھ زیادہ انوکھا ھے کہ یہ میری فیلڈ ھے ، میں نے بہت سارے نیک ناموں کو پکڑا ھے ، انٹرویو بھی کیا ھے ، نکالا بھی ھے ، گواہیاں بھی سنی ھیں اور حلف بھی لئے ھیں۔ آج میں چند وارداتیں ، ان مجرموں کی نفسیات اور ان کے وہ دلائل نقل کرنے چلا ھوں جو وہ اپنے ضمیر کو مطئن کرنے کے لئے دیتے ھیں اور جن کے زور پر وہ اس قسم کے قبیح فعل کا ارتکاب کر کے بھی شرمسار نہیں ھوتے بلکہ سینہ زوری کرتے ھیں ،

امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ھے کہ عام آدمی کا گناہ چھپانا واجب ھے اور عالم کا گناہ چھپانا واجب تر ھے کیونکہ لوگ ان کے فعل سے دلیل پکڑتے ھیں۔ مگر یہ بات ھے ذاتی اور لازمی گناہ کی، جیسے کسی نے روزہ نہیں رکھا یا کوئی اس قسم کا گناہ کر لیا جس کا تعلق اس کی اپنی ذات کے ساتھ ھے ، لیکن ایسا متعدی گناہ جو دوسروں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لے اس میں عوام کو آگاہ کرنا نہایت ضروری ھوتا ھے۔ جیسا کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ایک آدمی کو دور سے آتے دیکھا تو ام المومنینؓ کو فرمایا کہ یہ شخص اپنی قوم کا شریر ترین بندہ ھے ، مگر جب وہ آپ ﷺ کے پاس آیا تو آپ نے اس کا خوب اکرام کیا ،، جب وہ چلا گیا تو ام المومنینؓ نے پوچھا کہ آپ ﷺ نے ھمیں تو اس شخص کے بارے میں یہ فرمایا تھا ،اور خود اس کا اتنا اکرام فرمایا ھے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ تمہیں پہلے سے اس لئے خبردار کر دیا تھا کہ کہیں میرے اکرام کو دیکھ کر تم اس کو ثقہ اور معتبرنہ سمجھ لو۔ میرا اکرام میرے اخلاق کا آئینہ دار ھے ، میں کسی کی برائی کی خاطر اپنے اخلاق کو داغدار نہیں کر سکتا –

ایک صاحب میں نے مسجد والے کمرے میں نائب امام کے طور پر رکھے جو میرے والد صاحب کی عمر کے تھے، حافظ قرآن تھے۔ مقصد یہ تھا کہ میں آگے پیچھے جاتا ھوں تو وہ نماز وغیرہ پڑھا دیا کریں گے۔ ایک دوست نے جو ائیرپورٹ پر کام کرتے تھے اپنا 10یا 12 سال کا بچہ ان کے پاس حفظ کرنے بٹھا دیا۔  وہ عصر سے عشاء کے بعد تک ان کے پاس رھتا ، سبق ،سبقی ،منزل سب سنی جاتی ، پہلے پہل اس کو خوب مارتے تھے ، میرے دو تین بار اعتراض کرنے پر انہوں نے مارنا چھوڑ دیا اور اپنی مصلحت کے تحت انہوں نے بچہ ٹیون کر لیا رمضان کا مہینہ تھا اور حافظ صاحب آخری عشرے کے لئے اعتکاف کرنے سعودیہ بیت اللہ چلے گئے۔ عید پر میرے ماموں بدع زاید سے تشریف لائے جن کو مسجد والے کمرے میں ھی سلایا گی۔ حافظ صاحب عید والے دن واپس آئے تھے ، عید سے اگلے دن ماموں اور حافظ صاحب کمرے میں سوئے ھوئے تھے جس کا ایک دروازہ مسجد کے مینار میں کھلتا ھے۔ یہاں کے مینار میں کافی گنجائش ھوتی ھے گدا لگا کر بندہ سو بھی سکتا ھے اور فریج الماری بھی رکھی جا سکتی ھے۔ حافظ صاحب اس بچے کو مینار میں لے گئے، ان کی بدقسمتی کہ میرے ماموں کچی نیند میں تھے، جب سرگوشیوں میں حافظ صاحب نے اس کو کمانڈ دی کہ مینار میں چلو تو وہ چونک گئے۔ حافظ صاحب سے وہ ذاتی طور پر واقف نہیں تھے ، ورنہ شاید شک نہ کرتے کیونکہ میرے ابا جان کے بقول اس وقت دنیا میں زندہ ولی اللہ صرف حافظ صاحب تھے، خیر ماموں نے ان کو موقع پر پکڑ لیا – ماموں جان تبلیغی جماعت کے بڑے متحرک اور باعمل بزرگ تھے ، انہوں نے والد صاحب سے بات کی ، والد صاحب شدت غم سے رونا شروع ھو گئے، ان کا آئیڈل مر گیا تھا ، بت ٹوٹ گیا تھا۔ کہنے لگے کہ اگر مجھے امام دین یہ بات نہ بتاتا تو میں کسی اور کی بات کبھی نہ مانتا۔

بچے کو بلایا گیا اس نے ساری کیفیت بتا دی ،، اس کے باپ کو بھی بلایا گیا اور بچے کو بھی فارغ کر دیا گیا اور حافظ صاحب بھی سب کچھ سمیٹ سماٹ کر رخصت ھو گئے۔ ان کے مرید تو مجھے کھانے کو دوڑتے تھے جس طرح گھمن صاحب کے دیوانے اور دیوانیاں کر رھی ھیں – مگر حافظ صاحب کائیاں تھے وہ کہتے جب میں نے خدا پر چھوڑ دیا ھے تو تم لوگ بھی چھوڑ دو – گاؤں میں مسجد مدرسہ بنایا تو امام اور مدرس کے لئے الگ الگ کمرہ کچن باتھ کا سیٹ بنایا اور شرط یہ رکھی کہ وہ بیوی بچے ساتھ رکھیں گے۔ مگر بیوی بچے ساتھ ھونے کے باوجود 8 میں سے چھ کو بچوں سے بد فعلی کی وجہ سے نکالنا پڑا۔ لوگوں کو کچھ بتا بھی نہیں سکتے تھے اور لوگ الزام لگاتے تھے کہ یہ مولوی کو ٹھہرنے نہیں دیتے۔ ایک صاحب نے تو کمال کر دیا ،نزدیک کے قصبے میں مکان کرائے پر لے لیا۔ جہاں وہ یہ کام کرتے تھے ، قریب کالج تھا ، کالج کے لڑکوں سے تو شیطان بھی پناہ مانگتاھے ، وہ محسوس کر گئے کہ یہ مولوی ھماری بغل میں دو نمبری کر رھا ھے۔ آخر انہوں نے اس کو ننگا پکڑ لیا اور مار مار کر دنبہ بنا دیا ،، جس کے بعد اس کو گاؤں سے دفعہ کیا گیا ، ھم نے تنگ آ کر مسجد کا مدرسہ ھی بند کر دیا۔

Advertisements
julia rana solicitors

یہ مرض ھر اس جگہ سے لگتا ھے جہاں بچے اکٹھے سوتے ھیں ، چاھے وہ کالج کا ھوسٹل ھو یا مدرسے کا۔ رات کو وارداتیں ھوتی رھتی ھیں اور مہتمم صاحباں ایک کان سے سنتے اور دوسرے سے نکال دیتے ھیں ، کیونکہ ان کے نزدیک اس فعل کے مرتکب کو ڈانٹ ڈپٹ کر کے اور توبہ کرا کر چھوڑ دینا چاہئے ” اور تم مردوں میں سے دو جو یہ کام کریں ان کی ڈانٹ ڈپٹ کرو اور اگر توبہ کر لیں تو ان سے درگزر کرو(( واﻟذان ﯾﺎﺗﯾﺎﻧﮭﺎ ﻣﻧﮑم ﻓﺂذوھﻣﺎ ﻓﺎن ﺗﺎﺑﺎ واﺻﻟﺣﺎ ﻓﺎﻋرﺿوا ﻋﻧﮭﻣﺎ ان اﷲ ﮐﺎن ﺗواﺑﺎ رﺣﯾﻣﺎ- النساء 16)) یہ عام طور پر Molesting کرتے ھیں جسے عربی میں ملاطفت کہا جاتا ھے۔ جس میں ان کا رانجھا بھی راضی ھو جاتا ھے ، میڈیکل کا بھی کوئی خطرہ نہیں ھوتا ھے اور بقول ان کے شریعت بھی گنگ کھڑی رھتی ھے کہ جس چیز پر وہ سزا کا نفاذ چاھتی ھے وہ تو ھوئی ھی نہیں ، اور بقول ان کے “اگر تم بڑے گناہ سے بچ جاؤ تو چھوٹا ھم معاف کر دیں گے “کی شق کے تحت یہ بس دل لگی ھے کوئی جرم نہیں – اس واردات میں سب سے بڑا ظلم خود قرآن کے ساتھ ھوتا ھے۔ میری مسجد والے حافظ صاحب بھی بچے کو بس ھاتھ دھلا کر قرآن پکڑا دیتے تھے کہ تمہارا کچھ نہیں بگڑا ، اور یہی کام ھماری مسجد کے امام اور مدرس کرتے تھے۔ بچے کو نہانے کا کہتے تو دوسرے بچے شک کرتے ،لہذا وہ بھی بچے کو نہانے سے منع کر دیتے۔ مگر ایک خدا ترس قاری صاحب بھی آئے تھے جو اس بچے کی خاطر سارے بچوں کو نہلانے کے لئے تالاب پر لے جاتے تھے ،جب یہ روٹین پکی ھو گئ تو والدین کو شک گزرا کہ یہ کیا ھو رھا ھے بھائی ؟ اور پکڑے گئے۔ الغرض ایک گھمن پہ نا رہیے، اس گھمن نظام کے خلاف آواز اٹھائیے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply