ریڈ برڈ۔ناول۔۔۔محمد حنیف/تبصرہ:بلال حسن بھٹی

ابھی محمد حنیف صاحب کا ریڈ برڈ پڑھ کر فارغ ہوا ہوں۔ چونکہ انگلش فکشن کو زیادہ نہیں پڑھا شاید اس لیے آغاز میں کہانی کو سمجھ نہیں سکا۔ پہلے اسّی صفحوں تک مجھے کہانی کو سمجھنے میں کافی مشکل پیش آئی تھی۔ لیکن اس کے بعد ایسا مزا آیا کہ باقی سارا ناول ایک ہی نشست میں ختم ہو گیا۔ محمد حنیف بی بی سی پر کالم لکھتے ہیں۔ ان کا طنز اردو کالم نگاری میں منفرد مقام رکھتا ہے۔ اس سے پہلے بھی انہوں نے ”لیڈی آف ایلیس بھٹی“ اور ”اے کیس آف ایکسپلوڈنگ مینگو“ جیسے دو ناول لکھے  ہیں۔ ” آ کیس آف ایکسپلوڈنگ مینگو“ تو دو ہزار آٹھ کی بُکر پرائز لسٹ میں بھی شامل تھا۔ ان کے حالیہ ناول ریڈ برڈ کو بھی بہت پذیرائی مل رہی ہے۔ اور امید ہے یہ بھی بُکر پرائز ناولوں کی لسٹ میں شامل ہو گا۔ دعا ہے کہ یہ بکر پرائز جیت جائے۔
ریڈ برڈ بنیادی طور پر امریکی جنگی پالیسی پر طنزیہ یا ہجویہ تصنیف ہے۔ جس میں امریکی جنگی پالیسی، مشرق وسطی میں جنگ سے پیدا ہونے والے حالات، خاندان، پیار اور سیاست جیسے موضوعات یا تھیمز کا ذکر کیا گیا ہے۔ ناول کی منظر نگاری ایک ایسے تخیلاتی علاقے میں کی گئی ہے جہاں ہر طرف ریت ہی ریت ہے۔ میں شروع میں اسے کوئی پاکستانی علاقہ سمجھتا رہا لیکن بعض لوگوں کے ریویو پڑھنے پر پتا چلا کہ یہ مشرق وسطی کے کسی علاقے سے تعلق رکھتا ہے۔ جہاں سے امریکی جنگی جہاز اڑ کر افغانستان میں بمب گراتے تھے۔ شاید کہانی کو شروع میں سمجھنے میں سب سے بڑی رکاوٹ یہ تھی کہ میں اس علاقے کو ذہن میں نہیں لا سکا تھا۔ جس کا ذکر ہو رہا تھا یا میں اس بارے تذبذب  کا شکار تھا۔ جب میں نے کیپٹل ٹاک اور نیٹ جیو کے بارے میں پڑھا تو مجھے محسوس ہوا کہ یہ پاکستان کے کوئی دوردراز علاقہ ہو گا جہاں امریکیوں کا کوئی ہوائی اڈہ ہے۔
محمد حنیف نے بہت شاندار منظر نگاری کی ہے۔ کہانی ایک پناہ گزینوں کے کیمپ کے بارے میں ہے۔ ایک ایسا کیمپ جو کسی ریگستان میں ہے۔ اس کیمپ کے اوپر نیلی  چھت ہے۔ ایک ایسا علاقہ جس میں ہر جگہ چور رہتے ہیں۔ جنہوں نے ہر چیز چوری کر کے بیچ دی ہے۔ وہ چوری کرنے میں  ماہر  ہیں۔ انہوں نے بنیادوں سے اینٹوں تک کو اُکھاڑ کر بیچ دیا ہے۔ وہاں سکول میں بھینسیں بندھی ہوئی ہیں۔ دکانوں والے منافع خور اور غلہ جمع کرنے والے ہیں۔ بلکہ ایک دکان کا نام ہی ”گاڈ سروینٹ فریش چکن اینڈ ویجیٹیبل شاپ“ (نوکر رب دا تازہ گوشت اور سبزی کی دکان) لیکن وہ بندہ سمگلر بھی ہے اور منافع خور بھی ہے۔ یہ نام پڑھ کر ایک دفعہ پھر محسوس ہوا کہ یہ کوئی ہمارے ملک کا ہی علاقہ ہے۔ یا پھر یہ دونمبروں کا بین الاقوامی ٹیگ ہے کہ وہ جتنے دو نمبر ہوتے ہیں اتنا مذہبی رویہ اپناتے ہیں۔ ناول پڑھتے ہوئے اکثر محسوس ہوا کہ پنجابی لفظوں یا روزمرہ فقروں کا انگلش ترجمہ کر کے لکھا گیا ہے۔
ناول کے شروع میں تین مرکزی کردار ہیں۔ ایلی جو امریکی پائلٹ ہے۔ مومو جو پندرہ سالہ لڑکا ہے اور ناول کا سب سے اہم  اور تیسرا کردار ہے “مٹ ” جو ایک کتا ہے۔ اس کے علاوہ ایلی کی بیوی کیتھ، مومو کا بھائی علی، لیڈی فلاور، مومو کی ماں اور باپ اور ڈاکٹر کے کردار بھی ناول کو آگے بڑھانے میں مدد دیتے ہیں۔
ایلی: امریکن پائلٹ ہے۔ وہ اپنی چھٹیوں پر گھر رہنے سے اکتا جاتا ہے اور وولینٹیئرلی مشن پر آ جاتا ہے۔ جو اپنے سینئر مسٹر سلیٹر کے فالو اپ کے طور پر کیمپ پر بمب گرانے آیا تھا۔ لیکن اس نے بمب نہیں گرایا اور اس کا جہاز کریش ہو گیا۔ جس کی وجہ سے اسے آٹھ دن بھوکھا پیاسا ریگستان میں بھٹکتا رہنا پڑا۔ پھر اسے مومو اٹھا کر کیمپ پر لے آتا ہے تا کہ وہ اپنے بھائی علی کو امریکیوں کے قبضے سے چھڑانے کے لیے اسے استعمال کر سکتا ہے۔ ریگستان میں بھٹکتے ہوئے ایلی کہتا ہے۔
“They give you a 65-million-dollar machine to fly, with the smartest bomb that some beam rider in Salt Lake City took years to design, you burn fuel at the rate of fifteen gallons per second and if you get screwed they expect you to survive on four energy biscuits and an organic smoothie. And look, a mini pack of After Eights.
مومو: کیمپ میں رہنے والا پندرہ سالہ لڑکا ہے۔ جو خودساختہ بزنس مین ہے۔ وہ کیپٹلسٹ آئیڈیالوجی پر یقین رکھتا ہے۔ اس کی زندگی کا مقصد پیسہ کمانا اور اپنے بھائی علی کو گھر واپس لانا ہے۔ وہ ناول کا سب سے اہم کردار محسوس ہوتا ہے۔ مومو کے کردار کے ذریعے ہی محمد حنیف نے امریکی جنگی پالیسی پر سب سے زیادہ تنقید کی ہے۔ مومو اپنے بارے بتاتے ہوئے کہتا ہے کہ
“I became a businessman. I buy and I sell. I provide services and I charge. I make deals and I take my percent age. While people discuss problems of growing up, I find solutions to the problems that grown-up   have. Some might say that I am an evil entrepreneur, a post-war profiteer, a petty black marketer, and I am gonna tell you that is jealousy speak.”
امریکی جنگی پالیسی اور اس کے پیچھے چھپی حقیقت پر بات کرتے ہوئے مومو کہتا ہے۔
“it was simple, they bombed us and then sent us well-educated people to look into our mental health needs. There were workshops called ‘Living with Trauma’ for parents, there was a survey about ‘Traditional Cures in a Time of Distress and Disorder.’ Our Camp was the tourist destination for foreign people with good intentions.”
مٹ: مٹ ناول کا ایک تیسرا اہم کردار ہے۔ مٹ ایک کتا ہے۔ وہ ایک ایسا کردار ہے جو کسی حد تک فلسفیانہ انداز اپنائے ہوئے ہے۔ شروع سے آخر تک مٹ انسانی جذبات اور احساسات کی خوبصورتی سے ترجمانی کرتا ہے۔ وہ جب ایک دفعہ مومو اور علی کے ساتھ سیر کو جاتا ہے اور ڈر جاتا ہے۔ تو وہ اس کے بعد زندگی کی ایسی حقیقت کو پا لیتا ہے کہ وہ فلاسفر ہو جاتا ہے۔
“Yet in that moment I became me. Before that I was just another above-average Mutt with common desires, beastly urges and an appetite for home-cooked food, but in that moment I rose above the ranks of common strays who had adopted troubled families and were trying their best. Momo says my brain got fried in that accident. I think I became a philosopher that day. It was the worst day of my life. But who knows maybe it was the best day of my life.”
وہ مومو کا پسندیدہ پالتو ہے اور ہر جگہ اس کے ساتھ رہتا ہے۔ ایک جگہ مومو کے بارے میں بات کرتے ہوئے وہ کہتا ہے۔
“It’s only Momo who cares about me. And really, you are lucky if you have one person in your life who does. When in pain, ask yourself who cares about you. And if you can think of one person, that pain is worth living through.”
بوٹ پالشیوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے مٹ کہتا ہے۔
“There’s a big difference between biters and lickers but the human race is not given to subtleties and most people can’t spot the difference. They see the bared teeth, they don’t see the lolling tongue. They see the curled up, shivering tail and not the intellect at work. They hear the growl and not the whine that says give me some love, oh please give me some love.”
اگر ناول کا مکمل جائزہ لیا جائے تو یہ جنگ کی حقیقت، کیمپ میں رہنے والے لوگوں کی زندگیوں اور حماقتوں کی مکمل تصویر پیش کرتا ہے۔ آخری حصے میں ہانگر میں رہنے والے لوگوں کے کردار اور مومو کی ماں جب مناجات پڑھتی ہے تو ان کے پورا ہونے پر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ہم کسی مافوق الفطرت دنیا کی سیر کر رہے ہیں۔ میرے لیے سب سے دلچسپ وہ سین ہے جب مومو کی ماں کہتی ہے کہ چونکہ میرے خاوند نے کہا ہے کہ کسی انجانے بندے کے سامنے ننگے سر باہر نہیں آنا۔ تو اس لیے جب میں کنوئیں سے پانی لینے آئی تو میرا دوپٹہ گھر رہ گیا تھا۔ جب واپس گھر جا رہی تھی تو دیکھا کہ کچھ لوگ گھر بیٹھے ہیں۔ اس لیے میں کچھ جلدی سے اپنی شرٹ اتار کر اپنے سر پر لے لی کیونکہ میرے خاوند نے یہ تو کہا تھا کہ تمہارا سر ننگا نہ ہو لیکن یہ نہیں کہا تھا کہ تمہارے بازو ننگے نا ہوں۔

Facebook Comments

بلال حسن بھٹی
ایک طالب علم جو ہمیشہ کچھ نیا سیکھنے کی جستجو میں رہتا ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply