ہمارے گوشت خور ایمان۔۔۔ عارف خٹک

میرے ایک دوست ہیں حاجی قہرمان, کابل ہوتے ہیں. آمریکن کنٹریکٹر ہے اور اس کی ذمہ داری امریکی فوجیوں کو تحفظ فراہم کرنا ہے. نہایت ہی مہمان نواز اور ملنسار ہیں. دل کا اتنا اچھا ہے کہ جہاں خوبرو بھکارن دیکھی فوراً سے پیشتر اس کا ہاتھ پکڑ کر اور قریب کرکے مٹھی میں سو افغانی پکڑا دیں گے اور زکوٰۃ کے پیسے کسی مقامی طالبان کمانڈر کو بجھوادیں گے کہ چلو اپنی آخرت کی بچت ہوئی اور روز قیامت اس کا بھی شمار غازیوں میں ھوگا.

حاجی صاب کی ایک عادت سے ہم سب دوست بہت تنگ ہیں. راہ چلتے کوئی حسینہ نظر آجائے تو سسکی مار کر فوراً زمین پر بیٹھ جائیں گے کہ اگر یہ میرے ہاتھ آجائے تو قسم سے کابل گونج اٹھے گا، میں بڑا دختر خور بندہ ہوں، میرے سے تو عورتیں پناہ مانگتی ہیں۔ پھر وہ نیویارک کے قصے سنائے گا کہ کیسے ایک رات میں تین تین پیشہ ور لڑکیوں کو اپنی پٹھنولی سے متاثر کیا۔ ایک دن کراچی میں وہ وارد ہوا سو میرا مہمان بن گیا۔ جب طارق روڈ کی شام عروج پر پہنچی تو ہم بھی وہیں پہنچے اور کچھ ہی دیر میں حاجی صاب پھر زمین پر بیٹھ کر یہی قصے سنانے لگ گئے.

میرے دوست عطاءاللہ نے جب اس کی یہ باتیں سنیں تو بیچارہ بڑا پریشان ہوا کہ یار یہ حاجی ہے یا کسی پورن فلموں کا حبشی ہے؟ حاجی صاب کی گل آفشانیاں جاری تھیں کہ عطاءاللہ نے مجھے آنکھ ماری اور گاڑی کا رخ ڈیفنس کی طرف موڑ دیا. جب وہاں پہنچے اور حاجی صاب سمجھ گئے تو کہنے لگے کہ برادر یہ پاکستانی بچیاں میرا ساتھ نہیں دے سکیں گی. نائیکہ سے کہہ کر ایک بھینس نما لڑکی کو اس کا پارٹنر بنا دیا اور ھم گاڑی میں حاجی صاب کا انتظار کرنے لگے۔ چالیس منٹ کے بعد حاجی صاب طنزیہ مسکراہٹ لبوں پر سجائے آئے اور گاڑی میں بیٹھ گئے کہ میں نے کہا تھا نا یہ پاکستانی بچیاں اپنا ساتھ نہیں دے سکتیں، وہ لڑکی بیہوش ہوگئی ہے۔ عطاءاللہ صاب نے موبائل سے اس لڑکی کا نمبر ڈائل کیا کہ ایسا کیسے ھوسکتا ہے تو لڑکی نے یہ کہتے ہوئے فون بند کردیا کہ چالیس منٹ کی محنت کرکے بھی وہ حاجی صاب کی مردانگی نہیں جگا سکی…..

دوستو، ھمارے ایمان بھی حاجی صاب کیطرح خود ساختہ ہیں اور یہی ایمان ھمارے صرف محرم الحرام میں انگڑائیاں لیکر بیدار ہوجاتے ہیں. ہمارے وہ بھائی جنہیں اشراق کے نوافل کا بھی نہیں پتہ ہوتا، وہ بھی فیس بک پر آکر فرقہ فرقہ کھیلنے لگ جاتے ہیں. بزرگوں پر تبرا کرتے ہیں اور ایک دوسرے کی کمزوریوں کا خوب مذاق اڑاتے ہیں. کربلا اور باقی معاملات پر یوں بات کرتے ہیں جیسے ابھی وہاں سے آئے ہیں۔ کافر سنی، کافر شیعہ کا کھیل کھیلا جاتا ہے۔ مگر یہی لوگ جب کسی بچی کو دیکھتے ہیں تو کبھی بھولے سے بھی ان کے ذہن میں یہ خیال نہیں آتا کہ لڑکی شعیہ ہے یا سنی بریلوی ہے یا دیوبندی؛ اس وقت ان کا ایمان ہوس کی بھوک میں گوشت کھانے چلا جاتا ہے.

Advertisements
julia rana solicitors

عارف خٹک ماہر افغان امور اور عملی صحافی ہیں۔ آپکی تحریر ایسا نشتر ہے جو معاشرے کا گندا مواد نکالتی ہے۔ 

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply